Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج سال کا پہلا دن تھا اور قیصرہ مختار علوی نے حسب معمول بہت ہی عمدہ محفل سجا رکھی تھی۔۔یوں تو ان کے دوستوں کی لسٹ بہت طویل ہے مگر اس محفل میں خاص طور پر امریکہ کےشہر شکاگو سے سونیا فاؤنڈیشن کی ارم شاہ تشریف لائی ہوئ تھیں۔سونیا فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ممبران کے ساتھ قیصرہ نے کچھ اپنے خاص دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔
دسمبر اپنی تمام تر چکا چوند کے ساتھ رخصت ہو چکا تھا ۔۔مبارک سلامت کے میسیجز کی ترسیل اپنے عروج پر تھی ۔پٹاخوں کی آوازیں بھی شمع خراشی کرکے دھواں دھواں ہو چکی تھیں ۔جنوری 2022 کی نئی نویلی ٹھٹھرتی شام کو قیصرہ نے مصنوعی حرارت کی گرماہٹ اور محبت کا رنگ گھول کر قوس و قزاح بنا رکھا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
دوستوں کی کہکشاں سے ان کا ڈرائنگ روم سجا ہوا تھا۔ایسے میں ہم داخل ہوئے تو انہوں نے ہمارا بہت ہی پیارا تعارف کروا کر ہمیں بھی اپنائیت کی گود لے لیا۔۔گو ہم ارم شاہ کی گفتگو میں مخل ہوئے۔لیکن کچھ ہی دیر کے توقف کے بعد انہوں نے سونیا فاؤنڈیشن کی کہانی کو جاری رکھتے ہوئے بتایا۔
ہم امریکہ میں رہتے ہیں ۔۔ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔۔۔میری بڑی بیٹی جب سترہ سال کی تھی تو نانی کے ساتھ اپنے گاؤں آئی جو چارسدہ کے قریب کانگڑھا کے نام سے ہے۔وہاں اس نے محسوس کیا کہ یہاں تو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں۔نہ ہی والدین کا بچیوں کی پڑھائی کی طرف رجحان ہے۔۔سونیا نے اسی وقت ایک انقلابی فیصلہ کیا والدین سے کہا کہ مجھے بیس ہزار ڈالر چاہیئے ۔میں اس علاقے میں سکول کے لیئے مطلوبہ زمین خریدنا چاہتی ہوں جو میں نے پسند کر لی ہے۔۔والدین نے بہت سمجھایا کہ امریکہ میں کھول لو ۔۔کسی اور ملک میں کھول لو کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ آئے دن بم دھماکوں کی وجہ سے ماحول میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
مگر سونیانے والدین سے کہا میں اسی علاقے کی بچیوں کے لیئے تعلیم کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہوں۔
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کو شرکت اقتدار کی پیشکش
دو جنوری: نامور سائنس دان ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی سال گرہ اور برسی
مسجد گرانے کے متعلق سپریم کورٹ کا حکم نامہ: چند اہم سوالات
مگر صد افسوس سونیا کی یہ خواہش اس کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی ۔۔۔یہ 2012 کی بات ہے۔سکول کھولنے کے اس خیال کے ایک ہی سال بعد وہ کار کے حادثے میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی ۔۔سو والدین نے اپنی لاڈلی اور بڑی بچی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی اس خواہش کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔اور پھر کانگھڑا گاؤں میں زمین خرید کر 2015میں سکول کی ابتدا کردی ۔
