سنت ابراہیمی کی تشکیل و تعبیر نو اور قربانی کے تقاضے 21ویں صدی میں کیا ہیں یہ لمحہ موجود کا زندہ سوال ہے
قرآن مجید میں باری تعالٰی نے بطور الہامی اصول یہ فارمولا و کلیہ بیان فرمایا ہے ,, کہ پس ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔،،اگر ہم تاریخ کا تجزیہ کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گفتگو سنیں جس میں ایک باپ اپنے پیارے بیٹے کو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے اپنا خواب سناتا ہے اور کہتا ہے کہ بیٹا کیا دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں ۔تو بیٹا جواب دیتا ہے کہ جو کچھ آپ نے دیکھا اسے کر گزرئیے جو آپ کو الہامی حکم ہوتا ہے۔یہ تمام خوبصورت و معنی خیز تفصیلات اور واقعہ سورۃ الصافات کی آیت نمبر 99 سے لے کر آیت نمبر 111 میں قرآن پاک میں آج بھی موجود ہے۔
جس کاترجمہ ہے:” اے میرے رب!! مجھے اولاد صالح عطاء فرما! تو ہم نے اسے ایک بردبار فرزند کی بشارت دی پس جب وہ اسکے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا یا
پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچا کے اس کے ساتھ چلے پھرے تو کہا اے میرے بیٹے:میں نے خواب دیکھتا ہوں ک میں تجھے ذبح کررہا ہوں اب تو دیکھ تیرے کیا رائے ہے ۔کہا اے میرے باپ کیجیئے جس کا آپ کو حکم ہوتا ہے،خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ پس جب دونوں نے اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کردیا اور ابراھیم نے اس کو پیشانی کے بل پچھاڑ دی اور ہم نے اس کو آواز دی: اے ابراھیم!! بس تم نے خواب و امتحان کو سچ کر دکھایا! بے شک ہم خوب کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک یہ کھلا ہوا امتحان تھا۔ اور ہم نے اس کو ایک عظیم قربانی کے عوض چھڑالیا۔اور ہم نے اس (کی ملت) پر پچھلوں میں (ایک گروہ کو) چھوڑا۔ سلامتی ہو ابراھیم پر۔ اسی طرح ہم خوب کاروں کو صلہ دیتے ہیں بے شک وہ ہمارے باایمان بندوں میں سے تھا!!؛؛؛
یہ فیضان نظر تھا کہ
مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے
اسماعیل کو آداب فرزندی،،
کیا ہم اس مشکل نفسیاتی کیفیات کا اندازہ کر سکتے ہیں جو ایک باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے محسوس کی ہو گی؟نہیں آج کا انسان اس مشکل کو تب محسوس کرتا جب اسے بھی اپنی اولاد کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا ہوتا ۔لیکن کیا منظر ہے زمین اور آسمان ساکن ہیں فرشتے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں چشم زدن میں قدرت الہی حرکت میں آتی ہے اور بیٹے کی جگہ دنبہ قربان ہو جاتا ہے۔سبحان اللہ : رب تعالی کا خلیل حکم الہی کی تعمیل میں آنے والی ہر رکاوٹ کو روند ڈالتا ہے اس عظیم قربانی کا ثمر رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔لیکن یہ قربانی صرف ایک انسان کی نہیں تھی بلکہ انسانی جذبات کی بھی تھی جو انسان کو دنیا کی محبت میں مبتلا کر دیتے ہیں یہ قربانی اس نفس کی بھی تھی جو انسان کو بھٹکاتا رہتا ہے اور یہ قربانی ان تمام احساسات کی بھی تھی جو اللہ کے راستے میں حائل تھے۔آج 21 ویں صدی میں اس قربانی کی روح کو اپنے خاندان اپنے دوستوں اپنے ساتھ کام کرنے والوں اپنے ہمسائیوں اور معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ رہتے ہوئے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔خدارا عبادات کو معاملات سے الگ مت کریں۔ ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور انسانی ذہانت و قابلیت عبادات و معاملات کو الگ الگ شمار کرتے ہوئے تمام روحانی و اخلاقی فوائد حاصل کرنے کے بجائے ظاہری رسم و رواج کو ترجیح اول قرار دیتے ہیں جس کے باعث عبادات و اذکار اور دعائیں و دانش مندی غارت گری کا شکار ہو جاتی ہیں اور یوں دین کے بنیادی اصولوں و تصورات میں تغیر و تبدل شروع ہو جاتا ہے حالانکہ قرآن مجید کا ہر ورق معجزوں سے بھرا ہوا ہے۔اس کے تمام احکامات میں چھپی حکمت کے راز جاننے کے لیے انسان کو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔لیکن ان احکامات سے انحراف کرنے کی صورت میں نقصان انسانوں نے ہی اُٹھایا ہیں۔قربانی خاتمے کا عمل نہیں بلکہ عمل کا آغاز ہے۔ایک ایسا عمل جو انسانیت کے درد کو بانٹے کے ساتھ ساتھ اسے اخروی کامیابی کے لیے تیار کرتا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ جانوروں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے نفس پر گہری نظر رکھیں کیونکہ جب تک زندگی کی ڈور جڑی ہوئی ہے توبہ کا وقت کھلا ہے۔ انحراف اور بے مقصدیت سے روحانیت اور معنویت کا مبارک سفر شروع کیا جاسکتا ہے تو کیوں نہ اس عظیم الشان موقع کو غنیمت جان کر نصب العین طئے کرنے اور انسانی نفسانی خواہشات و جذبات کے بجائے تعمیری کام اور محنت و مشقت کی طرف گامزن ہو اور سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی شخصیت و کردار اور عملی زندگی میں اطمینان و سکون کے لئے فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو پر توجہ مرکوز رکھیں خدا ہمارا اور آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل