پاکستان مسلم لیگ ن نے ‘ پاکستان کو کو نواز دو ‘ کے نعرے کے تحت اپنا انتخابی منشور جاری کر دیا ہے۔ منشور کی اشاعت کے بعد زور و شور کے ساتھ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا یہ منشور قابل عمل ہے؟
منشور محض کوئی رسم نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضا ہے۔ ایسی کسی دستاویز کے جاری ہونے پر اس کے مخالفین کی طرف سے یہ اس پر تنقید اور اس قسم کے سوال کا سامنے آنا اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کے وزیرخزانہ سلمان شاہ نے اسے ناقابل عمل قرار دیا جب کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنے منشور کا چربہ قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی تنقید ایسی صورت میں تو کچھ وزن رکھتی اگر اس پر کوئی متعین اعتراض کیا جاتا ہے، اس قسم کے اعتراض رسمی ہوتے ہیں اور مخالفت برائے مخالفت۔ اس سے زیادہ ان میں کچھ وزن نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دستور قابل عمل ہے؟ سوال یہ ہے کہ اس منشور میں شامل کون سا پہلو قابل عمل نہیں؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ مسلم لیگ ن نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد چھٹے کسانوں کو سود سے پاک قرضے دے گی۔ فصل کو نقصان سے بچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اختیار کیا جائے گی جب کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جدید طریقے اختیار کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان کو نواز دو۔ مسلم لیگ ن نے منشور پیش کر دیا
چودہری سرور اب کس جماعت میں جانے والے ہیں؟
ایسے ہوتے ہیں سیاستدان؟
طائفہ: ہم خیالی سے ہم زوالی تک
پاکستان مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا، آرٹیکل 62 اور 63 کو اپنی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا، عدالتی، قانونی، پنچایت سسٹم، تنازعات کے تصفیے کا متبادل نظام ہو گا۔ عدالتی، قانونی اور انصاف کے نظام میں اصلاحات کی جائیں گی، بروقت اور مؤثر عدالتی نظام کا نفاذ کیا جائے گا، یقینی بنایا جائے گا کہ بڑے اور مشکل مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر ہو، چھوٹے مقدمات کا فیصلہ دو ماہ میں سنایا جائے گا، نیب کا خاتمہ کیا جائے گا، انسداد بدعنوانی کے اداروں اور ایجنسیوں کو مضبوط کیا جائے گا، ضابطہ فوجداری 1898 اور 1906 میں ترامیم کی جائیں گی، مؤثر، منصفانہ اور بروقت پراسیکیوشن ہو گی۔
ن لیگ کا انتخابی منشور میں کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جائے گی، کمرشل عدالتیں قائم کی جائیں گی، سمندر پار پاکستانیوں کی عدالتیں بہتر اور مضبوط بنائی جائیں گی، عدلیہ میں ڈیجیٹل نظام قائم کیا جائے گا، مالی سال 2025ء تک مہنگائی میں 10 فیصد کمی کی جائے گی، چار سال میں مہنگائی 4 سے 6 فیصد تک لائی جائے گی، پانچ سال میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں دی جائیں گی، کرنٹ اکاؤنٹ خساره جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تک کیا جائے گا، پانچ سال میں سالانہ بر آمدات 60 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے منشور کے چیدہ چیدہ نکات یہاں پیش کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے، انھیں دیکھتے ہوئے جو بات بھی کہیں جائے یا جتنے بھی بڑے عزم کا مظاہرہ کیا جائے، کم کی دکھائی دیتا ہے لیکن ن لیگ نے اپنے دستور میں جن پہلوؤں کی طرف توجہ دی ہے، وہ وقت کی اہم ترین ضرورتیں ہیں۔
ماحیولیات تبدیلیوں سے نمٹنے کا عزم ہو یا کسانوں کو بلا سود قرضے دینے کی بات، آئندہ مالی سال میں دس فیصد مہنگائی میں کمی کا وعدہ ہو یا آئندہ پانچ برسوں کے دوران میں مہنگائی کو چار سے پانچ فیصد پر لانے کا وعدہ، یہ سب باتیں عوام کے دل کی آواز ہیں اور یہ اس لیے قابل عمل ہیں کہ اگر کوئی حکومت حزب اختلاف اور اپنے عوام سے آمادہ جنگ ہوجانے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دے تو مؤثر حکمت عملی کے ذریعے یہ سب اہداف نہایت قلیل میں مدت میں حاصل کے جا سکتے ہیں۔
مسلم لیگ نے حکومت بنانے کی صورت میں بڑے پیمانے ملازمتیں فراہم کرنے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کوئی بھی حکومت اگر معیشت کے بنیادی اصول کے مطابق اگر اپنے وسائل پر انحصار کی پالیسی اختیار کر ے اور اقتصادی انتظام کو بہتر بنائے تو یہ ایسے اہداف بھی ناممکن نہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ بجلی کے لائن لاسز کم کیے جائیں اور بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی بل کم کیا جائے اور ملک میں موجود وسائل کام میں لائے جائیں تو بجلی کے نرخوں میں کمی ممکن ہے۔ کم و بیش ایسا ہی فارمولا گیس کی قیمتوں میں کمی بھی لا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اقتصادی راہ داری کا منصوبہ لپیٹ دیا گیا تھا۔ اسے دوبارہ پوری رفتار سے شروع کرکے اور اس کے اگلے مرحلے میں جا کر کروڑوں ملازمتیں پیدا کی جا سکتی ہیں جن میں نہ صرف پاکستانی کھپ سکتے ہیں بلکہ ہمیں بیرون ملک سے بھی لیبر حاصل کرنی پڑ سکتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ منشور نہ صرف وقت کی آواز ہے بلکہ قابل عمل بھی ہے، ضرورت اس عمل کی ہے کہ آنے والی حکومت ان اہداف کے حصول کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دے تاکہ وقت ضائع کیے بغیر اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ حکومت سازی کے بعد عوام زیادہ انتظار کے موڈ میں نہیں ہوں گے اور حکومت کی بھی یہ ذمے داری ہوگی کہ وہ انھیں فوراً ریلیف دے۔
اسی طرح حکومت نے جن آئینی اور عدالتی اصلاحات کا وعدہ کیا ہے وہ ہر جمہوریت پسند کے دل کی آواز ہے اور وہ ان اصلاحات میں کسی بھی حکومت کا دل و جان سے ساتھ دے گا۔