Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نہاد نے بات پھر شروع کی۔یہ بھی ایک بادشا ہ کی کہانی ہے ۔ ملکہ امید سے تھی اور توقع تھی کہ سلطنت کو وارث مل جائے گا لیکن خدا کی خدائی میں کسے دخل؟ بیٹے کی توقع پوری نہ ہوسکی کیوں کہ اللہ نے اسے بیٹی سے نوازا تھا۔یہ خبر سن کر بادشاہ غضب ناک ہوگیا اور اس نے ملکہ اور شہزادی دونوں کوحرم سے نکال دیا۔کوئی ستر ہ برس گزرے ہوں گے کہ بادشاہ کا گزر جنگل سے ہوا جہاں اس کی نظر ایک حسینہ پر جاٹھہری، حسن ایسا کہ چاند اور سورج شرمائیں۔ بادشاہ کے حکم پر لڑکی کو محل میں منتقل کردیا گیاتاکہ اس کے ساتھ شادی رچائی جاسکے۔
”یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟“۔
لڑکی بادشاہ کی خواہش پر پریشان ہوگئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہی بادشاہ تو اس کا باپ ہے اور باپ کے ساتھ بیٹی کی شادی کیسی؟کچھ روز اس نے مہلت سوچنے کی مانگی پھر ایک فرمائش کی کہ یہاں ایک مینار تعمیر کیا جائے جس کی چوٹی سے نہ صرف اس شہر کا بلکہ دور دور تک پھیلے ہوئے پانیوں کا نظارہ بھی کیا جاسکے۔ بادشاہ کے حکم پر مینار تعمیر ہوا تو شہزادی دیکھنے کے لیے اس کی چوٹی پر پہنچی اور اللہ کو یاد کرکے نیچے بحرِ گیلان (Caspian Sea)کے پانیوں میں چھلانگ لگا دی تاکہ وہ اور اس کا باپ دونوں گناہ سے بچ سکیں، یہی سبب ہے کہ پرانے لوگ اس مینار کو کنواری کا مینار بھی کہتے ہیں، بس یہیں سے یہ شہر گض گلاسی(Qiz Qalasi)یعنی حسینہ کے قلعے کے نام سے پکارا گیا،اب لوگ اس مینار کو بھی یہی نام دینے لگے ہیں،یہ آوازِ خلق ہے، لوگ جیسے پکاریں گے، ویسے ہی یہ نام پھیلتے جائیں گے۔
داستان تمام ہوئی اورمحفل افسردہ ہوکر منتشر ہوگئی۔کچھ دیر بعد محکمہ اطلاعات کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی تو یہ سب سن کر وہ ہنسے اور کہا، خوب شخص ہے یہ نہاد بھی۔انھوں نے تصدیق کی کہ مینار کی تعمیر اور زمانہ تعمیر کے بارے میں کئی مفروضے ماہرین آثار قدیمہ میں زیر بحث رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مینار ستارہ شناسوں کی رصد گاہ(Observatory)کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے اور بہت سے لوگ آج بھی
اسے آگ کا معبد ہی سمجھتے ہیں۔مجھے خلد آشیانی انتظار حسین یاد آئے جو کہاکرتے تھے کہ مورخ اور عالم جو بھی کہے، لوگ اسی بات پر ایمان لاتے ہیں جو کہانی بن جائے اور یہ مینار محض ایک کہانی نہیں، داستان ہے۔اگلی شام فوالر میدانی(فوارا چوک) کے قریب سے گزرتے ہوئے مایا نے ایک عظیم الشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع کہ وہ اوپرا۔ گورنمنٹ کالج پشاور جیسے بے شمار چھوٹے بڑے گنبدوں والی عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا”Opera ve balet teatri“یعنی یہ عمارت ایک تھیٹر کی تھی جہاں اسی ”مظلوم“ شہزادی کی کہانی چل رہی تھی۔جی نے بہترا زور مارا کہ چل اوئے مسافر جاکر اس پری پیکر کا تماشا دیکھ لیکن وقت نیز جیب اس کے آڑے آئی اور یہ مسافر اپنی خواہش کو وعدہ فردا پر ٹال کر آگے بڑھ گیا، ویسے بھی نہاد کی جادو بیانی سے اس کہانی کی جیسی تصویر ذہن میں بن چکی تھی، انتظار حسین کے پڑھنے والے اسی کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔
نہاد نے بات پھر شروع کی۔یہ بھی ایک بادشا ہ کی کہانی ہے ۔ ملکہ امید سے تھی اور توقع تھی کہ سلطنت کو وارث مل جائے گا لیکن خدا کی خدائی میں کسے دخل؟ بیٹے کی توقع پوری نہ ہوسکی کیوں کہ اللہ نے اسے بیٹی سے نوازا تھا۔یہ خبر سن کر بادشاہ غضب ناک ہوگیا اور اس نے ملکہ اور شہزادی دونوں کوحرم سے نکال دیا۔کوئی ستر ہ برس گزرے ہوں گے کہ بادشاہ کا گزر جنگل سے ہوا جہاں اس کی نظر ایک حسینہ پر جاٹھہری، حسن ایسا کہ چاند اور سورج شرمائیں۔ بادشاہ کے حکم پر لڑکی کو محل میں منتقل کردیا گیاتاکہ اس کے ساتھ شادی رچائی جاسکے۔
”یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟“۔
لڑکی بادشاہ کی خواہش پر پریشان ہوگئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہی بادشاہ تو اس کا باپ ہے اور باپ کے ساتھ بیٹی کی شادی کیسی؟کچھ روز اس نے مہلت سوچنے کی مانگی پھر ایک فرمائش کی کہ یہاں ایک مینار تعمیر کیا جائے جس کی چوٹی سے نہ صرف اس شہر کا بلکہ دور دور تک پھیلے ہوئے پانیوں کا نظارہ بھی کیا جاسکے۔ بادشاہ کے حکم پر مینار تعمیر ہوا تو شہزادی دیکھنے کے لیے اس کی چوٹی پر پہنچی اور اللہ کو یاد کرکے نیچے بحرِ گیلان (Caspian Sea)کے پانیوں میں چھلانگ لگا دی تاکہ وہ اور اس کا باپ دونوں گناہ سے بچ سکیں، یہی سبب ہے کہ پرانے لوگ اس مینار کو کنواری کا مینار بھی کہتے ہیں، بس یہیں سے یہ شہر گض گلاسی(Qiz Qalasi)یعنی حسینہ کے قلعے کے نام سے پکارا گیا،اب لوگ اس مینار کو بھی یہی نام دینے لگے ہیں،یہ آوازِ خلق ہے، لوگ جیسے پکاریں گے، ویسے ہی یہ نام پھیلتے جائیں گے۔
داستان تمام ہوئی اورمحفل افسردہ ہوکر منتشر ہوگئی۔کچھ دیر بعد محکمہ اطلاعات کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی تو یہ سب سن کر وہ ہنسے اور کہا، خوب شخص ہے یہ نہاد بھی۔انھوں نے تصدیق کی کہ مینار کی تعمیر اور زمانہ تعمیر کے بارے میں کئی مفروضے ماہرین آثار قدیمہ میں زیر بحث رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مینار ستارہ شناسوں کی رصد گاہ(Observatory)کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے اور بہت سے لوگ آج بھی
اسے آگ کا معبد ہی سمجھتے ہیں۔مجھے خلد آشیانی انتظار حسین یاد آئے جو کہاکرتے تھے کہ مورخ اور عالم جو بھی کہے، لوگ اسی بات پر ایمان لاتے ہیں جو کہانی بن جائے اور یہ مینار محض ایک کہانی نہیں، داستان ہے۔اگلی شام فوالر میدانی(فوارا چوک) کے قریب سے گزرتے ہوئے مایا نے ایک عظیم الشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع کہ وہ اوپرا۔ گورنمنٹ کالج پشاور جیسے بے شمار چھوٹے بڑے گنبدوں والی عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا”Opera ve balet teatri“یعنی یہ عمارت ایک تھیٹر کی تھی جہاں اسی ”مظلوم“ شہزادی کی کہانی چل رہی تھی۔جی نے بہترا زور مارا کہ چل اوئے مسافر جاکر اس پری پیکر کا تماشا دیکھ لیکن وقت نیز جیب اس کے آڑے آئی اور یہ مسافر اپنی خواہش کو وعدہ فردا پر ٹال کر آگے بڑھ گیا، ویسے بھی نہاد کی جادو بیانی سے اس کہانی کی جیسی تصویر ذہن میں بن چکی تھی، انتظار حسین کے پڑھنے والے اسی کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔
نہاد نے بات پھر شروع کی۔یہ بھی ایک بادشا ہ کی کہانی ہے ۔ ملکہ امید سے تھی اور توقع تھی کہ سلطنت کو وارث مل جائے گا لیکن خدا کی خدائی میں کسے دخل؟ بیٹے کی توقع پوری نہ ہوسکی کیوں کہ اللہ نے اسے بیٹی سے نوازا تھا۔یہ خبر سن کر بادشاہ غضب ناک ہوگیا اور اس نے ملکہ اور شہزادی دونوں کوحرم سے نکال دیا۔کوئی ستر ہ برس گزرے ہوں گے کہ بادشاہ کا گزر جنگل سے ہوا جہاں اس کی نظر ایک حسینہ پر جاٹھہری، حسن ایسا کہ چاند اور سورج شرمائیں۔ بادشاہ کے حکم پر لڑکی کو محل میں منتقل کردیا گیاتاکہ اس کے ساتھ شادی رچائی جاسکے۔
”یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟“۔
لڑکی بادشاہ کی خواہش پر پریشان ہوگئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہی بادشاہ تو اس کا باپ ہے اور باپ کے ساتھ بیٹی کی شادی کیسی؟کچھ روز اس نے مہلت سوچنے کی مانگی پھر ایک فرمائش کی کہ یہاں ایک مینار تعمیر کیا جائے جس کی چوٹی سے نہ صرف اس شہر کا بلکہ دور دور تک پھیلے ہوئے پانیوں کا نظارہ بھی کیا جاسکے۔ بادشاہ کے حکم پر مینار تعمیر ہوا تو شہزادی دیکھنے کے لیے اس کی چوٹی پر پہنچی اور اللہ کو یاد کرکے نیچے بحرِ گیلان (Caspian Sea)کے پانیوں میں چھلانگ لگا دی تاکہ وہ اور اس کا باپ دونوں گناہ سے بچ سکیں، یہی سبب ہے کہ پرانے لوگ اس مینار کو کنواری کا مینار بھی کہتے ہیں، بس یہیں سے یہ شہر گض گلاسی(Qiz Qalasi)یعنی حسینہ کے قلعے کے نام سے پکارا گیا،اب لوگ اس مینار کو بھی یہی نام دینے لگے ہیں،یہ آوازِ خلق ہے، لوگ جیسے پکاریں گے، ویسے ہی یہ نام پھیلتے جائیں گے۔
داستان تمام ہوئی اورمحفل افسردہ ہوکر منتشر ہوگئی۔کچھ دیر بعد محکمہ اطلاعات کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی تو یہ سب سن کر وہ ہنسے اور کہا، خوب شخص ہے یہ نہاد بھی۔انھوں نے تصدیق کی کہ مینار کی تعمیر اور زمانہ تعمیر کے بارے میں کئی مفروضے ماہرین آثار قدیمہ میں زیر بحث رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مینار ستارہ شناسوں کی رصد گاہ(Observatory)کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے اور بہت سے لوگ آج بھی
اسے آگ کا معبد ہی سمجھتے ہیں۔مجھے خلد آشیانی انتظار حسین یاد آئے جو کہاکرتے تھے کہ مورخ اور عالم جو بھی کہے، لوگ اسی بات پر ایمان لاتے ہیں جو کہانی بن جائے اور یہ مینار محض ایک کہانی نہیں، داستان ہے۔اگلی شام فوالر میدانی(فوارا چوک) کے قریب سے گزرتے ہوئے مایا نے ایک عظیم الشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع کہ وہ اوپرا۔ گورنمنٹ کالج پشاور جیسے بے شمار چھوٹے بڑے گنبدوں والی عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا”Opera ve balet teatri“یعنی یہ عمارت ایک تھیٹر کی تھی جہاں اسی ”مظلوم“ شہزادی کی کہانی چل رہی تھی۔جی نے بہترا زور مارا کہ چل اوئے مسافر جاکر اس پری پیکر کا تماشا دیکھ لیکن وقت نیز جیب اس کے آڑے آئی اور یہ مسافر اپنی خواہش کو وعدہ فردا پر ٹال کر آگے بڑھ گیا، ویسے بھی نہاد کی جادو بیانی سے اس کہانی کی جیسی تصویر ذہن میں بن چکی تھی، انتظار حسین کے پڑھنے والے اسی کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔
