یوں تو میرا واسطہ کئی ناظمین سے رہا ہے۔ جس میں سعودآباد کے ناظم مرحوم و مغفور بھائی عبد المتین صاحب اور جامعہ کراچی کے ناظم محترم بھائی محمود احمد اللہ والا صاحب خاص طور پر قابل زکر ہیں۔ چونکہ بالائی نظم نے مجھے صورت حال اور وقت کی ضرورت دیکھتے ہوئے رہائشی علاقے کی ذمہ داری سے فارغ کرکے مکمل طور پر جامعہ کراچی یونٹ کے حوالے کردیا تھا۔ اور جامعہ میں ایم ایس سی کے آخری سال میں مجھے ہوسٹل میں رہائش اختیار کرنی پڑی تھی۔
الحمد اللہ ہوسٹل کی رہائش کا تجربہ بھی بہت دلچسپ اور کار آمد رہا۔ میرے ہم کمرہ حضرات میں نامی گرامی صحافی بھائی بچل لغاری اور اردو کالج کے انگلش کے پروفیسر اور بعد ازاں پنجاب پولس کے ڈی آئی جی بھائی اقبال راجپوت تھے۔ خیر ان حضرات کا زذکر خیر تو ہوسٹل کے حوالے سے آگیا۔ مگر اصل ذکر تو بھائی محمود احمد اللہ والا کا ہے جو میرے ناظم رہے۔
محمود بھائی اسم با مسمیٰ تھے۔ یعنی بہت ہی اللہ والی شخصیت۔ جمیعت کی بہت سی نابغہ روزگار شخصیات جن سے اس ناچیز نے فیض پایا ان میں محمود بھائی کا نام سر فہرست آتا ہے۔ جمیعت میں جتنا عرصہ بھی میں رہا اس میں سب سے زیادہ وقت محمود بھائی کے ساتھ گزرا۔ ہم اکثر لوگوں کیلیے سلیم الفطرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر اس کی جیتی جاگتی تفسیر محمود بھائی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود تھی۔ ہم اکثر غص بصر کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں کہ قرآن نے ہمیں نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ محمود بھائی اس کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔
کبھی ہم نے انہیں خواتین تو کیا مرد حضرات سے بھی نظریں ملا کر بات کرتے نہیں دیکھا۔ آرٹس فیکلٹی اور آرٹس لابی کے ماحول سے تو ہر وہ شخص واقف ہے جو کبھی نہ کبھی جامعہ کراچی جاچکاہو۔ مگر ایسے ماحول میں بھی محمود بھائی کی نظریں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ محمود بھائی میں شرم وحیا کسی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ تھی۔ تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بات میں کسی لفاظی یا شاعری یا افسانوی طور پر نہی کہہ رہا بلکہ حقیقتاً ایسا ہی تھا اور میری اس بات کی گواہی وہ تمام لوگ دیں گے جو اس وقت جامعہ کراچی میں ہوتے تھے اور محمود بھائی سے واقف تھے۔
ان کا چہرہ ہمیشہ پر سکون رہتا تھا چاہے حالات کتنے ہی خطرناک اور گھمبیر کیوں نہ ہوں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ حالات خراب ہوگئے کیونکہ بھٹو کا دور تھا۔ اور حکومت اور جمیعت میں کئی مسائل پر ٹھنی ہوئی تھی۔ مثلاً جب شفیع نقی جامعی کو جمیعت نے صدارتی امیدوار بنایا تو بھٹو حکومت کو بہت پریشانی لاحق ہوگئی کہ ایک طرف جمیعت جیسی طلبہ تنظیم اور دوسری طرف شفیع نقی جامعی جیسا شعلہ بیان لیڈر۔ غرض حکومت نے شیخ الجامعہ جناب ڈاکٹر محمود حسین مرحوم (جو کہ شفیع نقی جامعی کو اپنا منہ بولا بیٹا مانتے تھے) پر دباو ڈال کر جامعہ کے اعلان شدہ الیکشن کو محض تین دن پہلے ملتوی کرادیا۔
