این ڈی یو سے ایک حوصلہ افزا خبر آئی ہے، ملک اس وقت جس قسم کے بحرانوں سے دوچار ہے، ان سے نمٹنے کے لیے فوج کی طرف سے وسیع تر قومی مکالمے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
ممتاز صحافی رؤف کلاسرا کے مطابق یہ تجویز پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید صاحب کی طرف سے سامنے آئی ہے۔
موجودہ حالات میں یہ ایک دھماکہ خیز تجویز ہے۔ قومی زندگی میں اہمیت رکھنے والے مختلف طبقات کے درمیان ان دنوں جو فاصلہ دکھائی دیتا ہے اور ان ہی دوریوں کی وجہ سے ماضی قریب میں جس قسم کے بیانات اور جوابی بیانات سامنے آئے تھے، اس پس منظر میں اس قسم کی تجویز دور اذکار محسوس ہوتی تھی لیکن اب مسلح افواج کی ایک ذمہ دار شخصیت کی طرف سے ایسی تجویز سامنے آئی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔
قومی امور کے بارے میں فکر مندی رکھنے والوں کی توجہ کئی جانب مبذول کراتی ہے۔ پہلی یہ کہ حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے درمیان جس ہم آہنگی کا ذکر تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے، وہ محض ایک تصور ہے، زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض وزرا کی طرف سے حزب اختلاف کے جس حصے یعنی نواز لیگ وغیرہ کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یوں سمجھئے کہ وہ اپنا پاسپورٹ پھاڑ چکے، یہ بھی محض پروپیگنڈا تھا۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ نواز شریف کی طرف سے کچھ عرصہ قبل جس ٹروتھ اور ری کنسیلی ایشن کمیشن کی بات کہی گئی اور ان کی صاحبزادی کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کا عندیہ دیا گیا، یہ تجویز بظاہر ان ہی تجاویز کا جواب محسوس ہوتی ہے۔
اس معاملے کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور اس کے اسٹیک ہولڈرز موجودہ حالات کی سنگینی کو نہ صرف محسوس کر رہے ہیں بلکہ ان مسائل کے حل کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں۔
قومی منظر نامے پر یہ پیش رفت حوصلہ افزا ہے جس کا خیر مقدم بھی کرنا چاہئے اور اس کی کامیابی کے لیے دعا بھی کرنی چاہئے۔
گزشتہ روز حکومت کے سربراہ عمران خان نے بھی انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے حزب اختلاف کے تعاون کے حصول کی بات کی ہے۔ ایوان میں حزب مخالف کے اراکین سے مصافحے جیسی معاشرتی رسم کے انکاری حکومت کے سربراہ کی طرف سے حزب اختلاف کی جانب ایسی نرمی بدلے ہوئے حالات کی خبر دیتی ہے۔
عمران خان اور جنرل فیض حمید کی طرف سے ملنے والے یہ اشارے یقیناً مثبت ہیں لیکن یہ بہت ابتدائی باتیں ہیں۔ ریاستی ذمے داران جس انداز میں سوچنے لگے ہیں، قوم توقع کرتی ہے کہ اس مبارک خیال کو حقیقت میں بدلنے میں تاخیر سے کام نہیں لیا جائے گا اور گروہی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جائے گی۔