سونیا کی والدہ ارم شاہ نے بتایا کہ اس وقت سکول میں 210بچے زیر تعلیم ہیں جن میں اسی فی صد لڑکیاں ہیں۔ہم ان کو نہ صرف مفت تعلیم کی سہولت دے رہے ہیں ۔بلکہ ان کو کھانا پینا کتابیں یونیفارم اور جوتے بھی مفت مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر باقاعدہ ان کا معائینہ کرتے ہیں ۔انہیں ادویات کے علاوہ وٹامنز وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔۔ان پر تقریبا ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جو دوستوں کی معاونت سے خوش اسلوبی سے پورا ہو جاتا ہے۔
ارم شاہ اپنی کہانی بڑی محبت کے ساتھ سنا رہی تھیں مگر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔یہ آنسو شاید سونیا کی محبت میں تھے ۔۔اس کے لیئے تشکر کے تھے یا پھر اس حسرت میں تھے جو ہمیشہ سے میرے بھی دل کے نہاں خانوں میں بھی کہیں چھپی بیٹھی تھی ۔
میں نے اس خوش قسمت ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی میری بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔
میں سوچتی رہی سونیا نے زندگی کی بازی کہاں ہاری ہے ۔اس نے توآن بان اور شان سے جیت لی ہے۔
زندگی کی بازی تو ہمارے جیسے لوگ ہارتے ہیں ۔۔جو بے مقصد زندگی گزارتے ہیں ۔وہ تو امر ہوگئی ۔۔اس نے تو آب حیات پی لیا۔وہ تو صدیوں تک زندہ رہے گی ۔۔
اچانک مجھے محسوس ہوا قیصرہ مختار علوی کے ڈرائینگ روم میں ایک شمع روشن ہو گئی ہے جس کی روشنی چاروں اور پھیل گئی ہے۔۔اور اس روشنی نے مجھے نہ صرف بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔بلکہ مجھے زندگی کا نیا سلیقہ سکھا دیاہے۔ میں نے نئے سال کے اس حسین خیال کو چوم کر آنکھوں سے لگایا ۔تاکہ میری آنکھوں کی روشنی دل کی سیاہی اور دماغ کی رگیں توانائ سے بھر جائیں ۔۔اور قیصرہ کا شکریہ ادا کیا جس نے اس پاکیزہ جیتی جاگتی سانس لیتی کہانی سے نئے سال کی شروعات کے لیئے سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔
آج سال کا پہلا دن تھا اور قیصرہ مختار علوی نے حسب معمول بہت ہی عمدہ محفل سجا رکھی تھی۔۔یوں تو ان کے دوستوں کی لسٹ بہت طویل ہے مگر اس محفل میں خاص طور پر امریکہ کےشہر شکاگو سے سونیا فاؤنڈیشن کی ارم شاہ تشریف لائی ہوئ تھیں۔سونیا فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ممبران کے ساتھ قیصرہ نے کچھ اپنے خاص دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔
دسمبر اپنی تمام تر چکا چوند کے ساتھ رخصت ہو چکا تھا ۔۔مبارک سلامت کے میسیجز کی ترسیل اپنے عروج پر تھی ۔پٹاخوں کی آوازیں بھی شمع خراشی کرکے دھواں دھواں ہو چکی تھیں ۔جنوری 2022 کی نئی نویلی ٹھٹھرتی شام کو قیصرہ نے مصنوعی حرارت کی گرماہٹ اور محبت کا رنگ گھول کر قوس و قزاح بنا رکھا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
دوستوں کی کہکشاں سے ان کا ڈرائنگ روم سجا ہوا تھا۔ایسے میں ہم داخل ہوئے تو انہوں نے ہمارا بہت ہی پیارا تعارف کروا کر ہمیں بھی اپنائیت کی گود لے لیا۔۔گو ہم ارم شاہ کی گفتگو میں مخل ہوئے۔لیکن کچھ ہی دیر کے توقف کے بعد انہوں نے سونیا فاؤنڈیشن کی کہانی کو جاری رکھتے ہوئے بتایا۔
ہم امریکہ میں رہتے ہیں ۔۔ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔۔۔میری بڑی بیٹی جب سترہ سال کی تھی تو نانی کے ساتھ اپنے گاؤں آئی جو چارسدہ کے قریب کانگڑھا کے نام سے ہے۔وہاں اس نے محسوس کیا کہ یہاں تو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں۔نہ ہی والدین کا بچیوں کی پڑھائی کی طرف رجحان ہے۔۔سونیا نے اسی وقت ایک انقلابی فیصلہ کیا والدین سے کہا کہ مجھے بیس ہزار ڈالر چاہیئے ۔میں اس علاقے میں سکول کے لیئے مطلوبہ زمین خریدنا چاہتی ہوں جو میں نے پسند کر لی ہے۔۔والدین نے بہت سمجھایا کہ امریکہ میں کھول لو ۔۔کسی اور ملک میں کھول لو کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ آئے دن بم دھماکوں کی وجہ سے ماحول میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
