• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال فاروق عادل کے سفر نامے

باکو کی مظلوم شہزادی۔ سفر نامہ باکو کا تیسرا حصہ۔فاروق عادل کے قلم سے

نہاد نے داستان ختم کردی لیکن یہ سوال ہنوز باقی تھا کہ یہ سب ہوا ہوگا لیکن یہ مینار کب بنا اورکیسے بنا؟ چائے کی پیالیاں کچھ خالی تھیں اور کچھ ٹھنڈی ہوکر بدمزہ ہو چکی تھیں۔ ایک چائے دانی(çay cani) مزید منگوا لی گئی اور داستاں گو تازہ دم ہوکرپھر رواں ہوگیا: ”یہ ایک دکھ بھری داستان ہے“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آپ باقی کا حصہ پڑھئے۔

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
March 8, 2020
in فاروق عادل کے سفر نامے
0
باکو کی مظلوم شہزادی۔ سفر نامہ باکو کا تیسرا حصہ۔فاروق عادل کے قلم سے
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

نہاد نے بات پھر شروع کی۔یہ بھی ایک بادشا ہ کی کہانی ہے ۔ ملکہ امید سے تھی اور توقع تھی کہ سلطنت کو وارث مل جائے گا لیکن خدا کی خدائی میں کسے دخل؟ بیٹے کی توقع پوری نہ ہوسکی کیوں کہ اللہ نے اسے بیٹی سے نوازا تھا۔یہ خبر سن کر بادشاہ غضب ناک ہوگیا اور اس نے ملکہ اور شہزادی دونوں کوحرم سے نکال دیا۔کوئی ستر ہ برس گزرے ہوں گے کہ بادشاہ کا گزر جنگل سے ہوا جہاں اس کی نظر ایک حسینہ پر جاٹھہری، حسن ایسا کہ چاند اور سورج شرمائیں۔ بادشاہ کے حکم پر لڑکی کو محل میں منتقل کردیا گیاتاکہ اس کے ساتھ شادی رچائی جاسکے۔
”یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟“۔
لڑکی بادشاہ کی خواہش پر پریشان ہوگئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہی بادشاہ تو اس کا باپ ہے اور باپ کے ساتھ بیٹی کی شادی کیسی؟کچھ روز اس نے مہلت سوچنے کی مانگی پھر ایک فرمائش کی کہ یہاں ایک مینار تعمیر کیا جائے جس کی چوٹی سے نہ صرف اس شہر کا بلکہ دور دور تک پھیلے ہوئے پانیوں کا نظارہ بھی کیا جاسکے۔ بادشاہ کے حکم پر مینار تعمیر ہوا تو شہزادی دیکھنے کے لیے اس کی چوٹی پر پہنچی اور اللہ کو یاد کرکے نیچے بحرِ گیلان (Caspian Sea)کے پانیوں میں چھلانگ لگا دی تاکہ وہ اور اس کا باپ دونوں گناہ سے بچ سکیں، یہی سبب ہے کہ پرانے لوگ اس مینار کو کنواری کا مینار بھی کہتے ہیں، بس یہیں سے یہ شہر گض گلاسی(Qiz Qalasi)یعنی حسینہ کے قلعے کے نام سے پکارا گیا،اب لوگ اس مینار کو بھی یہی نام دینے لگے ہیں،یہ آوازِ خلق ہے، لوگ جیسے پکاریں گے، ویسے ہی یہ نام پھیلتے جائیں گے۔
داستان تمام ہوئی اورمحفل افسردہ ہوکر منتشر ہوگئی۔کچھ دیر بعد محکمہ اطلاعات کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی تو یہ سب سن کر وہ ہنسے اور کہا، خوب شخص ہے یہ نہاد بھی۔انھوں نے تصدیق کی کہ مینار کی تعمیر اور زمانہ  تعمیر کے بارے میں کئی مفروضے ماہرین آثار قدیمہ میں زیر بحث رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مینار ستارہ شناسوں کی رصد گاہ(Observatory)کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے اور بہت سے لوگ آج بھی
اسے آگ کا معبد ہی سمجھتے ہیں۔مجھے خلد آشیانی انتظار حسین یاد آئے جو کہاکرتے تھے کہ مورخ اور عالم جو بھی کہے، لوگ اسی بات پر ایمان لاتے ہیں جو کہانی بن جائے اور یہ مینار محض ایک کہانی نہیں، داستان ہے۔اگلی شام فوالر میدانی(فوارا چوک) کے قریب سے گزرتے ہوئے مایا نے ایک عظیم الشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع کہ وہ اوپرا۔ گورنمنٹ کالج پشاور جیسے بے شمار چھوٹے بڑے گنبدوں والی عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا”Opera ve balet teatri“یعنی یہ عمارت ایک تھیٹر کی تھی جہاں اسی ”مظلوم“ شہزادی کی کہانی چل رہی تھی۔جی نے بہترا زور مارا کہ چل اوئے مسافر جاکر اس پری پیکر کا تماشا دیکھ لیکن وقت نیز جیب اس کے آڑے آئی اور یہ مسافر اپنی خواہش کو وعدہ فردا پر ٹال کر آگے بڑھ گیا، ویسے بھی نہاد کی جادو بیانی سے اس کہانی کی جیسی تصویر ذہن میں بن چکی تھی، انتظار حسین کے پڑھنے والے اسی کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Previous Post

عورت پر ظلم کی بنیاد، قبائلی روایات

Next Post

میرا جسم میری مرضی یا فحاشی پھیلانے کی آزادی

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
میرا جسم میری مرضی یا فحاشی پھیلانے کی آزادی

میرا جسم میری مرضی یا فحاشی پھیلانے کی آزادی

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions