ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی پاکستانی معاشرے میں کس طرح پسند کیا گیا اور لوگوں نے اس ڈرامے می پیش کیے گئے ماحول، اس عہد کے داخلی سیاسی اور بین الاقوامی حالات سے کس طرح مماثلتیں ڈھونڈیں، اس کی مثالیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کی ایک خوب صورت مثال شادی بیاہ کے موقع پر کائی قبیلے کے رقص کے مناظر کی صورت میں سامنے آئے۔ بعض دل والوں نے ارطغرل کے نام سے اپنے کاروبار جمائے اور کچھ لوگوں نے کائی قبیلے کا طریقہ جنگ سکھانا شروع کردیا۔ اب حال ہی میں ہمارے دوست فاروق بھٹی صاحب کو کائی قبیلے کے جنگجو ترغت کا کلہاڑا تحفے میں مل گیا، یہ قیمتی تحفہ حاصل کرتے ہوئے انھوں نے اپنے جذبات قلم بند کیے ہیں، آپ بھی لطف اندوز ہوں۔
٭٭٭٭
ہمارے دوست ملک شفیق الرحمٰن ہارون آباد سے آئے، ان کے ساتھ ان کے دوست ٹھیکیدار محمد یوسف بھی تھے۔ باتوں باتوں میں ارطغرل غازی کے قصے چل پڑے۔ یوسف نے پوچھا آپ کو ڈرامہ میں کون کون سے کردار پسند آئے؟ عرض کیا کہ نویان ایک منفی کردار ضرور تھا لیکن اس کی ڈائیلاگ ڈلیوری اور آنکھیں بہت پسند ائیں۔ ترگت سے زیادہ اس کا کلہاڑا اچھا لگا۔
تب یوسف نے اپنے سیل فون پر ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک آرٹسٹ دوست نے مجھے یہ کلہاڑا گفٹ کیا ہے۔ میں عرض کی، “بڑے خوش بخت ہیں آپ”۔ چار دن بعد یوسف کا فون آیا جو اٹینڈ نہ کر سکا۔ ہارون آباد سے پیر بھائی ملک شفیق صاحب کا فون آیا کہ یوسف کا فون اٹینڈ کریں، اہم ہے۔
آج یوسف مع ترگت کے کلہاڑے کے تشریف لائے۔ کہنے لگے کہ آپ کی تعریف آگے پہنچائی تو ایک اور کلہاڑا آپ کے لئے آ گیا، چنانچہ پیش کرنے حاضر ہو گیا ہوں۔ اللہ اللہ ۔۔۔ مجھے آئیکس کے والد لوہار استاد دِلی دامیر یاد آ گئے جو ارطغرل کے ساتھ لوہا کوٹتے ہوئے “حق ہے اللہ، سچ ہے اللہ” کا ردھم چلاتے تھے اور انہوں نے ترگت کے ساتھ ساتھ ننھے بچوں کو کہانیاں سناتے سناتے مجاہد بنا دیا تھا۔ ہمارے یوسف بھی کا یہ تحفہ “چاہ یوسف” سے آنے والی صداوؑں پر ایک بلند آہنگ “لبیک” ہے۔