پاکستان میں ترکیہ کے سابق سفیر جناب مصطفیٰ یورداکول کے ہاں ایک تقریب میں جناب طاہر انوار پاشا نے مجھے اپنی کتاب ‘ ترکی میں پاشا’ عطا کی اور ثبوت کے طور پر تصویر بھی بنا لی۔ وہ تصویر ممکن ہے کہ فیس بک پر رہی ہو پھر کہاں گئی؟ شاید پاشا صاحب جانتے ہوں۔
یہ کتاب پا کر خوشی ہوئی کہ اس کے شہرے استنبول تا اسلام آباد سنے جاتے تھے۔ ماسٹر ڈگری کے اجرا سے قبل کسی جگہ اپلائی کرنے کے لیے مجھے ایک سرٹیفکیٹ کی ضرورت پیش آئی۔ استاد محترم پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ نے مجھے ایسا سرٹیفکیٹ عطا کیا جسے پڑھ کر ایک دوست نے کہا کہ اگر ایسا ہی سرٹیفکیٹ مجھے ملے تو میں ابھی یونیورسٹی چھوڑ دوں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ طاہر صاحب کا بھی تھا۔ جامعہ استنبول کے بھید بھرے ایوان میں جس کتاب کا اجرا ہوا ہو، کس کافر کا دل اس کے مطالعے کو نہ چاہے گا۔
طاہر انوار پاشا زندہ دل انسان ہیں۔ وہ ریٹائر ہوئے تو انھوں نے وہ نہیں کیا جو ہمارے ریٹائرڈ بزرگ کرتے ہیں۔ گھر کا کوئی کونا سنبھال کر نگراں بن کر بیٹھ گئے۔ اِس کو ڈانٹ، اُس کو ڈانٹ، گھر گویا گھر نہ رہا، چھوٹا موٹا اسکول بن گیا جہاں ہیڈ ماسٹر کے ڈر سے لوگ سہمے پھرتے ہیں۔ طاہر انوار پاشا صاحب نے بیگم صاحبہ کو ساتھ کیا اور ملکوں ملکوں گھومنے لگے۔ صرف گھومنے نہیں لگے بلکہ روداد سفر بھی قلم بند کرنے لگے۔ میرے اندازے کے مطابق انھوں نے اس سلسلے کی ابتدا ترکیہ سے کی۔ اس کے بعد چل سو چل۔ مجھ تک ترکیہ کی روداد کے علاوہ کوئی روداد نہیں پہنچی، ترکی والی روداد کی رسید انھیں ملتی تو اگلے سفر کی روداد سے مجھے نوازتے۔ مجھ سے یہ چوک ہوئی اور میں ان مشاہدات سے محروم رہ گیا جو قبلہ پاشا صاحب نے دیکھتے ہی قلم بند کر ڈالے تھے۔ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں یقیناً ایک روز ہماری قسمت بھی جاگے گی۔
یہ بھی پڑھئے:
خواجہ سعد رفیق کی گرین لائن اور ازبک ٹرین
پاشا صاحب کی زندہ دلی کی بات چلی اور دور نکل گئی۔ ذکر ان کی کتاب کا تھا۔ پطرس نے نالائق طالب علمی تعریف بیان کی ہے کہ وہ جب پڑھنے کا ارادہ کرتا ہے تو پڑھنے سے قبل تیاری کرتا ہے، کتابیں سلیقے سے لگاتا ہے، پینسل تراشتا ہے پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی لیکن یہ تعریف پاشا صاحب پر صادق نہیں آتی۔ وہ سفر کی تیاری کرتے تو بالکل اسی طرح ہیں لیکن نالائق طالب علم کی طرح ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ نہیں جاتے پورے اہتمام سے سفر کرتے ہیں۔ اس خوبی میں کچھ دخل وسائل کا بھی ضرور رہا ہو گا لیکن شوق سفر بھی تو آخر ایک چیز ہے۔
پاشا صاحب سفر کرتے ہیں تو ایک نو عمر کے سے شوق کے ساتھ کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر پرانی تہذیبوں کے لباس پہن کر تصویر بنوانے کے لیے رکھے جاتے ہیں، ہم جیسے کور ذوق انھیں دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن پاشا صاحب زندہ دل مسافر کی طرح انھیں شوق سے زیب تن کرتے ہیں، ایک تلوار ہاتھ میں لے کر دوسری اہلیہ محترمہ کے سپرد کر کے ایک دوسرے پر یوں تان کر لطف لیتے ہیں جیسے ارتغرل غازی کا دور پلٹ آیا ہو۔ یہ ہوئی نا بات۔
ان کی رودادوں کی ایک خوبی تو یہ ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو کسی غلط فہمی، کسی خواب میں نہیں رہنے دیتے۔ سچ لکھنے والے صحافی کی طرح سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً میں نے جب یہ سنا کہ آیا صوفیا میں ایک پتھر حضرت مریم سے منسوب ہے جس کے ساتھ حیرت انگیز تصورات وابستہ ہیں تو تجسس نے انگڑائی لی اور میں کشاں کشاں اس کی دید کو گیا۔ اس زمانے میں؛ میں نے پاشا صاحب کی روداد پڑھ رکھی ہوتی تو میں کاہے کو یوں بیوقوف بنتا۔ مجھے ویسے ہی معلوم ہو جاتا کہ یہ کہانیاں بس کہانیاں ہیں، حقیقت ان میں کچھ نہیں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ کہانیوں کی حقیقت جاننی ہو تو پاشا صاحب کو پڑھئے اور فائدے میں رہئے۔
ترکیہ میں اور بھی دیکھنے کے بہت سے مقام ہیں جن میں سے بیشتر پاشا صاحب نے دیکھ رکھے ہیں اور ان سب کی روداد بھی بیان کر دی ہے لہٰذا میں نے ان سب تک پہنچنے اور کشٹ اٹھانے کا ارادہ منسوخ کر دیا ہے کیوں کہ پاشا صاحب نے ان سب کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ اپنے قاری کو علم اور مشاہدے کی اس منزل پر پہنچا دینا ہر کس و ناکس کے نصیب میں کہاں؟
‘ ترکی میں پاشا’ کا مطالعہ ہمیں صرف ہمیں صرف عجائبات ترکیہ کی حقیقت سے ہی آگاہ نہیں کرتا بلکہ تاریخ اور جغرافیہ کے مطالعے سے بھی بے نیاز کر دیتا ہے کہ یہ کتاب تھری ان ون ہے۔ سفر کی روداد میں ان علوم کی آمیزش کے بارے میں ہمارے قبلہ عطا الحق قاسمی کیا فرماتے ہیں، اسے جانے دیجیے اور اس کتاب سے لطف اٹھائیے، میں بھی حسب توفیق یہی کر رہا ہوں۔ پاشا صاحب جیتے رہئے، لکھتے رہئے اور ہمیں حقیقت کی دنیا میں لاتے رہئے۔