نہاد نے بات پھر شروع کی۔یہ بھی ایک بادشا ہ کی کہانی ہے ۔ ملکہ امید سے تھی اور توقع تھی کہ سلطنت کو وارث مل جائے گا لیکن خدا کی خدائی میں کسے دخل؟ بیٹے کی توقع پوری نہ ہوسکی کیوں کہ اللہ نے اسے بیٹی سے نوازا تھا۔یہ خبر سن کر بادشاہ غضب ناک ہوگیا اور اس نے ملکہ اور شہزادی دونوں کوحرم سے نکال دیا۔کوئی ستر ہ برس گزرے ہوں گے کہ بادشاہ کا گزر جنگل سے ہوا جہاں اس کی نظر ایک حسینہ پر جاٹھہری، حسن ایسا کہ چاند اور سورج شرمائیں۔ بادشاہ کے حکم پر لڑکی کو محل میں منتقل کردیا گیاتاکہ اس کے ساتھ شادی رچائی جاسکے۔
”یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟“۔
لڑکی بادشاہ کی خواہش پر پریشان ہوگئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہی بادشاہ تو اس کا باپ ہے اور باپ کے ساتھ بیٹی کی شادی کیسی؟کچھ روز اس نے مہلت سوچنے کی مانگی پھر ایک فرمائش کی کہ یہاں ایک مینار تعمیر کیا جائے جس کی چوٹی سے نہ صرف اس شہر کا بلکہ دور دور تک پھیلے ہوئے پانیوں کا نظارہ بھی کیا جاسکے۔ بادشاہ کے حکم پر مینار تعمیر ہوا تو شہزادی دیکھنے کے لیے اس کی چوٹی پر پہنچی اور اللہ کو یاد کرکے نیچے بحرِ گیلان (Caspian Sea)کے پانیوں میں چھلانگ لگا دی تاکہ وہ اور اس کا باپ دونوں گناہ سے بچ سکیں، یہی سبب ہے کہ پرانے لوگ اس مینار کو کنواری کا مینار بھی کہتے ہیں، بس یہیں سے یہ شہر گض گلاسی(Qiz Qalasi)یعنی حسینہ کے قلعے کے نام سے پکارا گیا،اب لوگ اس مینار کو بھی یہی نام دینے لگے ہیں،یہ آوازِ خلق ہے، لوگ جیسے پکاریں گے، ویسے ہی یہ نام پھیلتے جائیں گے۔
داستان تمام ہوئی اورمحفل افسردہ ہوکر منتشر ہوگئی۔کچھ دیر بعد محکمہ اطلاعات کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی تو یہ سب سن کر وہ ہنسے اور کہا، خوب شخص ہے یہ نہاد بھی۔انھوں نے تصدیق کی کہ مینار کی تعمیر اور زمانہ تعمیر کے بارے میں کئی مفروضے ماہرین آثار قدیمہ میں زیر بحث رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مینار ستارہ شناسوں کی رصد گاہ(Observatory)کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے اور بہت سے لوگ آج بھی
اسے آگ کا معبد ہی سمجھتے ہیں۔مجھے خلد آشیانی انتظار حسین یاد آئے جو کہاکرتے تھے کہ مورخ اور عالم جو بھی کہے، لوگ اسی بات پر ایمان لاتے ہیں جو کہانی بن جائے اور یہ مینار محض ایک کہانی نہیں، داستان ہے۔اگلی شام فوالر میدانی(فوارا چوک) کے قریب سے گزرتے ہوئے مایا نے ایک عظیم الشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع کہ وہ اوپرا۔ گورنمنٹ کالج پشاور جیسے بے شمار چھوٹے بڑے گنبدوں والی عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا”Opera ve balet teatri“یعنی یہ عمارت ایک تھیٹر کی تھی جہاں اسی ”مظلوم“ شہزادی کی کہانی چل رہی تھی۔جی نے بہترا زور مارا کہ چل اوئے مسافر جاکر اس پری پیکر کا تماشا دیکھ لیکن وقت نیز جیب اس کے آڑے آئی اور یہ مسافر اپنی خواہش کو وعدہ فردا پر ٹال کر آگے بڑھ گیا، ویسے بھی نہاد کی جادو بیانی سے اس کہانی کی جیسی تصویر ذہن میں بن چکی تھی، انتظار حسین کے پڑھنے والے اسی کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