جس کے نتیجہ میں حالات بہت خراب ہوگئے۔ طلباء جو کہ الیکشن مہم شروع کرچکے تھے اور بہت متحرک تھے۔ اس صورت حال میں سخت مشتعل ہوگئے۔ ہم سب بھی سخت پریشانی اور آزمائش کی حالت میں تھے۔ مگر محمود بھائی عزم و ہمت کا پہاڑ تھے۔ چہرہ انتہائی پر سکون جسے دیکھ کر ہم سب بھی پر اعتماد ہوگئے۔ اور پھر ایک رات محمود بھائی ہم سب کو لیکر شفیع نقی جامعی کے ساتھ جامعہ کی بسوں میں بھر کر سوسائٹی میں شیخ الجامعہ کے گھر پہنچ گئے اور ساری رات ان کو قائل کرنے میں گزار دی اور بالاخر چند روز بعد ہی الیکشن کے انعقاد کا پروانہ لیکر آگئے۔
وہ رات ایک بہت ہی یادگار رات تھی جو لوگ بھی اس موقع پر موجود تھے وہ کبھی بھی اس رات کو بھلا نہیں پائیں گے۔ جب شفیع نقی جامعی جیسا لیڈر شیخ الجامہ کے قدموں میں بیٹھا تھا اور ایک طرف منہ بولے بیٹے کے منہ سے پھول جھڑرہے تھے اور دوسری طرف منہ بولا باپ صبر و برداشت کا پیکر بنا شیخ الجامعہ کا منصب نبھارہا تھا۔ کاش کہ وہ زمانہ موبائل کا زمانہ ہوتا اور ہم نے اس لمحے کو دوسروں کیلیے محفوظ کرلیا ہوتا۔ شفیع بھائی کے انتہائی جذباتی اور مسحور کن مکالمے جس نے سب کو اشک بار کردیا تھا مگر دوسری طرف شیخ ا لجامعہ کا انتہائی بلند و بالا کردار اور صبر و برداشت کا پیکر۔ جیسے برف کی سل۔ میں تو اسی رات دونوں باپ بیٹوں کی عظمت کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ اور محمود بھائی کی حکمت عملی بھی لاجواب تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
میں نے ایک لمبا عرصہ ان کے نائب کی حیثیت سے گزارا تھا۔ بلکہ جب ان کو جامعہ کے الیکشن میں جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اس پینل میں کھڑا کیا گیا جس میں صدارت کیلیے بھائی قیصر خان اور جوائنٹ سیکریٹری کیلیے بھائی مخدوم علی خان کو نامزد کیا گیا تھا۔ تو جامعہ کراچی کی نظامت کی زمہ داری اس خاکسار پر آگئی۔ جو ایک لمبے عرصے بعد شکست کا داغ بھی اپنے ساتھ لائی۔ گو کہ اس سال جمیعت الیکشن ہار گئی مگر آئندہ سال محمود بھائی جیت گئے اور صدر انجمن طلبہ جامعہ کراچی منتخب ہوئے۔ محمود بھائی میں انتظامی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی جس میں سے کچھ حصہ ہم لوگوں کو بھی ملا۔
افراد سے معاملہ کرنا۔ ان کی نفسیات اور مزاج کے مطابق سلوک کرنا۔ ہر ایک کو اہمیت دینا اور اس کی عزت نفس کا خیال رکھنا۔ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لینا۔ بہترین منصوبہ بندی کرنا۔ اوقات کار کا بہترین استعمال کرنا۔ کارکنان کے مسائل سے نہ صرف واقفیت رکھتے تھے بلکہ اس حوالے سے حتی لا مکان مد د بھی کرتے تھے۔ اجتماعات میں وقت کی پابندی اور تنظیم کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی ڈائری ” لیل و نہار ” ہمیشہ ساتھ رکھتے اور ضروری نوٹس لکھتے رہتے تھے۔
طور طریقوں اور بود و باش میں بھی بہت ہی سادہ طبیعت پائی تھی۔ کھانے پینے کے معاملے میں بھی انکسار سے کام لیتے تھے اور دوسروں کو موقع دیتے تھے۔ عین عالم جوانی بلکہ نوجوانی میں بھی فرشتوں والی خصلت اور کردار کے حامل تھے۔ ہم ذاتی طور پر ان سے بہت متاثر تھے۔ حقیقتاً وہ ایک مثالی شخص تھے۔ گو ہم بھی ان کے ساتھ رکن جمیعت تھے لیکن سچی بات ہے کہ کردار و اخلاق میں ہم ان کے سامنے اپنے آپ کو بونا سمجھتے تھے۔ آج بھی کار کنان جمیعت اور ناظمین جمیعت کیلیے ان کے کردار و عمل میں سیکھنے کی بہت گنجائش ہے۔
مجھے نہ صرف آج تک یاد ہے بلکہ ان کی ہدیہ کی ہوئی ڈائری ” لیل و نہار ” آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جس پر انہوں نے لکھاتھا۔
” بھائ ظفر عالم طلعت کیلیے ہدیہ خلوص و محبت اور آخرت میں سرخروئی کی دعاوں کے ساتھ۔ “۔
اس سے اچھا آٹو گراف۔ اور بہت ہی خوبصورت اور بامعنی الفاظ۔ میں نے آج تک نہی دیکھے جو محبت و خلوص کی چاشنی کے ساتھ ساتھ حقیقی کامیابی کی دعا بھی دے رہے ہوں۔ اس کے بعد ہم نے بھی عادت بنا لی کہ جب بھی کوئی ہدیہ کسی کو دیا تو یہی خوبصورت الفاظ استعمال کئے۔
انجمن طلبہ کے الیکشن میں جمیعت کے ہارنے کے بعد جامعہ کراچی کا اسپیکر کا الیکشن جو کہ میں نے قیصر بنگالی والا سے کافی فرق سے جیتا تھا اور جس نے جمیعت کی ہار کے زخم کو کافی حد تک مندمل کردیا تھا۔ اور یہ الیکشن چونکہ رمضان کے مہینے میں منعقد ہوا تھا جس کی وجہ سے حالت روزہ میں الیکشن مہم چلانی پڑی تھی اور میں الیکشن کے بعد سخت بیمار ہوگیا تھا اور بقائی اسپتال میں داخل تھا۔ اس موقع پر محمود بھائی نے نہ صرف میری عیادت کی بلکہ دل جوئی بھی کی اور افسانوں کی ایک بہت ہی خوبصورت کتاب ” چاند کا سلام ” مجھے ہدیہ کی جو آج بھی میری ذاتی لائبریری کی زینت ہے۔ اس کتاب کا انتخاب بھی خوب تھا اور محمود بھائی کے اعلٰی ذوق کی دلیل۔ اسے پڑھ کر نہ صرف طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی تھی۔ بلکہ ایک شگفتگی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور بیماری میں کمی کا احساس ہوتا تھا۔
بعد اذاں 1977 کے قومی الیکشن میں محمود بھائی بھی امیدوار تھے اور اپنی الیکشن مہم کامیابی سے چلاتے رہے۔ ہم بھی اس مہم میں بہت متحرک رہے اور بعد میں چلنے والی قومی اتحاد کی تحریک میں بھی حصہ لیتے رہےمگرضیاءالحق کے مارشل لاء نے ساری بساط ہی لپیٹ دی۔
اب چونکہ تعلیم مکمل ہوچکی تھی اور جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل بھی ہوچکے تھے لہٰذا ہم اور محمود بھائی اپنے اپنے گھریلو معاملات اور نان نفقہ کے مسائل میں الجھ گئے اور کافی لمبے عرصے تک رابطہ نہ ہوسکا۔ کراچی جیسے مشینی اور مصروف شہر میں ہم دونوں کولھو کے بیل کی طرح اپنے اپنے دائروں میں گردش کرتے رہے۔
۔۔۔ ہے دل کیلیے موت مشینوں کی حکومت
۔۔۔ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اور ایک بہت ہی طویل عرصہ بیت گیا کہ ہم دونوں کی نہ تو ملاقات ہوئی اور نہ ہی کوئی رابطہ ہوا۔ مگر بہت عرصہ پہلے ایک مرتبہ جب محمود بھائی کی یاد بہت ستانے لگی تو ہم نے ان سے ملنے کا ارادہ کیا مگر افسوس کہ معلوم ہوا کہ محمود بھائی صاحب فراش ہیں۔ اور اہل خانہ کی طرف سے ملاقات پر پابندی ہے۔ نہ معلوم کس نوعیت کی بیماری تھی۔ بہرحال دل مسوس کر رہ گیا اور ہاتھ بے اختیار دعا کیلیے اٹھ گئے۔ اب جب کہ اس بات کو بھی برسوں بیت چکے ہیں تو سوائے دعا کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ اللہ محمود بھائی پر اپنا خصوصی رحم وکرم فرمائے۔ شفائے کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب کرے۔ اور اہل خانہ کو اس آزمائش میں سرخ رو کرے۔ اور ہمیں دوبارہ محمود بھائی سے ملاقات نصیب کرے۔ آمین ثمہ آمین