سیالکوٹ میں توہین مذہب کے نام پر جو کچھ ہوا، اس نے اوسان خطا کر دیے۔ دیر تک کچھ سجھائی نہ دیا۔ پھر آہستہ آہستہ ایک منظر نگاہوں میں اترا۔ کوئی چالیس برس تو ہوتے ہوں گے۔ وہ دن گرمی کی چھٹیوں کے تھے۔ ایک صبح جب ہم اٹھے تو سنسنی کی ایک لہر یہاں سے وہاں پھیلی دکھائی دی۔ سنسنی کا کوئی مادی وجود تو ہرگز نہیں لیکن اس روز اپنے لڑکپن کی آنکھوں سے میں نے اسے بچشم خود دیکھا۔
یہ بھی پڑھئے:
تین دسمبر: منفرد غزل گو محبوب خزاں کی آج برسی ہے
جامع محمدی شریف کے بانی،گوہرِ نایاب مِلتا ہے مٹی کے گھروندوں میں
منظور بابے خادم کا ریڑھی بان تھا۔ دھان پان سا آدمی تھا لیکن جسم اس کا کمایا ہوا تھا۔ تن سازی کے زور پر نہیں بلکہ جان توڑ مزدوری کی برکت سے۔ صبح شام بیلچا چلانے سے اس کے ہاتھ لوہے کی طرح مضبوط ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود شام کے دھندلکے میں جب وہ گھاس کے سبز قطعے پر محلے کے لڑکوں بالوں سے کشتی کھیلتا تو ہمیشہ ہار جاتا۔ یہ شکست اس کے زور بازو کی شکست ہرگز نہ ہوتی بلکہ اس کی پشت پر صدیوں کی غلامی تھی۔ منظور کا ذہن جس سے کبھی آزاد نہ ہو پایا۔
خوف کیسے ختم ہوا؟
صبح اٹھ کر جب میں گھر سے باہر آیا تو سڑک پر رونق معمول سے کم تھی۔ اس روز چارہ منڈی روڈ پر آنے جانے والے اکا دکا ہی تھے۔ کوئی سائیکل سوار کوئی پیدل۔ یہ سب جلدی میں دکھائی دیتے تھے۔ یوں جیسے وہ جلدی جلدی پل صراط سے اتر کر گھر کی محفوظ چار دیواری میں محفوظ ہو جانا چاہتے ہوں۔ میں نے منظور کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ منظور نے گھبرائے ہوئے انداز میں میری جانب دیکھا اور کہا:
‘ قتل ہو گیا ہے۔ ملکوں کے ہاں چوری کی نیت سے کوئی داخل ہوا تھا۔ چوکیدار نے گولی چلا دی اور اس نے وہیں دم دے دیا’۔
منظور نے یہ خبر ہراس کے عالم میں دی۔ اس کیفیت اور ماحول نے اس روز سنسنی کو مجسم آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ کچھ کہتے ہوئے لوگوں کی آواز بلا وجہ دھیمی ہو جاتی۔ اس روز لوگوں نے بلا سبب کہیں آنے جانے سے گریز کیا۔ کچھ لوگ اپنے گھروں کے سامنے تھڑوں اور دکانوں کے سامنے بیٹھنے کے پٹھوں پر قریب قریب جڑ کر بیٹھ گئے۔ اور دھیرے دھیرے خوف کے عالم میں باتیں کرنے لگے۔ پھر اچانک ہل چل مچی اور لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں جانے کدھر سے نکل آئیں۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ ڈاکو کی لاش دیکھنے کو جاتے ہیں۔
لاش کا سوال
اسی ہجوم میں میٹرک کا یہ طالب علم بھی تھا۔ ہراس اور حیرت میں ڈوبا ہوا۔ ڈیرے پر مجمع بڑے دائرے کی صورت جمع تھا۔ اسی بھیڑ میں گھس کر بیچ میدان کے نگاہ ڈالی تو ریڑھ کی ہڈی میں بجلی کی طرح کوئی احساس اوپر سے نیچے تک سرایت کر گیا۔ سنسنی کو آنکھوں سے دیکھنے کی طرح یہ احساس بھی لوہے کی جلتی ہوئی کسی سلاخ کی طرح محسوس ہوا۔ وہ گھنی مونچھوں والا کوئی شخص تھا ۔ اس کے چہرے پر ابھری ہوئی ہڈیاں چغلی کھاتی تھیں کہ ضرور یہ شخص کسی زمیندار کا کمی ہوگا۔ گولی عین اس کے سینے میں پیوست ہوئی تھی۔ چہرے پر خوف اور حیرت کا احساس نقش ہو کر رہ گیا تھا۔ گویا تماشائیوں سے پوچھتا تھا کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟
ہم لوگ مرنے والوں کا احترام کیا کرتے ہیں۔ یہ پہلی بار تھی جب میں نے کوئی لاش زمین پر اس بے چارگی کے عالم میں دیکھی۔ وہ بھی خون میں تر بہ تر۔ دیکھنے والے ابھی اپنے صدمے سے جان بر نہیں ہو پائے تھے کہ ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ لاش کے گرد سہمے ہوئے خاموش لوگوں میں بھنبھناہٹ شروع ہوئی پھر یہ آواز شور میں بدلی۔ کہنے والے کہہ رہے تھے کہ یہ خوب ہوا۔ مجرم کو موقع پر سزا دے دی گئی۔ یوں ہی اگر لوگ حوصلہ کریں اور مجرم کو ٹھکانے لگا دیا کریں تو جرم کا نشان تک مٹ جائے۔ یہ بھنبھناہٹ خوف پر غالب آئی اور یہ نوخیز جرم کو موقع پر ہی نمٹا دینے کے غیر معمولی جذبے کو اپنی جسم و جاں میں بھر کر گھر لوٹا۔