مگر سونیانے والدین سے کہا میں اسی علاقے کی بچیوں کے لیئے تعلیم کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہوں۔
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کو شرکت اقتدار کی پیشکش
دو جنوری: نامور سائنس دان ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی سال گرہ اور برسی
مسجد گرانے کے متعلق سپریم کورٹ کا حکم نامہ: چند اہم سوالات
مگر صد افسوس سونیا کی یہ خواہش اس کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی ۔۔۔یہ 2012 کی بات ہے۔سکول کھولنے کے اس خیال کے ایک ہی سال بعد وہ کار کے حادثے میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی ۔۔سو والدین نے اپنی لاڈلی اور بڑی بچی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی اس خواہش کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔اور پھر کانگھڑا گاؤں میں زمین خرید کر 2015میں سکول کی ابتدا کردی ۔
سونیا کی والدہ ارم شاہ نے بتایا کہ اس وقت سکول میں 210بچے زیر تعلیم ہیں جن میں اسی فی صد لڑکیاں ہیں۔ہم ان کو نہ صرف مفت تعلیم کی سہولت دے رہے ہیں ۔بلکہ ان کو کھانا پینا کتابیں یونیفارم اور جوتے بھی مفت مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر باقاعدہ ان کا معائینہ کرتے ہیں ۔انہیں ادویات کے علاوہ وٹامنز وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔۔ان پر تقریبا ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جو دوستوں کی معاونت سے خوش اسلوبی سے پورا ہو جاتا ہے۔
ارم شاہ اپنی کہانی بڑی محبت کے ساتھ سنا رہی تھیں مگر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔یہ آنسو شاید سونیا کی محبت میں تھے ۔۔اس کے لیئے تشکر کے تھے یا پھر اس حسرت میں تھے جو ہمیشہ سے میرے بھی دل کے نہاں خانوں میں بھی کہیں چھپی بیٹھی تھی ۔
میں نے اس خوش قسمت ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی میری بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔
میں سوچتی رہی سونیا نے زندگی کی بازی کہاں ہاری ہے ۔اس نے توآن بان اور شان سے جیت لی ہے۔
زندگی کی بازی تو ہمارے جیسے لوگ ہارتے ہیں ۔۔جو بے مقصد زندگی گزارتے ہیں ۔وہ تو امر ہوگئی ۔۔اس نے تو آب حیات پی لیا۔وہ تو صدیوں تک زندہ رہے گی ۔۔
اچانک مجھے محسوس ہوا قیصرہ مختار علوی کے ڈرائینگ روم میں ایک شمع روشن ہو گئی ہے جس کی روشنی چاروں اور پھیل گئی ہے۔۔اور اس روشنی نے مجھے نہ صرف بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔بلکہ مجھے زندگی کا نیا سلیقہ سکھا دیاہے۔ میں نے نئے سال کے اس حسین خیال کو چوم کر آنکھوں سے لگایا ۔تاکہ میری آنکھوں کی روشنی دل کی سیاہی اور دماغ کی رگیں توانائ سے بھر جائیں ۔۔اور قیصرہ کا شکریہ ادا کیا جس نے اس پاکیزہ جیتی جاگتی سانس لیتی کہانی سے نئے سال کی شروعات کے لیئے سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔
