نوازشریف،مولانافضل الرحمان،چودھری شجاعت اور کئی جوڑتوڑکے ماہرسیاستدان ایک بارپھر مان گئے، آصف علی زرداری کی سیاسی چال کوئی نہیں سمجھ پاتا،اب اسےجمہوریت کی فتح کہیں،پیسےکی چمک کہیں، جوڑتوڑ کانام لیں، اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوئے۔
جہاں وزیراعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف والے شکست کے غصے اورغم سے دوچارہیں، آج شاید مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت بھی سوچ بچارمیں مبتلا ہوگئی ہو، آخر بلاول بھٹوکیوں اس بات پر اصرارکرتے رہے کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائیں گے، جواب میں تمام پی ڈی ایم کے لیڈراسے پیپلزپارٹی کی سوچ قراردیتے رہے بلکہ مسلم لیگ نون کا کہنا تھا ہمیں اکثریت دکھائیں پھراس کی حمایت کریں گے۔ اسلام آبادکی جنرل نشست پر یوسف رضاگیلانی کی جیت نے انہیں یہ دکھادیا۔
ایک شخصیت امید اور پورے یقین سے دعویٰ کرتی رہی کہ گیلانی کی جیت ہوگی، جس پر سابق وزیراعظم بھی ہوسکتاہے گومگوکاشکاررہے ہوں۔ مگر آصف زرداری کی مکمل تھی تیاری،اس لئے نہ صرف سب کچھ بھول بھال،نہ دیکھی بیماری ،وہ پہنچ گئے،ووٹ ڈالنے اسمبلی۔
معلوم نہیں کہناچاہیے، لیکن بلاول نے ٹویٹ کردیا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے،جئے بھٹو۔
زرداری نے صرف ٹائمنگ دیکھی، حکومت میں موجود ناراض لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھا، اور اپنا کام شروع کردیا،یہ چند دنوں کی کارروائی نہیں تھی۔ اس پرخاموشی سے آہستہ آہستہ کام ہورہا تھا، کیا سابق صدر اپنے ایک اہم رہنما کو سندھ سے کامیاب نہیں کراسکتے تھے، بڑی آسانی سے ایسا ممکن تھا۔ حکومتی وزیراور ایسی شخصیت جس کاتاثراداروں سے بھی اوپر سمجھاجاتاہے۔ جس کی شکست شاید گمان میں بھی نہ تھی۔
پی ڈی ایم والے لانگ مارچ کریں گے، دھرنا دیں گے یاپھران کی نگاہیں اب عدم اعتماد پر لگی ہیں۔ بلاول محض ہوا میں تیر نہیں چلارہے تھے، کچھ تو تھا، جسے آج سیاسی منظرنامے پر سب نے دیکھ لیا۔
حکومت کےلئے لمحہ فکریہ اب تکلیف دہ صورت اختیارکرسکتاہے، وزیراعظم بھی زرداری کی چال پر گھوم گئے، انہیں فیصلہ کرناہوگا کہ اپنے اور اتحادی ارکان کااعتماد حاصل کریں۔
حکومت نے الیکشن کمیشن پر سوالات کھڑے کردیئے،جن نشستوں پر جیت ملی،وہ ٹھیک رہی، لیکن جہاں ہارگئے وہاں دال کالی تھی۔ کیا عمران خان یہ جاننے کی کوشش کرینگے کہ ووٹ ادھر اُدھر کیسے ہوئے،حتیٰ کہ ساری نگرانی کےباوجود ووٹ کیسے منسوخ ہوگئے۔ اب حکومت پیپلزپارٹی کی سیاست پر انگلی اٹھانے لگی۔ مخالفین کو جمہوریت کادرس دے رہی ہے۔
آصف زرداری نے وزیراعظم کو فیصلہ کرنے پر مجبورکردیا کہ وہ اعتمادکاووٹ لیں۔ ایک کامیاب اپوزیشن لیڈر یہی کرسکتا ہے کہ حکومت کو جھکنے پرمجبور کردے۔