انڈے بچے دینا والا جرم
جذبات کے اسی وفور میں والدین کے سامنے جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ یہ کیفیت دیکھ کر والد مرحوم جو چارپائی پر نیم دراز تھے۔ اٹھ بیٹھے۔ جلد میں احتیاط سے رکھے ربن کو نکال کر زیر مطالعہ جگہ رکھا۔ کتاب بند کی اور اسے تکیے کے پاس رکھ دیا۔ ٹوپی جو تکیے کے برابر دھری تھی، اٹھا کر سر پر رکھی پھر نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا:
‘ یہ جرم کی بیخ کنی نہیں بلکہ اپنی نوعیت میں خود ایک جرم ہے’۔
اتنا کہہ کر وہ ذرا سی دیر کے لیے خاموش ہوئے پھر کہا:
‘ یہ ایک ایسا جرم ہے جو انڈے بچے دیتا جائے گا۔ جیسے چراغ سے چراغ جلتا جاتا ہے لیکن یہ جرم کا چراغ ہے، اس کے جلنے سے اندھیرا پھیلتا چلا جاتا ہے’۔
گہرے دکھ میں ڈوبی جس کیفیت میں یہ جملے کہے گئے تھے، قصہ زمین برسر زمین نمٹتا دیکھ کر آنے والے والے نوعمر کی سمجھ نہ آ سکے۔ یہ دیکھ کر جنت کے اس مکین نے پیار سے پاس بٹھایا اور سمجھایا۔ جن کا دعویٰ ہے کہ مارا جانے والا ڈاکو تھا۔ انھیں شکایت کنندہ یا متاثرہ فریق کہتے ہیں۔ یہ فریق مظلوم ہو سکتا ہے لیکن یہ مظلومیت اسے دو اختیار کبھی فراہم نہیں کرتی۔ ایک عدالت کا کردار کہ سزا سنا دے اور دوم، ریاست کا کردار کہ وہ اپنی سنائی ہوئی سزا کو عملی جامہ پہنائے۔ وہ معاشرہ جو اپنے شہریوں کو ایسی چھوٹ دیتا ہے، دراصل اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ ایسا سماج کبھی پر سکون نہیں ہو پاتا، ہمیشہ بد امنی کا شکار رہتا ہے۔
ہجوم کی نفسیات
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر غیض و غصب سے بھرے ہوئے ہجوم کی تصویریں دیکھ کر پہلے تو ایک یاد آئی۔ پچپن میں دیکھے ہوئے اس ہجوم کی یاد۔ ایسے ہجوم گزشتہ پانچ چھ دہائیوں میں ہم نے بار بار دیکھے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ ایسے واقعات، خاص طور پر ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے توہین مذہب کے استعمال کی مذمت میں بھی ہمارے ہاں آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی اسی ملک میں ہوا کہ مجرموں کو ہیرو بنایا گیا اور انھیں سزا دینے کو جرم قرار دیا گیا۔
نہایت دکھ کی بات ہے کہ ہماری ریاست میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دعوے بڑے بڑے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک عرصے تک ریاست کے کل پرزے رہے ہیں۔ کاروبار ریاست ان کے ہاتھوں انجام پایا۔ کچھ لوگ میڈیا میں بیٹھ کر ریاست سے انکار کرتے ہیں۔ کچھ دیدہ ور عوام کو ریاست سے بغاوت پر ابھارتے ہیں۔ اور کچھ کھلم کھلا آئین، قانون اور ریاست کا انکار کرتے ہیں۔ یہ سب کر کے وہ لوگ عوام کو توہین مذہب کے نام پر لا قانونیت پر اکساتے ہیں۔ یہ طرز عمل ہمارے معاشرے پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہی عناصر پیٹرول چھڑکنے کے بعد اسے دیا سلائی بھی دکھاتے ہیں۔
معاشرے میں زہر بھرنے والے
تاریخ کے مختلف مراحل پر ابھرنے والے ایسے مکروہ کردار معاشرے میں زہر بھرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہی ظلم ہے جس کے خونین مظاہر ہمیں توہین مذہب کے نام پر سیالکوٹ سمیت ملک بھر میں دکھائی دیتے ہیں۔
ان جرائم پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ ملک کو ہجوم کی نفسیات سے نکالا جائے۔ اس کار خیر میں علما سمیت پورا معاشرہ ریاست کا ساتھ دے۔ نفرت کے سوداگروں کی پشت پر کوئی کھڑا نہ ہو۔ اگر کوئی فرد یا طبقہ ایسا کرے، اسے عبرت ناک سزا دی جائے۔ ایسے ناپاک مقاصد کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال ناممکن بنا دیا جائے۔ ذرائع ابلاغ سے نفرت کے پرچار کو غداری تصور کر کے غداری کی سزا دی جائے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں ناموس رسالت ﷺ اور توہین مذہب کا مقدس معاملہ انتہائی مجرمانہ طور پر مذاق بنا دیا گیا۔ اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