لمحہ موجود کی بہت سی خوبیوں اور اچھائیوں کے ساتھ ایک بڑی کمزروی اور نمایاں چبھتی ہوئی کمی عیاں ہے کہ 21 ویں صدی میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کے سائے تلے نمایاں اور امتیازی رشتے و اہم ترین کردار و کام بھی پس منظر میں چلے جاتے ہیں یوں اقوام عالم نے اقوام متحدہ کے ذریعے دن منانے کی روایت ڈال دی گئی یعنی ماں اور استاد کی عظمت و رفعت کا بھی سال میں ایک دن منایا جاتا ہے اس طرح 8 مارچ کو یوم خواتین منایا جاتا ہے خواتین کی عظمت و ترقی اور خاندان کے استحکام کے لئے حکمت قرآنی ، شعور نبوت اور اقوام متحدہ کے دیرپا ترقیاتی مقاصدsustainable development Goals کے تناظر میں مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے تحت قائم شدہ وویمن ایمپاورمنٹ کونسل اور وویمن اینڈ فیملی کمیشن بلوچستان کے زیر اہتمام ‘آوازہ’ ویب سائٹ اسلام آباد اورFeel world wide usa کے معاونت سے انٹرنیشنل ڈائیلاگ و سیمنار کا انعقاد لائیو پیش کیا گیا جس میں برطانیہ سے خواتین ایجوکیشن کے لئے مایہ ناز نامور نام ملالہ یوسف زئی صاحبہ کے والد جناب ضیاء الدین یوسفزئی صاحب،کراچی سے انتہائی اہم اور معتبر نمائندگی کرتے ہوئے خاتون سکالر و سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین ونگ محترمہ دردانہ صدیقی صاحبہ،کابل افغانستان سے فہمیدہ دانشورہ محترمہ پروفیسر ساجدہ عبدالباقی صاحبہ،کوئٹہ الحمد اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عروہ جاوید، لاہور سے ،پنجاب یونیورسٹی کے جینڈر اسٹڈیز کے فوکل پرسن و ھائیر ایجوکیشن کمیشن کے پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ پروین صاحبہ اور سابق ممبر صوبائی اسمبلی محترمہ ثمینہ سعید صاحبہ،حقوق انسانی کمیشن کی فوکل پرسن محترمہ قمر النساء ایڈووکیٹ صاحبہ،شھید بازمحمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر لعل خان کاکڑ صاحب، مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ اور لاء کالج کوئٹہ سے محترمہ صائمہ جمالی صاحبہ آن لائن شریک محفل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں منفی اثرات و رحجانات کو محدود اور ختم کرنے کے لئے مخصوص اور جامد مائنڈ سیٹ کو کھل کر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے عملی اقدامات اور ذہنی یکسوئی کے بغیر ٹیکنالوجی بیس ورلڈ میں ترقی و پیشرفت کا سفر شروع کرنا ممکن نہیں ہے اسلامی طرز زندگی اور تصورات حکمت قرآنی و شعور نبوت نے محسن نسوانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و دانش انسانی و حقوق انسانی کے چارٹر کی روشنی میں عملی زندگیوں اور ریاست و نظام زندگی و سماجیات کا پیوست حصہ بننے کی صلاحیت و استعداد پیدا کرتے ہوئے ترقی و رفعت کا سفر طئے کرنا ہے سوشل میڈیا و ٹیکنالوجی نے بچیوں اور خواتین کے لئے بے پناہ مشکلات و احساسات کی ترجمانی کرنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے جسے اب مثبت و ثمر بار بنانے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کی دنیا میں پانی کی لہروں کی طرح انسان اور خاص کر نوجوان اپنے لئے راستے خود تجویز کرتے ہیں خواتین و نوجوانوں کو معنوی اور مادی ترقی و افادیت کے راستے معاشرے و سماجیات میں ہموار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات میں اقدار و روایات اور عقیدہ و نظریات کی پاسداری ممکن نہیں ہیں مادی ترقی کی رفتار سے بڑھ کر کائناتی فطرت و سنت کے مطابق ذہنی ترقی اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو نے مقام ومرتبہ حاصل کرلیا ہے جس کے باعث خواتین اور بچیوں کے متعلق والدین اور معاشرے کی محدود و کمزور نکتہ نظر اور قبائلی و دیہی پس منظر کی تشریحات قابل قبول نہیں ہیں قرآن کریم کی پکار اور پہلی آیت مبارکہ ہی اقراء سے ہوتی ہے یعنی سننے، پڑھنے،سمجھنے، اخذ کرنے اور عمل و تعمیر معاشرہ کے لئے ضابطے و قانون کی پاسداری و شعور کی پختگی مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر ضروری اور بنیادی حقوق و فرائض میں شامل ہیں بچیوں کی پیدائش پر خوشی محسوس کرنے اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی عورتوں کے معاشرتی ترقی و خوشحالی کے لئے بنیادی کردار ادا کیا تھا آج پہلی صدی ہجری کی طرح دوبارہ جدید جاہلانہ نظریات و رجحانات اور جدیدیت کی آڑ میں مردانہ قبائلی عینک و فکری الجھاؤ نے دوبارہ عورتوں کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ کر رکھا ہے عصری تقاضوں اور مادی ترقی کے باوجود خواتین قدامت اور جدیدیت کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں مغربی چکا چوند نے عورت کی شائستگی اور مقصدیت کو محدود اور مسخ کر چکے ہیں اور مشرق میں علم و ترقی کے جامد مائنڈ سیٹ نے خواتین کی عظمت و رفعت تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا کی ہیں معاشرتی ترقی اور سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے روئیے و عملی بنیادوں پر تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش کی کاوشیں قابل قبول ہو سکیں اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔
آن لائن انٹرنیشنل ڈائیلاگ و سیمنار میں عملی اقدامات کے طور پر تجاویز و سفارشات میں کہا گیا کہ کائناتی افق پر نمودار ہونے والی تبدیلیاں حقائق اور الہامی راہنمائی و دانش انسانی پر شعور نبوت اور نائب حق پر اعتماد و بھروسہ قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے تبدیلی و ترقی فطری و آفاقی منشور کا حصہ ہے مسلمان معاشروں کو نرگسیت اور خوف سے باہر نکل کر نئی جہتیں تلاش کرنی ہونگی معاملات زندگی اور ٹیکنالوجی بیس گلوبل ولیج میں امن و سکون اور عدل و یکسوئی کے لئے اجتہادات و فکری مکالمے کی گنجائش باقی ہیں قید مذہبی اور سیاسی و سماجی جمود کی آڑ میں پدر شاہی اب انسانی دانش اور جستجو و تحقیقی انداز میں قبول نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے حکمت قرآنی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں اقوام متحدہ کے دیرپا ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لئے اصول مذہبی اور حکمت قرآنی کی تعبیر نو و تعمیر جہاں کے لئے فرد،خاندان ،معاشرہ اور ریاست کے فریم ورک کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی نظریات کی بنیاد پر ایجنڈا و تفصیلات طئے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی خدمت و محنت اور لگن و کوششوں سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