عوامی مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی۔ اب یہ ملک تصادم کے دہانے پر ہے۔ یہ ہے عمران خان کی نئی حکمت عملی۔ یہ اندازہ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے ایک بیان سے ہوتا ہے۔ اس بیان میں انھوں نے دو باتیں کہی ہیں۔
ان کی پہلی بات کا تعلق مہنگائی سے ہے۔ زیادہ مہنگائی کے لیے کمر توڑ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ موجودہ مہنگائی کے لیے یہ اصطلاح ناکافی ہے۔ اس مہنگائی نے صرف کمر نہیں توڑی بلکہ زندہ اور جیتے جاگتے انسانوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ معاملہ اس سے آگے بڑھا ہے۔ بھوگ اس ملک میں ننگا ناچ ناچ رہی ہے۔ ایسا بے رحم ناچ یہ جس میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگ عصمت فروشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ فواد چودھری نے اسی مہنگائی کے بارے میں بات کی ہے۔ انھوں نے قوم کو بتایا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی بھارت سے کم ہے۔
عمران خان کی تازہ پالیسی کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
یہ بیان اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ حکومت کے ایک ترجمان نے مہنگائی کو موضوع بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت یہ جانتی ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر موصوف اس کاذکر نہ کرتے۔ اس ذکر کے ساتھ انھوں نے ایک ستم ظریفی بھی کی ہے۔ یہ کہا کہ پاکستان سے زیادہ بھارت میں مہنگائی ہے۔ اس خبر میں تشویش کا ایک پہلو بھی پوشیدہ ہے۔ یعنی ابھی مزید مہنگائی کا انتظار کرنا چاہیے۔
دوسری بات انھوں نے یہ کہی ہے کہ ان کی حکومت شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ جا رہی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ نوازشریف کے بارے میں انھوں نے جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا تھا۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کے خیال میں یہ کارروائی اس لیے ضروری ہے تاکہ نواز شریف کو واپس لایا جاسکے۔
ایسا کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ چند روز قبل خود انھوں نے ہی کہا تھا کہ حکومت میاں صاحب کو خود لائے گی۔ یہ کام مجرموں کے تبادلے کے ذریعے کیاجائے گا۔ یہ معاہدہ اب تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مجرموں کے تبادلے کے ذریعے انھیں لانا چاہتے ہیں تو پھر عدالت کا طویل اور پیچیدہ طریقہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کو شرکت اقتدار کی پیشکش
سونیا فاؤنڈیشن: ایک ایسی خواہش جو موت کے بعد پوری ہوئی
اسی طرح اعلان کیا گیا ہے کہ سندھ میں گندم کی چوری کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے
یہ سوال اپنی جگہ لیکن مقصد کسی کی واپسی نہیں۔ مقصد کچھ اور ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تصادم کی ایسی فضا برقرار رکھی جائے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرف جائے ہی نہ۔ ایساطرز عمل نالائق اور غیر ذمہ دار حکومتیں اختیار کرتی ہیں۔
عمران خان اور ان کی حکومت بھی اسی راہ پر گامزن ہے لیکن نہیں جانتی کہ اس طرز حکومت کے چند خوفناک نقصانات ہوتے ہیں۔ عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ ملک مایوسی کے نتیجے میں تصادم کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
ملک میں مایوسی انتہا کو پہنچ چکی۔ معیشت تباہ ہو چکی۔ اب ہم تصادم کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ تصادم ایک ایسی بری بلا ہے جو جمے جمائے معاشروں کو تباہ کر دیتی ہے۔ عمران خان نے ملک کو جس مقام پر پہنچا دیا ہے، اس سے واپسی کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