آج سال کا پہلا دن تھا اور قیصرہ مختار علوی نے حسب معمول بہت ہی عمدہ محفل سجا رکھی تھی۔۔یوں تو ان کے دوستوں کی لسٹ بہت طویل ہے مگر اس محفل میں خاص طور پر امریکہ کےشہر شکاگو سے سونیا فاؤنڈیشن کی ارم شاہ تشریف لائی ہوئ تھیں۔سونیا فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ممبران کے ساتھ قیصرہ نے کچھ اپنے خاص دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔
دسمبر اپنی تمام تر چکا چوند کے ساتھ رخصت ہو چکا تھا ۔۔مبارک سلامت کے میسیجز کی ترسیل اپنے عروج پر تھی ۔پٹاخوں کی آوازیں بھی شمع خراشی کرکے دھواں دھواں ہو چکی تھیں ۔جنوری 2022 کی نئی نویلی ٹھٹھرتی شام کو قیصرہ نے مصنوعی حرارت کی گرماہٹ اور محبت کا رنگ گھول کر قوس و قزاح بنا رکھا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
دوستوں کی کہکشاں سے ان کا ڈرائنگ روم سجا ہوا تھا۔ایسے میں ہم داخل ہوئے تو انہوں نے ہمارا بہت ہی پیارا تعارف کروا کر ہمیں بھی اپنائیت کی گود لے لیا۔۔گو ہم ارم شاہ کی گفتگو میں مخل ہوئے۔لیکن کچھ ہی دیر کے توقف کے بعد انہوں نے سونیا فاؤنڈیشن کی کہانی کو جاری رکھتے ہوئے بتایا۔
ہم امریکہ میں رہتے ہیں ۔۔ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔۔۔میری بڑی بیٹی جب سترہ سال کی تھی تو نانی کے ساتھ اپنے گاؤں آئی جو چارسدہ کے قریب کانگڑھا کے نام سے ہے۔وہاں اس نے محسوس کیا کہ یہاں تو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں۔نہ ہی والدین کا بچیوں کی پڑھائی کی طرف رجحان ہے۔۔سونیا نے اسی وقت ایک انقلابی فیصلہ کیا والدین سے کہا کہ مجھے بیس ہزار ڈالر چاہیئے ۔میں اس علاقے میں سکول کے لیئے مطلوبہ زمین خریدنا چاہتی ہوں جو میں نے پسند کر لی ہے۔۔والدین نے بہت سمجھایا کہ امریکہ میں کھول لو ۔۔کسی اور ملک میں کھول لو کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ آئے دن بم دھماکوں کی وجہ سے ماحول میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
مگر سونیانے والدین سے کہا میں اسی علاقے کی بچیوں کے لیئے تعلیم کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہوں۔
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کو شرکت اقتدار کی پیشکش
دو جنوری: نامور سائنس دان ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی سال گرہ اور برسی
مسجد گرانے کے متعلق سپریم کورٹ کا حکم نامہ: چند اہم سوالات
مگر صد افسوس سونیا کی یہ خواہش اس کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی ۔۔۔یہ 2012 کی بات ہے۔سکول کھولنے کے اس خیال کے ایک ہی سال بعد وہ کار کے حادثے میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی ۔۔سو والدین نے اپنی لاڈلی اور بڑی بچی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی اس خواہش کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔اور پھر کانگھڑا گاؤں میں زمین خرید کر 2015میں سکول کی ابتدا کردی ۔
سونیا کی والدہ ارم شاہ نے بتایا کہ اس وقت سکول میں 210بچے زیر تعلیم ہیں جن میں اسی فی صد لڑکیاں ہیں۔ہم ان کو نہ صرف مفت تعلیم کی سہولت دے رہے ہیں ۔بلکہ ان کو کھانا پینا کتابیں یونیفارم اور جوتے بھی مفت مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر باقاعدہ ان کا معائینہ کرتے ہیں ۔انہیں ادویات کے علاوہ وٹامنز وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔۔ان پر تقریبا ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جو دوستوں کی معاونت سے خوش اسلوبی سے پورا ہو جاتا ہے۔
