گردن زدنی اچکزئی کے خلاف ایک اور فرد جرم آگئی ہے۔ غدار تو انھیں پہلے بھی قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن کوئٹہ کے جلسے کے بعد اس کار خیر میں مزید تیزی آگئی ہے۔
محمود خان اچکزئی کی تقریر کے اس حصے پر اعتراض ہے کہ انھوں نے یہ کیوں کہا کہ پاک افغان سرحد سے باڑھ اکھاڑ پھینکی جائے گی کیوں کہ وہ بغیر پاسپورٹ کے افغانستان جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے یہ جملے جرم بن گئے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم تو انھیں آئین پسند سمجھتے تھے، یہ شخص تو قانون شکن نکلا، ایسا دھمکی آمیز لہجہ تو کم پڑھے لکھے سیاسی کارکنوں کا ہوتا ہے۔ اتنی بات کہہ کر بین السطور کہہ دیا گیا کہ پھر نکلا نا غدار۔
اچکزئی صاحب نے باڑھ اور پاسپورٹ کے بارے میں جو بات کہی ہے، اگر کوئی اس پر تنقید کرنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے لیکن کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی کے موقف کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنی مرضی کے معنی کے پہنائے۔ اگر ان کی اس بات کو نظر انداز کر دیا جائے گا کہ دونوں طرف بسنے والوں کا خون ایک ہے، یعنی ان کے درمیان رشتے ناطے ہیں اور صدیوں سے ان کی آمد رفت ایسے ہی ہے جو وہ اب بھی اسی طرح برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو سارا تناظر ہی بدل جائے گا۔ اچکزئی صاحب کے ساتھ یہی کیا جا رہا ہے۔
ابھی گلبدین حکمت یار نے تجویز پیش کی ہے کہ دونوں ملک یوروپی یونین کی طرز پر نظام قائم کریں۔ اس کا مطلب ہے کہ آنا جانا آسان ہو اور کاروبار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ یہی بات اچکزئی صاحب بھی اپنے انداز میں کہہ رہے ہیں تو اس میں ہرج کی کیا بات ہے؟
اس لیے ہماری گزارش ہے کہ لوگوں کی نیت پر شک نہ کریں، بات کو الجھائیں مت۔ اگر کچھ تاریخی اور روائتی حقائق آپ کی سمجھ میں نہیں آتے تو ان پر رائے زنی کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے بجائے ان حقائق کو سمجھ لیں۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا خطرناک پیشہ ہے، اس سے ملنے والا منافع بعض اوقات اصل زر کو بھی کھا جاتا ہے۔