Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج کل سوشل میڈیا پر بڑی گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ جس میں جناب خلیل الرحمان صاحب اور محترمہ ماروی سرمد کے درمیان ہونے والی انتہائی نا مناسب زبان کو استعمال کرتے ہوئے ہونے والی بحث اور بازاری زبان کا استعمال تھا یہاں میں کسی فرد واحد کی بات نہیں کر رہی ہوں بلکہ دونوں معززین کی بات کرہی وہ محترمہ بار بار فرماتی رہیں میرا جسم میری مرضی جبکہ خلیل صاحب انکے جسم پر تھوکتے رہے قصہ مختصر یہ لگ رہا تھا کہ ان رونوں فریقین کے مابین لڑائی اپنے جسموں کولے کرہی ہےآخر کیا اخلاقیات سکھائی جارہی ہیں دلائل سے ہٹ کر ذاتیات پر حملے کرنا اپنے نظریات کی تو گویہ موت ہی کردی ان لوگوں نےمیڈیا کا مقصد آپ کو موقع دینا ہے کہ آپ کے کیا نظریات ہیں عوام تک آپ ہہنچاسکیں لیکن صورتحال تو اس کے بالکل برعکس ہی دکھائی دی ماروی سرمد کا تو 8مارچ کو کئے جانے والے مارچ کا نعرہ ہی بے شرمی پر مبنی وہ اسطرح کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ جہاں فاحش لگتا ہے لیکن اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو حقیقی طور پر تو ٹھیک ہے جسکا جسم یقینی طور پر اسکی ہی مرضی ہوگی لیکن افسوس کہ اس نعرے کا استعمال جس مقصد کے لئے کیا جارہا وہ اسلامی اور ہمارے معاشرے کے بالکل بر عکس ہے یہاں آپ کو میں یہ واضح کرنا چاہونگی کہ آخر یہ نعرہ کسطرح سے اور کس چیز سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے میرا جسم میری مرضی
یہ جملہ ایک مغربی نعرے “مائی باڈی مائی چوائس” کا ترجمہ ہے۔
مائی باڈی مائی چوائس کی تحریک ماضی قریب میں اسقاط حمل کا حق حاصل کرنے کیلئے شروع کی گئی تھی، جس کا لب لباب یہ ہے کہ نوجوانی میں جنسی غلطیاں کرکے مرد کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر خواتین کو حمل اور بچے کی صورت میں اپنی غلطی عمر بھر بھگتنی پڑتی ہے لہذا یہ انصاف کے خلاف ہے اسلئے خواتین کو بھی ایسی سہولت ہونی چاہیئےکہ وہ اپنی غلطی کے اثرات سے جان چھڑا سکے، لیکن ہمارا مذہب اور معاشرہ اس قسم کی بے حیائی کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں دیتا تو اس نعرے کی حیثیت تو یہاں بالکل سے ہی ختم ہو چکی لیکن افسوس کے ساتھ کچھ اینجیوز اس نعرے کی سپورٹ میں پاگل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کا حصہ بننے والی ادھیڑ عمر کی آنٹیاں آجکل کی جوان جنریشن کو بھی اس نعرے متاثر کرنے کی حتی الامکان . کو شش کررہی ہیں تاکہ عورت مارچ کے نام پر جوان لڑکیاں اپنے ہاتھ میں گھٹھیا اور نا قابل سماعت نعرے درج کرکے روڈ اور چوراہوں پر محض عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کی آزادی مانگے سکیں اور لبرل خواتین مذہب اور معاشرے کی سرے عام دھجیاں اڑاسکیں ایک مہذب اور اسلامی نظریاتی ملک میں یہ بجائے اس کہ حضرت بی بی عائیشہ اوربی بی زینب کی کی تعلیمات کا درس دیا جائے ہماری خواتین کو مغربی معاشرے سے متاثر کیا جارہا ہے تاکہ بے حیائی عروج پر پہنچ سکے میں اس مارچ اور اس نعرے کے سخت خلاف ہوں جاکہ صرف اور صرف معاشرے میں بے غیرتی پھیلانے کے مترادف ہے میرا یہ ماننا ہے کہ اس نعرے کا استعمال اور یہ مارچ جو اتنی گرم جوشی کے ساتھ نکالا جاتا ہے اور خواتین بڑے فخر سے اسکا حصہ بنتی ہیں کے لئے بھی کیا جا سکتا تھا کہ آئے روز وہ بچیاں اور بچے جو جنسی درندگی اور حوس کا نشانہ بنائے جاتے ہیں ان کے جسم اور عصمت کے دفاع کے لئے نکا لا جاتا اور ایسی کئی دیگر اسطرح کے کیسزز اور جو کہ آئے روز ہوتے ہیں جیسا کہ مزدوری مانگنے پر طاقتور لوگ مزدور خواتین پر کتے چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی بہت سی زیادتیاں معاشرے میں ہورہی ہیں کہ لئے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن جس آزادی اور بے شرمی کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے ہوئے خوتین کا ایک مخصوص ٹولہ جو نکلنے جارہا ہے اسکے پیچھے چھپے مطالبات بہت ہی قابل مذمت ہیں
آج کل سوشل میڈیا پر بڑی گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ جس میں جناب خلیل الرحمان صاحب اور محترمہ ماروی سرمد کے درمیان ہونے والی انتہائی نا مناسب زبان کو استعمال کرتے ہوئے ہونے والی بحث اور بازاری زبان کا استعمال تھا یہاں میں کسی فرد واحد کی بات نہیں کر رہی ہوں بلکہ دونوں معززین کی بات کرہی وہ محترمہ بار بار فرماتی رہیں میرا جسم میری مرضی جبکہ خلیل صاحب انکے جسم پر تھوکتے رہے قصہ مختصر یہ لگ رہا تھا کہ ان رونوں فریقین کے مابین لڑائی اپنے جسموں کولے کرہی ہےآخر کیا اخلاقیات سکھائی جارہی ہیں دلائل سے ہٹ کر ذاتیات پر حملے کرنا اپنے نظریات کی تو گویہ موت ہی کردی ان لوگوں نےمیڈیا کا مقصد آپ کو موقع دینا ہے کہ آپ کے کیا نظریات ہیں عوام تک آپ ہہنچاسکیں لیکن صورتحال تو اس کے بالکل برعکس ہی دکھائی دی ماروی سرمد کا تو 8مارچ کو کئے جانے والے مارچ کا نعرہ ہی بے شرمی پر مبنی وہ اسطرح کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ جہاں فاحش لگتا ہے لیکن اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو حقیقی طور پر تو ٹھیک ہے جسکا جسم یقینی طور پر اسکی ہی مرضی ہوگی لیکن افسوس کہ اس نعرے کا استعمال جس مقصد کے لئے کیا جارہا وہ اسلامی اور ہمارے معاشرے کے بالکل بر عکس ہے یہاں آپ کو میں یہ واضح کرنا چاہونگی کہ آخر یہ نعرہ کسطرح سے اور کس چیز سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے میرا جسم میری مرضی
یہ جملہ ایک مغربی نعرے “مائی باڈی مائی چوائس” کا ترجمہ ہے۔
مائی باڈی مائی چوائس کی تحریک ماضی قریب میں اسقاط حمل کا حق حاصل کرنے کیلئے شروع کی گئی تھی، جس کا لب لباب یہ ہے کہ نوجوانی میں جنسی غلطیاں کرکے مرد کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر خواتین کو حمل اور بچے کی صورت میں اپنی غلطی عمر بھر بھگتنی پڑتی ہے لہذا یہ انصاف کے خلاف ہے اسلئے خواتین کو بھی ایسی سہولت ہونی چاہیئےکہ وہ اپنی غلطی کے اثرات سے جان چھڑا سکے، لیکن ہمارا مذہب اور معاشرہ اس قسم کی بے حیائی کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں دیتا تو اس نعرے کی حیثیت تو یہاں بالکل سے ہی ختم ہو چکی لیکن افسوس کے ساتھ کچھ اینجیوز اس نعرے کی سپورٹ میں پاگل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کا حصہ بننے والی ادھیڑ عمر کی آنٹیاں آجکل کی جوان جنریشن کو بھی اس نعرے متاثر کرنے کی حتی الامکان . کو شش کررہی ہیں تاکہ عورت مارچ کے نام پر جوان لڑکیاں اپنے ہاتھ میں گھٹھیا اور نا قابل سماعت نعرے درج کرکے روڈ اور چوراہوں پر محض عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کی آزادی مانگے سکیں اور لبرل خواتین مذہب اور معاشرے کی سرے عام دھجیاں اڑاسکیں ایک مہذب اور اسلامی نظریاتی ملک میں یہ بجائے اس کہ حضرت بی بی عائیشہ اوربی بی زینب کی کی تعلیمات کا درس دیا جائے ہماری خواتین کو مغربی معاشرے سے متاثر کیا جارہا ہے تاکہ بے حیائی عروج پر پہنچ سکے میں اس مارچ اور اس نعرے کے سخت خلاف ہوں جاکہ صرف اور صرف معاشرے میں بے غیرتی پھیلانے کے مترادف ہے میرا یہ ماننا ہے کہ اس نعرے کا استعمال اور یہ مارچ جو اتنی گرم جوشی کے ساتھ نکالا جاتا ہے اور خواتین بڑے فخر سے اسکا حصہ بنتی ہیں کے لئے بھی کیا جا سکتا تھا کہ آئے روز وہ بچیاں اور بچے جو جنسی درندگی اور حوس کا نشانہ بنائے جاتے ہیں ان کے جسم اور عصمت کے دفاع کے لئے نکا لا جاتا اور ایسی کئی دیگر اسطرح کے کیسزز اور جو کہ آئے روز ہوتے ہیں جیسا کہ مزدوری مانگنے پر طاقتور لوگ مزدور خواتین پر کتے چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی بہت سی زیادتیاں معاشرے میں ہورہی ہیں کہ لئے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن جس آزادی اور بے شرمی کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے ہوئے خوتین کا ایک مخصوص ٹولہ جو نکلنے جارہا ہے اسکے پیچھے چھپے مطالبات بہت ہی قابل مذمت ہیں
آج کل سوشل میڈیا پر بڑی گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ جس میں جناب خلیل الرحمان صاحب اور محترمہ ماروی سرمد کے درمیان ہونے والی انتہائی نا مناسب زبان کو استعمال کرتے ہوئے ہونے والی بحث اور بازاری زبان کا استعمال تھا یہاں میں کسی فرد واحد کی بات نہیں کر رہی ہوں بلکہ دونوں معززین کی بات کرہی وہ محترمہ بار بار فرماتی رہیں میرا جسم میری مرضی جبکہ خلیل صاحب انکے جسم پر تھوکتے رہے قصہ مختصر یہ لگ رہا تھا کہ ان رونوں فریقین کے مابین لڑائی اپنے جسموں کولے کرہی ہےآخر کیا اخلاقیات سکھائی جارہی ہیں دلائل سے ہٹ کر ذاتیات پر حملے کرنا اپنے نظریات کی تو گویہ موت ہی کردی ان لوگوں نےمیڈیا کا مقصد آپ کو موقع دینا ہے کہ آپ کے کیا نظریات ہیں عوام تک آپ ہہنچاسکیں لیکن صورتحال تو اس کے بالکل برعکس ہی دکھائی دی ماروی سرمد کا تو 8مارچ کو کئے جانے والے مارچ کا نعرہ ہی بے شرمی پر مبنی وہ اسطرح کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ جہاں فاحش لگتا ہے لیکن اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو حقیقی طور پر تو ٹھیک ہے جسکا جسم یقینی طور پر اسکی ہی مرضی ہوگی لیکن افسوس کہ اس نعرے کا استعمال جس مقصد کے لئے کیا جارہا وہ اسلامی اور ہمارے معاشرے کے بالکل بر عکس ہے یہاں آپ کو میں یہ واضح کرنا چاہونگی کہ آخر یہ نعرہ کسطرح سے اور کس چیز سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے میرا جسم میری مرضی
یہ جملہ ایک مغربی نعرے “مائی باڈی مائی چوائس” کا ترجمہ ہے۔