ارم شاہ اپنی کہانی بڑی محبت کے ساتھ سنا رہی تھیں مگر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔یہ آنسو شاید سونیا کی محبت میں تھے ۔۔اس کے لیئے تشکر کے تھے یا پھر اس حسرت میں تھے جو ہمیشہ سے میرے بھی دل کے نہاں خانوں میں بھی کہیں چھپی بیٹھی تھی ۔
میں نے اس خوش قسمت ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی میری بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔
میں سوچتی رہی سونیا نے زندگی کی بازی کہاں ہاری ہے ۔اس نے توآن بان اور شان سے جیت لی ہے۔
زندگی کی بازی تو ہمارے جیسے لوگ ہارتے ہیں ۔۔جو بے مقصد زندگی گزارتے ہیں ۔وہ تو امر ہوگئی ۔۔اس نے تو آب حیات پی لیا۔وہ تو صدیوں تک زندہ رہے گی ۔۔
اچانک مجھے محسوس ہوا قیصرہ مختار علوی کے ڈرائینگ روم میں ایک شمع روشن ہو گئی ہے جس کی روشنی چاروں اور پھیل گئی ہے۔۔اور اس روشنی نے مجھے نہ صرف بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔بلکہ مجھے زندگی کا نیا سلیقہ سکھا دیاہے۔ میں نے نئے سال کے اس حسین خیال کو چوم کر آنکھوں سے لگایا ۔تاکہ میری آنکھوں کی روشنی دل کی سیاہی اور دماغ کی رگیں توانائ سے بھر جائیں ۔۔اور قیصرہ کا شکریہ ادا کیا جس نے اس پاکیزہ جیتی جاگتی سانس لیتی کہانی سے نئے سال کی شروعات کے لیئے سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔
آج سال کا پہلا دن تھا اور قیصرہ مختار علوی نے حسب معمول بہت ہی عمدہ محفل سجا رکھی تھی۔۔یوں تو ان کے دوستوں کی لسٹ بہت طویل ہے مگر اس محفل میں خاص طور پر امریکہ کےشہر شکاگو سے سونیا فاؤنڈیشن کی ارم شاہ تشریف لائی ہوئ تھیں۔سونیا فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ممبران کے ساتھ قیصرہ نے کچھ اپنے خاص دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔
دسمبر اپنی تمام تر چکا چوند کے ساتھ رخصت ہو چکا تھا ۔۔مبارک سلامت کے میسیجز کی ترسیل اپنے عروج پر تھی ۔پٹاخوں کی آوازیں بھی شمع خراشی کرکے دھواں دھواں ہو چکی تھیں ۔جنوری 2022 کی نئی نویلی ٹھٹھرتی شام کو قیصرہ نے مصنوعی حرارت کی گرماہٹ اور محبت کا رنگ گھول کر قوس و قزاح بنا رکھا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
دوستوں کی کہکشاں سے ان کا ڈرائنگ روم سجا ہوا تھا۔ایسے میں ہم داخل ہوئے تو انہوں نے ہمارا بہت ہی پیارا تعارف کروا کر ہمیں بھی اپنائیت کی گود لے لیا۔۔گو ہم ارم شاہ کی گفتگو میں مخل ہوئے۔لیکن کچھ ہی دیر کے توقف کے بعد انہوں نے سونیا فاؤنڈیشن کی کہانی کو جاری رکھتے ہوئے بتایا۔
ہم امریکہ میں رہتے ہیں ۔۔ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔۔۔میری بڑی بیٹی جب سترہ سال کی تھی تو نانی کے ساتھ اپنے گاؤں آئی جو چارسدہ کے قریب کانگڑھا کے نام سے ہے۔وہاں اس نے محسوس کیا کہ یہاں تو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں۔نہ ہی والدین کا بچیوں کی پڑھائی کی طرف رجحان ہے۔۔سونیا نے اسی وقت ایک انقلابی فیصلہ کیا والدین سے کہا کہ مجھے بیس ہزار ڈالر چاہیئے ۔میں اس علاقے میں سکول کے لیئے مطلوبہ زمین خریدنا چاہتی ہوں جو میں نے پسند کر لی ہے۔۔والدین نے بہت سمجھایا کہ امریکہ میں کھول لو ۔۔کسی اور ملک میں کھول لو کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ آئے دن بم دھماکوں کی وجہ سے ماحول میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
