اسامہ عبدالحمید بنیادی طور پر ریسرچ اسکالر ہیں۔ پاک بھارت معاملات اور خاص طور پر بھارت کی انتہا پسندی کی تحریکوں پر ان کی نظر بہت گہری ہے۔ قارئین “آوازہ” ان کے تحریروں سے اکثر فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے رویے اور اس کے انتہا پسند حلقوں کی جانب سے اکثر و بیشتر اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ ولم کی شان میں جو دریدہ دہنی کی جاتی ہے، اسامہ عبد الحمید کی ایسے واقعات پر بھی گہری نگاہ ہے۔ حال ہی میں فرانس کے صدر ایما نویل میک خواں کی طرف سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں آزادی اظہار کی آڑ میں حمایت سامنے آئی تو اس نوجوان محقق کا دل بھی تڑپ اٹھا اور انھوں نے نظم کے پیرائے یہ چند اشعار کہہ دیے۔ ایک جذبہ بے اختیار کے تحت کہے جانے والے ان اشعار میں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال علیہ رحمۃ کی روایت کے مطابق ماجرائے دل بھی ہے، اپنے عہد کے مسائل کا ذکر بھی ہے، توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مسلمان کے دل سے اٹھنے والی زخمی پکار بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے محبت کا اظہار بھی ہے۔
٭٭٭
محبوبِ دو عالم کی حرمت پر دھول اڑائی مغرب نے
یوں عزت ہاتھ سے اپنے آپ گنوائی مغرب نے
افرنگ کی ریت پرانی ہے، یہ تازہ کوئی جرم نہیں
ہر دور میں ایسی حرکت پر ہے منہ کی کھائی مغرب نے
مان لیا خاشاک سے بڑھ کر اپنی قیمت کچھ بھی نہیں ہے
یہ غافل امت اٹھ جو گئی، دینی ہے دہائی مغرب نے
ہے قدرت کا قانون یہی، ہے چاند پہ تھوکا منہ پہ گرا
اب آپ خدا ہی نبٹے گا، جو بھد ہے اڑائی مغرب نے
اے حوض کوثر کے ساقی، شرمندہ ہیں، مجبور ہیں ہم
ہم اس کی تپش سے لڑ نہ سکے جو آگ لگائی مغرب نے