پاکستانی صحافت کی آبرو حمید نظامی کی نشانی عارف نظامی رخصت ہوئے۔ ڈھیلے انداز میں بات کرنے والے عارف نظامی گویا ہوتے تو لگتا کہ تکبر سے بھرا ہوا یہ شخص سب حاضر و موجود کو حقارت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن جب ان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ شخص تو سراپا دھڑکتا ہوا دل ہے، جمہوریت کا سپاہی اور آمریت کے خلاف ننگی تلوار۔
جنرل مشرف کے زمانے میں جب جنرل تنویر نقوی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر اہل پاکستان کو مخاطب کیا کرتے تھے اور ملک کے تنظیمی ڈھانچے اور بلدیاتی نظام کو تلپٹ کرنے درپے تھے، اسی زمانے میں پی ٹی وی پر ملک کے ممتاز صحافیوں سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ عارف صاحب کی باری آئی تو انھوں نے اپنے جانے پہچانے ڈھیلے ڈھالے انداز میں کہا کہ یہ جو کچھ کرنے کے دعوے آپ کر رہے ہیں، آپ کے کرنے کا کام نہیں، الیکشن کرائیں اور جائیں۔ جنرل صاحب کو اتنی کھلی اور دوٹوک باتیں سننے کا تجربہ نہیں تھا، وہ نظامی صاحب کی بات سن کر پہلے تو حیرت اور صدمے کی کیفیت میں چلے گئے اور کچھ دیر خاموش رہے پھر جب کچھ سنبھلے تو کہا کہ سوال سمجھ میں نہیں آیا۔ نظامی صاحب کہنے لگے کہ ایسے سوال آپ لوگوں کی سمجھ میں آتے ہوتے تو ملک کا حشر یہ نہ ہوتا۔ فوجی اقتدار کے نصف النہار میں ایک برخود غلط(self righteous ) جرنیل کو یوں لاجواب کر دینے کا حوصلہ عارف نظامی میں ہی تھا۔
نوائے وقت گروپ سے علیحدگی کے بعد عارف صاحب نے کالم نگاری شروع کردی تھی۔ وہ اپنے والد حمید نظامی مرحوم اور چچا مجید نظامی مرحوم کی طرح اگر چہ سادہ نثر ہی لکھتے تھے لیکن ان کی تحریر میں اپنے بزرگوں کے برعکس مقامی محاورے کے چٹخارے کے علاوہ حالات حاضرہ کی گہری تفہیم ملتی تھی۔ ان جیسا تجزیہ اور ان جیسی سادہ اور بے لاگ تحریر اب شاید کبھی پڑھنے کو نہ ملے۔
عارف صاحب رخصت ہوئے، اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں کی لپپقبول فرمائے اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کر کے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ امین۔