مگر سونیانے والدین سے کہا میں اسی علاقے کی بچیوں کے لیئے تعلیم کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہوں۔
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کو شرکت اقتدار کی پیشکش
دو جنوری: نامور سائنس دان ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی سال گرہ اور برسی
مسجد گرانے کے متعلق سپریم کورٹ کا حکم نامہ: چند اہم سوالات
مگر صد افسوس سونیا کی یہ خواہش اس کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی ۔۔۔یہ 2012 کی بات ہے۔سکول کھولنے کے اس خیال کے ایک ہی سال بعد وہ کار کے حادثے میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی ۔۔سو والدین نے اپنی لاڈلی اور بڑی بچی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی اس خواہش کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔اور پھر کانگھڑا گاؤں میں زمین خرید کر 2015میں سکول کی ابتدا کردی ۔
سونیا کی والدہ ارم شاہ نے بتایا کہ اس وقت سکول میں 210بچے زیر تعلیم ہیں جن میں اسی فی صد لڑکیاں ہیں۔ہم ان کو نہ صرف مفت تعلیم کی سہولت دے رہے ہیں ۔بلکہ ان کو کھانا پینا کتابیں یونیفارم اور جوتے بھی مفت مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر باقاعدہ ان کا معائینہ کرتے ہیں ۔انہیں ادویات کے علاوہ وٹامنز وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔۔ان پر تقریبا ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جو دوستوں کی معاونت سے خوش اسلوبی سے پورا ہو جاتا ہے۔
ارم شاہ اپنی کہانی بڑی محبت کے ساتھ سنا رہی تھیں مگر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔یہ آنسو شاید سونیا کی محبت میں تھے ۔۔اس کے لیئے تشکر کے تھے یا پھر اس حسرت میں تھے جو ہمیشہ سے میرے بھی دل کے نہاں خانوں میں بھی کہیں چھپی بیٹھی تھی ۔
میں نے اس خوش قسمت ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی میری بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔
میں سوچتی رہی سونیا نے زندگی کی بازی کہاں ہاری ہے ۔اس نے توآن بان اور شان سے جیت لی ہے۔
زندگی کی بازی تو ہمارے جیسے لوگ ہارتے ہیں ۔۔جو بے مقصد زندگی گزارتے ہیں ۔وہ تو امر ہوگئی ۔۔اس نے تو آب حیات پی لیا۔وہ تو صدیوں تک زندہ رہے گی ۔۔
اچانک مجھے محسوس ہوا قیصرہ مختار علوی کے ڈرائینگ روم میں ایک شمع روشن ہو گئی ہے جس کی روشنی چاروں اور پھیل گئی ہے۔۔اور اس روشنی نے مجھے نہ صرف بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔بلکہ مجھے زندگی کا نیا سلیقہ سکھا دیاہے۔ میں نے نئے سال کے اس حسین خیال کو چوم کر آنکھوں سے لگایا ۔تاکہ میری آنکھوں کی روشنی دل کی سیاہی اور دماغ کی رگیں توانائ سے بھر جائیں ۔۔اور قیصرہ کا شکریہ ادا کیا جس نے اس پاکیزہ جیتی جاگتی سانس لیتی کہانی سے نئے سال کی شروعات کے لیئے سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