مائی باڈی مائی چوائس کی تحریک ماضی قریب میں اسقاط حمل کا حق حاصل کرنے کیلئے شروع کی گئی تھی، جس کا لب لباب یہ ہے کہ نوجوانی میں جنسی غلطیاں کرکے مرد کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر خواتین کو حمل اور بچے کی صورت میں اپنی غلطی عمر بھر بھگتنی پڑتی ہے لہذا یہ انصاف کے خلاف ہے اسلئے خواتین کو بھی ایسی سہولت ہونی چاہیئےکہ وہ اپنی غلطی کے اثرات سے جان چھڑا سکے، لیکن ہمارا مذہب اور معاشرہ اس قسم کی بے حیائی کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں دیتا تو اس نعرے کی حیثیت تو یہاں بالکل سے ہی ختم ہو چکی لیکن افسوس کے ساتھ کچھ اینجیوز اس نعرے کی سپورٹ میں پاگل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کا حصہ بننے والی ادھیڑ عمر کی آنٹیاں آجکل کی جوان جنریشن کو بھی اس نعرے متاثر کرنے کی حتی الامکان . کو شش کررہی ہیں تاکہ عورت مارچ کے نام پر جوان لڑکیاں اپنے ہاتھ میں گھٹھیا اور نا قابل سماعت نعرے درج کرکے روڈ اور چوراہوں پر محض عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کی آزادی مانگے سکیں اور لبرل خواتین مذہب اور معاشرے کی سرے عام دھجیاں اڑاسکیں ایک مہذب اور اسلامی نظریاتی ملک میں یہ بجائے اس کہ حضرت بی بی عائیشہ اوربی بی زینب کی کی تعلیمات کا درس دیا جائے ہماری خواتین کو مغربی معاشرے سے متاثر کیا جارہا ہے تاکہ بے حیائی عروج پر پہنچ سکے میں اس مارچ اور اس نعرے کے سخت خلاف ہوں جاکہ صرف اور صرف معاشرے میں بے غیرتی پھیلانے کے مترادف ہے میرا یہ ماننا ہے کہ اس نعرے کا استعمال اور یہ مارچ جو اتنی گرم جوشی کے ساتھ نکالا جاتا ہے اور خواتین بڑے فخر سے اسکا حصہ بنتی ہیں کے لئے بھی کیا جا سکتا تھا کہ آئے روز وہ بچیاں اور بچے جو جنسی درندگی اور حوس کا نشانہ بنائے جاتے ہیں ان کے جسم اور عصمت کے دفاع کے لئے نکا لا جاتا اور ایسی کئی دیگر اسطرح کے کیسزز اور جو کہ آئے روز ہوتے ہیں جیسا کہ مزدوری مانگنے پر طاقتور لوگ مزدور خواتین پر کتے چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی بہت سی زیادتیاں معاشرے میں ہورہی ہیں کہ لئے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن جس آزادی اور بے شرمی کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے ہوئے خوتین کا ایک مخصوص ٹولہ جو نکلنے جارہا ہے اسکے پیچھے چھپے مطالبات بہت ہی قابل مذمت ہیں
آج کل سوشل میڈیا پر بڑی گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ جس میں جناب خلیل الرحمان صاحب اور محترمہ ماروی سرمد کے درمیان ہونے والی انتہائی نا مناسب زبان کو استعمال کرتے ہوئے ہونے والی بحث اور بازاری زبان کا استعمال تھا یہاں میں کسی فرد واحد کی بات نہیں کر رہی ہوں بلکہ دونوں معززین کی بات کرہی وہ محترمہ بار بار فرماتی رہیں میرا جسم میری مرضی جبکہ خلیل صاحب انکے جسم پر تھوکتے رہے قصہ مختصر یہ لگ رہا تھا کہ ان رونوں فریقین کے مابین لڑائی اپنے جسموں کولے کرہی ہےآخر کیا اخلاقیات سکھائی جارہی ہیں دلائل سے ہٹ کر ذاتیات پر حملے کرنا اپنے نظریات کی تو گویہ موت ہی کردی ان لوگوں نےمیڈیا کا مقصد آپ کو موقع دینا ہے کہ آپ کے کیا نظریات ہیں عوام تک آپ ہہنچاسکیں لیکن صورتحال تو اس کے بالکل برعکس ہی دکھائی دی ماروی سرمد کا تو 8مارچ کو کئے جانے والے مارچ کا نعرہ ہی بے شرمی پر مبنی وہ اسطرح کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ جہاں فاحش لگتا ہے لیکن اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو حقیقی طور پر تو ٹھیک ہے جسکا جسم یقینی طور پر اسکی ہی مرضی ہوگی لیکن افسوس کہ اس نعرے کا استعمال جس مقصد کے لئے کیا جارہا وہ اسلامی اور ہمارے معاشرے کے بالکل بر عکس ہے یہاں آپ کو میں یہ واضح کرنا چاہونگی کہ آخر یہ نعرہ کسطرح سے اور کس چیز سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے میرا جسم میری مرضی
یہ جملہ ایک مغربی نعرے “مائی باڈی مائی چوائس” کا ترجمہ ہے۔
مائی باڈی مائی چوائس کی تحریک ماضی قریب میں اسقاط حمل کا حق حاصل کرنے کیلئے شروع کی گئی تھی، جس کا لب لباب یہ ہے کہ نوجوانی میں جنسی غلطیاں کرکے مرد کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر خواتین کو حمل اور بچے کی صورت میں اپنی غلطی عمر بھر بھگتنی پڑتی ہے لہذا یہ انصاف کے خلاف ہے اسلئے خواتین کو بھی ایسی سہولت ہونی چاہیئےکہ وہ اپنی غلطی کے اثرات سے جان چھڑا سکے، لیکن ہمارا مذہب اور معاشرہ اس قسم کی بے حیائی کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں دیتا تو اس نعرے کی حیثیت تو یہاں بالکل سے ہی ختم ہو چکی لیکن افسوس کے ساتھ کچھ اینجیوز اس نعرے کی سپورٹ میں پاگل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کا حصہ بننے والی ادھیڑ عمر کی آنٹیاں آجکل کی جوان جنریشن کو بھی اس نعرے متاثر کرنے کی حتی الامکان . کو شش کررہی ہیں تاکہ عورت مارچ کے نام پر جوان لڑکیاں اپنے ہاتھ میں گھٹھیا اور نا قابل سماعت نعرے درج کرکے روڈ اور چوراہوں پر محض عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کی آزادی مانگے سکیں اور لبرل خواتین مذہب اور معاشرے کی سرے عام دھجیاں اڑاسکیں ایک مہذب اور اسلامی نظریاتی ملک میں یہ بجائے اس کہ حضرت بی بی عائیشہ اوربی بی زینب کی کی تعلیمات کا درس دیا جائے ہماری خواتین کو مغربی معاشرے سے متاثر کیا جارہا ہے تاکہ بے حیائی عروج پر پہنچ سکے میں اس مارچ اور اس نعرے کے سخت خلاف ہوں جاکہ صرف اور صرف معاشرے میں بے غیرتی پھیلانے کے مترادف ہے میرا یہ ماننا ہے کہ اس نعرے کا استعمال اور یہ مارچ جو اتنی گرم جوشی کے ساتھ نکالا جاتا ہے اور خواتین بڑے فخر سے اسکا حصہ بنتی ہیں کے لئے بھی کیا جا سکتا تھا کہ آئے روز وہ بچیاں اور بچے جو جنسی درندگی اور حوس کا نشانہ بنائے جاتے ہیں ان کے جسم اور عصمت کے دفاع کے لئے نکا لا جاتا اور ایسی کئی دیگر اسطرح کے کیسزز اور جو کہ آئے روز ہوتے ہیں جیسا کہ مزدوری مانگنے پر طاقتور لوگ مزدور خواتین پر کتے چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی بہت سی زیادتیاں معاشرے میں ہورہی ہیں کہ لئے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن جس آزادی اور بے شرمی کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے ہوئے خوتین کا ایک مخصوص ٹولہ جو نکلنے جارہا ہے اسکے پیچھے چھپے مطالبات بہت ہی قابل مذمت ہیں