خیبرپختونخوا میں تبدیلی کی ایک بڑی لہر کے بعد سیاست میں ایک اور طغیانی کے آثار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے فیصلہ کن قدم اٹھانے کی ٹھان لی ہے۔ ان کا یہ شریف بڑا قدم اپنی پاکستان واپسی کے بارے میں ہے۔ انھوں نے خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں بہت کھلے الفاظ میں یہ تاثر دیا کہ ملاقات جلد ہوگی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
میاں نواز شریف کے خطاب سے قبل سردار ایاز صادق نے بھی اسی قسم کی بات کہی۔ انھوں کہا کہ وہ آئندہ ماہ لندن جا رہے ہیں۔ واپسی پر خوش خبری لائیں گے۔ یہ خوش خبری میاں نواز شریف کی واپسی کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی ناکامی کے علاوہ ملک میں ایسا کیا ہو گیا ہے جو یوں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا؟
میاں نواز شریف کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو موجودہ صورت حال کی ابتدا دو برس پہلے ہی ہو گئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے گوجرانولہ کے جلسے میں دباؤ بڑھانا شروع کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
آج اظہار قاضی کا یوم وفات ہے
آتے دنوں میں گم، ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا نیاشعری مجموعہ
میاں نواز شریف کی یہ حکمت عملی بڑی نپی تلی تھی۔ انھوں نے دباؤ کبھی پلڑے کے ایک طرف رکھا اور کبھی دوسری طرف۔ یعنی ان لوگوں کی طرف جنھیں مولانا فضل الرحمٰن نے نکا قرار دے رکھا ہے۔
دباؤ کی یہ حکمت عملی مخالف قوتوں کے لیے بھی تھی اور خود اپنی جماعت کو متحد اور متحرک رکھنے کے لیے بھی۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صبر آزما انتظار کے بعد یہ حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہے۔
سیاسی منظرنامے پر وہ کیا آثار ہیں جو حزب اختلاف کے لیے نتیجہ خیز رہے ہیں۔
ناقص معاشی کارکردگی
موجودہ سیاسی ماحول میں پہلا عنصر موجودہ حکمرانوں کی ناقص کارکردگی ہے۔ اس کارکردگی کا سب سے بڑا اثر قومی معیشت پر پڑا ہے۔ معیشت کی مجموعی خرابی اپنی جگہ لیکن اسے بہتر بنانے کے لیے حکومت کی بے سمت پالیسیوں نے معیشت کوشدید تباہ کر دیا۔ ایک ممتاز ماہر اقتصادیات اور اسی حکومت کے ایک مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے اس کا ذمے دار گورنر اسٹیٹ بینک کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قومی معیشت جتنا نقصان انھوں نے پہنچایا ہے، کوئی دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا تھا۔ انھوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو مشورہ دیا کہ اب وہ اس ملک پر رحم کریں اور واپس لوٹ جائیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے انہی اقدامات نے ریاست کے طاقتور ترین مراکز میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اس صورتحال سے صرف عوام ہی متاثر نہیں ہو رہے۔ بلکہ ریاست کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
یہی وہ صورت حال ہے جس نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ اسی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے رابطوں کا سلسلہ دراز ہوا۔ یہی صورت حال ہے جس میں سیاسی قوتوں نے ملک کو سنھبالنے کے لیے تعاون کا عندیہ دیا ہے۔
شرائط اور ضمانتیں
کیا یہ تعاون ماضی کی طرح گٹھ جوڑ اور این آر او قسم کا ہے؟ حزب اختلاف کے ایک معروف ناقد ارشاد بگٹی نے اسی قسم کاتاثر دیا ہے۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔
ذرائع کے مطابق وہ شرائط جنھیں میاں صاحب کی طرف سے دو برس قبل پیش کیا گیا تھا، تسلیم کرنے پر آمادگی کے اشارے ملے ہیں۔ ان میں ایک شرط تو یہ ہے کہ آئین پر عمل درآمد کی ٹھوس ضمانت دی جائے۔ عدالتی تحرک کے ذریعے سیاسی عمل کو جس طرح متاثر کیا گیا، اس کا ازالہ کیا جائے۔ ٹھوس ضمانت دی جائے کہ انتخابی عمل میں آئندہ کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔
سیاسی میں تازہ گرما گرمی کا اس کے علاوہ کوئی اور مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ میاں صاحب کی شرائط پر بات آگے بڑھ رہی ہے۔
تازہ سیاسی گہما گہمی کا واحد سبب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی شرائط پر معاملات آگے بڑھ رہے ہیں