سینیٹ الیکشن کے نتیجے میں وہ ہو گیا جس کے ہونے کی خبریں دی جا رہی تھیں۔ سید یوسف رضا گیلانی جیت گئے اور عمران خان کی قیادت میں حکمراں اتحاد کو شکست ہو گئی۔
نتائج آنے سے قبل اگر کسی اپ سیٹ کی توقع کسی کو رہی ہوگی تو وہ خیبر پختونخوا سے تھی جہاں پولنگ کا وقت ختم ہونے تک کم از کم پچیس ارکان ایوان میں نہ تھے۔ پھر نہ جانے کیا کرشمہ ہوا کہ وہ سارے ارکان ایوان میں داخل بھی ہوگئے اور وہ اس محدود وقت میں ووٹ بھی دینے میں بھی کامیاب ہو گئے، اس سے قبل جن کے بارے بتایا جارہا تھا کہ ان کے لیے یہ ووٹ ڈالنا مشکل ہو رہا ہے۔
ایک بار پھر سینیٹر منتخب ہونے کے بعد شبلی فراز نے کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو اس کے ارکان سے بھی زیادہ ووٹ ملے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام عمران خان اور ان کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس سے غیر شفاف انتخابی نظام کے بارے میں عمران خان کے خدشات ثابت ہو گئے۔
تحریک انصاف کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی کامیابی کو ہمیشہ حق سچ اور غیر کی کامیابی کو بد عنوانی قرار دیتی ہے۔ ہمارے خیال میں قومی اسمبلی میں عمران خان کی شکست اسی انداز فکر کے ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ زیادہ آسان الفاظ میں دوہرے معیارات نے عمران خان کی قیادت اور ان کے سیاسی چہرے کو سب سے زیادہ داغ دار کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس شکست کے بعد ملک کا سیاسی منظر کیا ہوگا؟ عمران خان ماضی میں برطانوی جمہوریت کی بڑی مثالیں دیا کرتے تھے اور اس قسم کے واقعات پرحکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبے کیا کرتے تھے، کیا اس صدمے کے بعد وہ ایسا کریں گے؟ ان کی گزشتہ ڈھائی برس کی حکومت اور سیاست کاسبق تو یہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سیاسی صدمے کے ذریعے انھیں یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ سیاست میں انھوں نے جو سکہ چلانے کی کوشش کی ہے، وہ رائج الوقت نہیں۔ وہ اپنا سکہ بدلیں ورنہ مستقبل اچھا نہیں۔
دوسری بات پی ٹی آئی کے اس وقت تک سامنے آنے والے ردعمل کی ہے کہ شکست تسلیم کرنے کے بجائے تیکنیکی اور قانونی طریقوں سے گیلانی صاحب کی کامیابی کو ناکامی سے بدل دیا جائے۔ اس قسم کی لڑائی میں پی ٹی آئی اگر جیت بھی گئی تو اس کی حکومت اسی قسم کی ہوگی جیسی پانامہ س میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ کی حکومت کی تھی۔ یعنی حکومت تو ہوگی لیکن اختیار اس کے باس نہیں ہوگا۔ عمران کس قسم کا مستقبل چاہتے ہیں، یہ فیصلہ اب ان ہی کو کرنا ہے۔