‘مرتے وقت وقت میں بڑے فخر سے اپنی اولاد سے یہ کہہ سکوں گا کہ مجھے سید علی گیلانی، صدی کے سب سے بڑے حریت پسند سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا’۔
یہ 1993 کی بات ہوگی، مقبوضہ کشمیر میں ہمیشہ طرح گورنر راج جاری تھا لیکن قانونی پوزیشن کچھ ایسی تھی کہ اس کی مدت میں مزید ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا، دنیا بھر میں بحث شروع ہو گئی، خود پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی۔ اس طرح کے حالات میں فوری نتیجے پر چھلانگ لگانے کی عادت کے مطابق عام خیال یہی تھا کہ بھارت تو خود اپنی دلدل میں پھنس گیا، اب یہی ہماری کامیابی ہے۔ کامیابی کے اس چمک دار احساس کا یہی سبب رہا ہو گا کہ ایک روز میں فون گھما دیا،
‘السلام علیکم ورحمتہ اللہ’ کی نسبتاً نحیف آواز یہ جاننے کے لیے کافی تھی کہ مجھے سید علی گیلانی سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔
بات چیت تعارف سے شروع ہوئی تو انھیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ مجھے اپنے کیرئیر کے ابتدائی برسوں کے دوران میں محمد صلاح الدین صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر نے کا موقع ملا ہے۔ ڈھیروں دعائیں سنیٹ لینے کے بعد ان سے میرا پہلا سوال گورنر راج میں حائل اسی آئینی رکاوٹ کے بارے میں تھا جس کی پوری دنیا میں دھوم مچی ہوئی تھی۔
سید صاحب نے سوال سنا۔ یہ بات چیت اگر چہ ٹیلی فون پر ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود مجھے محسوس ہوا کہ جیسے سوال مکمل ہوتے ہی ان کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات پیدا ہوئے کہ پھر ہمیں کیا؟
اگلے ہی لحظے کچھ ایسی بات ہی ان کی زبان پر بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں جس کا وجود ہی ناجائز ہے، اس کے گورنر راج میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو چاہے نہ ہو، اس سے ہمارا کیا لینا دینا؟
:حقیقی لیڈر وہی ہو سکتا ہے دائیں بائیں میں الکجھنے کے بجائے اپنی نگاہ ہمیشہ اپنے ہدف پر رکھے’۔
سید علی گیلانی کا جواب سن کر میں نے سوچا۔
سانس لینے کے لیے وہ ذرا دیر رکے، پھر کہا کہ ہمیں اپنی توجہ فروعی معاملات پر نہیں، بنیادی معاملے پر رکھنی چاہئیے کہ کشمیر میں بھارت کا وجود ناجائز ہے، ہمیں اپنی سرزمین کو اس ناپاک وجود سے پاک کرنا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں بہت سے قائدین کی قربانیاں فقید المثال ہیں لیکن سید علی گیلانی ان سب میں نمایاں اور سب سے ممتاز ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کی تاریخی جدوجہد کے دوران میں ایسے بے شمار پہلو ہیں جو ان کے کردار کی عظمت کو نمایاں کرتے ہیں۔
سید علی گیلانی قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح ان چند قائدین میں بھی نمایاں ترین ہیں جنھوں نے آزادی کے عظیم مقصد کے لیے ہر امکان کو آزمانے کی کوشش کی جیسے ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں شرکت اور اسمبلی میں اعلان آزادی کے ذریعے صورت حال میں تبدیلی۔
گیلانی صاحب کی دوسری خوبی جو انھیں ممتاز کرتی ہے، وہ تھی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ غور و فکر بلکہ فکری قیادت۔
آج دنیا تسلیم کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل سہ فریقی مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ غیر معمولی تجویز ان ہی کے ذہن رسا میں پیدا ہوئی۔
گیلانی صاحب کا شمار مقبوضہ کشمیر کے ان قائدین میں ہوتا ہے جن کی تقریباً پوری زندگی نظر بندی میں گزر گئی لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ ان کے کردار کی عظمت کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جب جنرل مشرف نے مسئلہ کے آؤٹ آف باکس سلوشن کے نام پر اقوام متحدہ کی قرارداد سے روگردانی کر دی تو وہ اس وقت بھی اپنے مؤقف پر چٹان کی طرح ڈٹ رہے۔
کچھ دن قبل جب وہ دید علیل تھے، کسی تیمار دار نے فون سے ان کی وڈیو بنائی جس میں وہ گردو پیش سے بے نیاز درود شریف کے مسلسل ورد میں مصروف تھے۔ قدرت نے ان کی شخصیت کی مٹی کن اجزا سے گوندھ کر بنائی تھی، یہ سمجھنے کے لیے اس وڈیو دیکھ لینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ اس مرد حریت کو اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے۔ انھوں نے جان جان آفریں کے سپرد کر کے بھارت کے جبر سے آزادی حاصل کر لی، اللہ پورے کشمیر کو بھی بھارت کے تسلط سے آزاد کرائے، آمین۔
اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ اس بطل حریت کی رحلت تمھارا ردعمل کیا ہے تو میں بلاتامل کہوں گا کہ
‘مرتے وقت وقت میں بڑے فخر سے اپنی اولاد سے یہ کہہ سکوں گا کہ مجھے سید علی گیلانی، صدی کے سب سے بڑے حریت پسند سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا’