Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
تاریخ عمران خان کا شمار ان لوگوں میں کرے گی جن کی دولت میں انتہائی تیزرفتاری سے بڑھی۔ تین برس میں آمدنی میں ایک ہزار گنااضافہ کوئی معمولی بات نہیں۔
عمران خان اور ان کے ترجمان نواز شریف کی اولاد کے بارے میں سوال اٹھایا کرتے تھے۔ سوال یہ تھا کہ چند برس کے دوران ان کی دولت میں بے تحاشا اضافی کیسے ہوا؟ یہ سوال اس خاندان کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی یہ خاندان دولت مند تھا۔ اس کاشمار جنوبی ایشیا کے امیر کاروباری خاندانوں میں کیا جاتا تھا۔ یہ چیزیں مختلف جائزوں اور رپورٹوں میں سامنے آیا کرتی تھیں۔
عمران خان کی دولت کے بارے میں یہ بھی دیکھئے
اس خاندان کے مقابلے میں عمران خان کیا تھے؟ ایک سرکاری ملازم کے بیٹے۔ وہ بھی ایک ایسا ملازم جس کے کندکٹ پر سوالات موجود تھے۔ خود عمران ایک ایسے شخص تھے جن کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔ کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ پاکستان کا حکمران بننے کے بعد خود انھوں نے کہا کہ سرکاری تنخواہ سے ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ اگر یہ بیان درست تھا تو پھر ان کی گزر بسر کیسے ہو رہی تھی؟ جسٹس وجیہ یاد آتے ہیں۔ انھوں نے جہانگیر ترین کی مہربانیوں کاذکر کیا تھا۔ انھوں نے چیلنج بھی کیاتھا کہ کوئی ان کے دعوے کو غلط ثابت کر کے دکھائے۔
جس شخص کی کوئی آمدنی نہیں، وہ دو تین برس میں اتنا دولت مند کیسے ہو گیا کہ ایک کروڑ ٹیکس دینے لگے۔ اس سوال کا جواب عوام کو ملنا چاہئے۔
اس سوال کا جواب نہیں ملتا تو پھر احسن اقبال جو کچھ کہہ رہے، وہ درست سمجھا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے فارن فنڈنے کیس کے الزامات کا جواب نہیں دیا۔ سرکاری تحائف میں خورد برد کا جواب نہیں دیا۔ اس پس منظر میں توقع یہی ہے کہ چھپر پھاڑ کر ملنے والی دولت کا جواب بھی نہیں آئے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
پانچ جنوری: آج وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سال گرہ ہے
عمران خان حکومت نے ملک کو ایک نئے تصادم کی راہ پر ڈال دیا
کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ احتساب کے سلسلے میں اس حکومت کے پیمانے مختلف ہیں۔ اپنا معاملہ آئے تو قانون بدل دیا جاتا ہے۔ مخالفین کا معاملہ ہو تو نوازشریف کی طرح میدان سیاست سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔
اس قسم کی دو عملی کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ عوام جلد یہ کھیل سمجھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں بھی ایسا ہی متوقع ہے۔
اس حکمران کا صرف قول و فعل ہی مختلف نہیں ہے۔ اس شخص نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ معیشت تباہ۔ خارجہ تعلقات تباہ اور سیاسی استحکام کا خاتمہ۔ ایسے ہی حکمران ہوتے ہیں جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
تاریخ عمران خان کا شمار ان لوگوں میں کرے گی جن کی دولت میں انتہائی تیزرفتاری سے بڑھی۔ تین برس میں آمدنی میں ایک ہزار گنااضافہ کوئی معمولی بات نہیں۔
عمران خان اور ان کے ترجمان نواز شریف کی اولاد کے بارے میں سوال اٹھایا کرتے تھے۔ سوال یہ تھا کہ چند برس کے دوران ان کی دولت میں بے تحاشا اضافی کیسے ہوا؟ یہ سوال اس خاندان کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی یہ خاندان دولت مند تھا۔ اس کاشمار جنوبی ایشیا کے امیر کاروباری خاندانوں میں کیا جاتا تھا۔ یہ چیزیں مختلف جائزوں اور رپورٹوں میں سامنے آیا کرتی تھیں۔
عمران خان کی دولت کے بارے میں یہ بھی دیکھئے
اس خاندان کے مقابلے میں عمران خان کیا تھے؟ ایک سرکاری ملازم کے بیٹے۔ وہ بھی ایک ایسا ملازم جس کے کندکٹ پر سوالات موجود تھے۔ خود عمران ایک ایسے شخص تھے جن کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔ کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ پاکستان کا حکمران بننے کے بعد خود انھوں نے کہا کہ سرکاری تنخواہ سے ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ اگر یہ بیان درست تھا تو پھر ان کی گزر بسر کیسے ہو رہی تھی؟ جسٹس وجیہ یاد آتے ہیں۔ انھوں نے جہانگیر ترین کی مہربانیوں کاذکر کیا تھا۔ انھوں نے چیلنج بھی کیاتھا کہ کوئی ان کے دعوے کو غلط ثابت کر کے دکھائے۔
جس شخص کی کوئی آمدنی نہیں، وہ دو تین برس میں اتنا دولت مند کیسے ہو گیا کہ ایک کروڑ ٹیکس دینے لگے۔ اس سوال کا جواب عوام کو ملنا چاہئے۔
اس سوال کا جواب نہیں ملتا تو پھر احسن اقبال جو کچھ کہہ رہے، وہ درست سمجھا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے فارن فنڈنے کیس کے الزامات کا جواب نہیں دیا۔ سرکاری تحائف میں خورد برد کا جواب نہیں دیا۔ اس پس منظر میں توقع یہی ہے کہ چھپر پھاڑ کر ملنے والی دولت کا جواب بھی نہیں آئے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
پانچ جنوری: آج وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سال گرہ ہے
عمران خان حکومت نے ملک کو ایک نئے تصادم کی راہ پر ڈال دیا
کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ احتساب کے سلسلے میں اس حکومت کے پیمانے مختلف ہیں۔ اپنا معاملہ آئے تو قانون بدل دیا جاتا ہے۔ مخالفین کا معاملہ ہو تو نوازشریف کی طرح میدان سیاست سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔
اس قسم کی دو عملی کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ عوام جلد یہ کھیل سمجھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں بھی ایسا ہی متوقع ہے۔
اس حکمران کا صرف قول و فعل ہی مختلف نہیں ہے۔ اس شخص نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ معیشت تباہ۔ خارجہ تعلقات تباہ اور سیاسی استحکام کا خاتمہ۔ ایسے ہی حکمران ہوتے ہیں جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