عورت مارچ ختم ہو گیا، اس کی بازگشت باقی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے مارچ سے زیادہ اس کی بازگشت طاقت ور ہے، زلزلے کی طرح جس کے آفٹر شاکس آئے چلے جاتے ہیں۔ اب میں سوچتا ہوں کہ کاش، اس مارچ میں خود ہی شرکت کی ہوتی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی تو ہو جاتا۔
مارچ کے تیسرے روز ایک وڈیو گردش کرتی ہوئی پہنچی ہے جس میں کچھ خواتین آزادی کے نعرے بلند کرتی دکھائی دیں۔ نعروں کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ، رسول، اقبال اور ملا اور ان کے سب ہم نوا سن لیں کہ ہم آزادی چاہتے ہیں اور یہ آزادی ان کا باپ بھی دے گا۔ بچوں سے ذکر ہوا تو کچھ دیر میں انھوں نے وہی وڈیو پیش کر دی جس میں آوازیں مختلف تھیں۔ اس کے نعرے بھی آزادی کے ہی تھے لیکن اس میں اللہ رسول کاذکر نہیں تھا اور نہ اللہ رسول کے ضمن میں وہ توہین آمیز انداز تھا جو پہلی وڈیو کی آوازوں میں سنائی دیا۔ دوسری وڈیو میں اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کو للکارا گیا تھا۔
عورت مارچ کے دن سڑک پر بچھایا گیا ایک بینر بھی نگاہ سے گزرا تھا جس کے الفاظ دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا دینے والے تھے۔ بینر کے مضمون میں لکھا تھا کہ میں نو سال کی تھی اور وہ پچاس برس کا، مجھے خاموش کرا دیا گیا اور اس کی آواز مسجدوں میں گونج رہی ہے۔ یہ بینر کس مظاہرے کا حصہ بنا، کون لایا، کچھ خبر نہیں۔ نہیں معلوم حقیقت کیا ہے۔ اگر یہ واقعی حقیقت ہے تو عورت مارچ والوں نے اپنے اور اپنی فکر کے ساتھ برا کیا، دین اور اہل کا کچھ نہیں بگڑا۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ وہ ہے جس میں عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین کے لیے نفرت اور استہزا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی بنیاد پر ان کے جسموں کو گندگی کا ڈھیر قرار دیا گیا اور فرمایا گیا کہ ان مرد و خواتین کو جو منھ کالا کرنا ہے، تنہائی میں جا کر لیں، یہ گندگی لے کر وہ ہمارے سامنے سڑکوں پر کیوں آ جاتے ہیں؟ اس طرح کا طرز تخاطب رکھنے والوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ دین کے داعی ہیں اور جس دین کی دعوت لے کر اٹھے ہیں، اسے لے کر پوری دنیا پر چھا جانا ان کی ذمے داری ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ دعوت دین کے علم بردار ہر ایک کو سینے سے لگاتے ہیں، نفرت کسی سے نہیں کرتے۔
واقعہ یہ ہے کہ عورت مارچ والوں کے جذبات، نعرے اور عزائم اگر ایک انتہا پر ہیں تو انھیں کوسنے دینے اور دین بیزار اور دین کا باغی قرار دینے والے دوسری انتہا پر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل دین اور آزادی کے متوالوں کے بیچ گھمسان کا رن پڑنے والا ہے اور کوئی ایسا نہیں جو اس بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال سکے۔