ممتازمحقق، نقاداور ماہراقبالیات ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا نیاشعری مجموعہ’’ آتے دنوں میں گم‘‘ شائع ہوگیاہے۔ یہ مجموعہ نظموں پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے زاہدمنیرعامرکے پانچ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں ان کی شاعری کے عربی اورا نگریزی تراجم بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹرزاہدمنیرعامرآج کل پنجاب یونی ورسٹی کے ادارئہ تالیف و ترجمہ کے ڈائریکٹر ہیں. ان کی چالیس سے زیادہ نثری کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ملک کے ممتاز شعرا نے اس مجموعے کا پرجوش خیر مقدم کیا ہے۔
امجداسلام امجد
ڈاکٹر زاہد منیرعامر کی تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں اور مختلف زبانوں پر اُن کی دسترس کا تو مجھ سمیت ایک زمانہ قائل ہے. لیکن ان کی نظموں کا تخلیقی حسن، انوکھاپن اور موسیقیت بھی اپنی جگہ پر ایک فضا اور مقام رکھتے ہیں. اور یہ بات ہے کہ ان کی شخصیت کے مخصوص ٹھہرائو اور عالمانہ تاثر کے باعث اس طرف ادبی دنیا کی توجہ نسبتاً کم کم رہی ہے۔
زاہد منیرعامر کی جہاں گردی نے ان کے اسلوبِ شعر اوراندازِ نظر میں جس وسعت اور گہرائی کویکجا کیا ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہے کہ ان نظموں میں ایک حساس دل کی دھڑکن اورایک وسیع المطالعہ اور حقیقت پسند دماغ کی معاملہ فہمی ایسی ہے کہ جو ان کو اپنے ہم عصر شاعروں سے واضح طور پر ممیز اورممتاز کرتی ہے اور جدید بین الاقوامی رویّوں اورنظریات کاایک ایسا منظرنامہ بناتی ہے کہ ہرمنظر دامنِ دل کو کھینچتا اورنت نئے سوال اٹھاتا چلاجاتاہے اوریوں ہر نظم آپ کو باتیں کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
آئی ٹی آئی مال بردار ٹرین سروس، خطے میں خوشحالی کی نقیب
آج ملکۂ ترنم نور جہاں کی برسی ہے
ڈاکٹرخورشیدرضوی
شاعری میں زاہد منیر صاحب کا غالب رجحان آزاد نظم کی طرف ہے اور گزشتہ ایک عشرے میں اُن کی ارتقا پاتی ہوئی نظم اُس سطح پر آگئی ہے جہاں وہ معاصر نظم کے قابلِ لحاظ شعراء میں شمار کیے جانے کا استحقاق پیدا کر چکے ہیں۔ اُن کا یہ تازہ مجموعہ صرف نظموں ہی پر مشتمل ہے جن میں عُمق، گہرائی اور تخلیقیت کے عناصر روز افزوں نظر آتے ہیں۔ اُن کے مصرعے، بسا اوقات، اس قدر سادہ و برجستہ ہوتے ہیں کہ اُن کی نثر نہیں بنائی جا سکتی مگر اُن کا تخلیقی وفور اور پُر معنی ایمائیت قاری کو بزور اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ پہلو دار نظمیں ہمیں جابجا، اُس تحیّر سے دو چار کرتی ہیں جس کی گرفت میں آکر ہم داد دینا تک بھول جاتے ہیں۔
میں اُمید کرتا ہوں کہ ان نظموں میں پنہاں اندر کا یہ پائیں باغ، یہ Door in the Wall بے رحم حقائق کی تپش میں ہانپتے زخمی دلوں کے لیے ایک ملجأ ومامن مہیا کر سکے گا اور ’’کھردری کھالوں کے زندانوں‘‘ میں جکڑی روحوں کو ہر طرف بکھری ہوئی حسن کی فراوانی کی طرف متوجہ کر سکے گا جو صرف ایک نگہ کے فاصلے پر ہمہ وقت موجود ہے۔
