احقر ہمیشہ سے جناب محمود خان اچکزئی کا مداح رہا ہے ۔ محترم نے اپنے عظیم المرتبت والد سے نام اور چادر کے علاوہ کچھ نہیں لیا ، جو کچھ بھی بنایا اپنی محنت سے بنایا ۔
ایک مکمل سیلف میڈ شخصیت ۔ ہمارے یہاں کا چلن ہے کی جب کوئی معاشرے میں مقام حاصل کر لے تو اعزا و اقربا کو فراموش کر دیتا ہے مگر ہمارے مخدومی صلہ رحمی کے جذبہ سے ایسے سرشار کہ خاندان کے کسی فرد کو بے روزگار نہیں رہنے دیا ۔
رشتوں کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل ایک سازش کے تحت محترم کو مطعون کرنے کی خاطر ایک سرکاری وردی پوش نے ان کے ایک عزیز کی گاڑی کے سامنے زبردستی آکر جان دی تو اس تمام عرصہ میں آپ کمال ثابت قدمی سے اپنے عزیز کے ساتھ کھڑے رہے ۔ رشتوں سے محبت کا یہ فقید المثال جذبہ ہے جو اچکزئی صاحب کی تقریر کے پیچھے کارفرما نظر آتا ہے اور وہ رشتوں کے درمیان کسی سرحد کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے ۔
کوئٹہ تقریر نے ایک اہم نکتہ تعلیم کیا کہ تمام عظیم دماغ ایک طرح سوچتے ہیں ۔ جو کچھ اچکزئی صاحب نے مغربی سرحد بابت فرمایا ، اس سے ملتا جلتا مضمون ہمارے عظیم مدبر جناب میاں محمد نواز شریف مشرقی سرحد بارے میں فرما گئے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ سرحد تو بس ایک دیوار ہے وگرنہ دونوں طرف ایک سے انسان رہتے ہیں جن کے درمیان برسوں پر محیط دیرینہ رشتے ہیں ۔ تقابلی جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سرحدیں صرف اور صرف ایک جماعت مسلم لیگ کی غیر ضروری مہم جوئی سے وجود میں آگئیں ورنہ خطہ کے باسی باہم بھائی چارے کے ساتھ پر امن زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ۔ اب جبکہ بہت سی غلطیوں کا ادراک ہوچکا ہے اور غور وخوص کے لیے ،PDM جسا معتبر منہج دستیاب ہے تو کیوں نا اس سے فائدہ اٹھا کر ماضی کی اغلاط سے نجات حاصل کی جائے ۔