پروفیسرڈاکٹرسعادت سعید
یہ مجموعہ کلام جہاں کلاسیکی خصوصیات کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے وہاں جدید ترین شعری رویوں کا بھی حامل ہے۔ نئی لسانی تشکیلات کے بڑے حامی ، نقاد،شاعر،دانش وراور جی سی یونی ورسٹی لاہور کے ممتازپروفیسرڈاکٹرسعادت سعیدنے آتے دنوں میں گم پر اظہارِخیال کرتے ہوئے اسے اردوشاعری کی دنیامیں تازہ ہواکاایک جھونکا قراردیا۔ انھوں نے کہاکہ زاہد منیر عامر کی نظمیں ان کے اسفار کی یاد بھی دلاتی ہیں۔ ان کے جمالیاتی تجربوں کی نشاندہی بھی کرتی ہیں اور ان کی انسانی عقیدتوں سے مملو سوچ کی عکاس بھی ہیں۔
یہ ان کی متخیلہ اور فینسی آشنا حسیت ہی کا کمال ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنی نظمیہ کمپو زیشنز کو ایجازی تاثیر سے معمور کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعری حیات جوئی اور روشنی طلبی کی متنوع سمتوں کو محیط قارئین کو باور کرواتی ہے کہ شاعر عصری بو العجبیوں کے خلاف بھر پور احتجاج کرنے کا اہل ہوتا ہے۔
زاہد منیر عامر کی نظمیں اپنے جوہر کے اعتبار سے رہنمائی مہیا کرنے والی نظمیں ہیں۔یہ نظمیں سپاٹ بھی ہو سکتی تھیں لیکن شاعر نے جا بجا اپنے متخیلہ کی آنچ سے مس خام کو زر بنانے کا کام کیا ہے ۔ اگرچہ یہ کام اقبال کی شاعری سے کافی مختلف ہے تاہم انہوں نے بھی اپنے انداز سے دلوں میں سرد ہو چکنے والی آگ کی راکھ میں اس لیے انگلیاں پھیری ہیں کہ شاید کوئی چنگاری از سر نو کوئی الائو جگا دے۔زاہد منیر عامر کی نظمیں جدید لسانی ساختوں سے گریز نہیں کرتیں تاہم انہیں شاعری میں فصاحت و بلاغت کے فنی حوالوں سے کسی قسم کی کوئی کد نہیں ہے۔انہوں نے اپنے سینے میں سانس لیتی کرنوں سے سیہ شبوں اور پھسلتی ریت کے ذروں کواجالنا ہے۔
جب دنیا مایوس کرتی ہے
دریں اثنااپنی شاعری کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کتاب کے شاعر پروفیسرڈاکٹرزاہدمنیرعامرنے کہاکہ آزادنظم میری زندگی کا سہارا ہے ، دنیا مایوس کرنے لگتی ہے تو نظم مجھے اپنی بانہوں میں لے لیتی ہے اور میری سانسیں بحال ہو جاتی ہیں۔ مجھے اپنے باطن کی یہ شمع اپنے کاموں میں سب سے زیادہ عزیزہے۔‘‘
یہ کتاب قلم فائونڈیشن لاہور نے اپنے روایتی معیار کے مطابق نہایت آب و تاب سے شائع کی ہے ۔جدید نظم سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ زاہد منیر عامر کی نظمیں سماجی دکھوں کے اظہار سے گہرے طور پر مربوط ہیں۔زاہد منیر عامر نے انسان کی کم مائیگی، بے حسی، بے مروتی کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔انہوں موت اور فنا کے موضوعات کے اندر سے زندگی اور بقا کے تصورات کو ہویدا کرنے کا عمدہ کام کیا ہے۔ڈاکٹرزاہدمنیرعامرکی نظموں کے فارسی فرانسیسی ،ترکی اور جاپانی زبانوں میں بھی تراجم ہوچکے ہیں ۔
زاہد منیر عامر کی نظموں میں موت اور فنا جیسے پیچیدہ موضوعات سے زندگی اور بقا کے تصورات کشید کیے ہیں۔ ان کی کئی نظموں کا غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے