کتنی عجیب بات ہے یہ کہ وہ جو کئی کرداروں کی زندگی جیتا تھا، اچانک مر گیا۔
وہ اپنے کرداروں کو چھوتا تھا، یوں کہ وہ جی اٹھتے تھے۔ اس جی اٹھنے کا راز اس نے یہ بتایا تھا کہ وہ ان کی کھال میں گھس کر بیٹھ جایاکرتا تھا۔
یوں لگتا ہے اس نے بوڑھی عیار موت کو بھی جی اٹھنے والاکردار بنانا چاہاتھا، اپنی کہانی کا کردار اورابھی دن پوری طرح معدوم نہیں ہوا تھا کہ اس سیاہ چشم کے ڈھیلے ماس کے جھریوں بھرے جال میں گھس کروہ راستہ بھول گیا۔
اس نے عجب عجب کرداروں کی کہانیاں لکھی تھیں، ”تیرھواں کھمبا“ نامی محبت کی کسک کو جھیل جانے والی انجی کی کہانی،جو ایک تہذیبی رشتے کے تقدس میں بندھ کر دولخت ہو گئی تھی اورپیچھے کی سمت بھاگتے کھمبے گننے والے اس کے عاشق کی کہانی بھی،جس نے اپنی محبوبہ کو اپنے شوہر کے ساتھ دیکھا تھاتو اسے لگا تھا جیسے تیز رفتار ریل کار کا انجن اس کے اوپر سے گزر گیا ہواور اس کی بوٹیاں ہوا میں اڑ رہی ہوں۔ اپنے اندر کی گھٹن کے تعفن اور باسی پن سے بھاگ نکلنے والی”بند مٹھی میں جگنو“ کی اس شہری لڑکی کی کہانی، جس نے پہلی بار ننگی گالیاں سنی تھیں تو اس کے بدن سے چمٹی ہوئی جونکیں ایک ایک کرکے جھڑ گئی تھیں اور لچی لفنگی مشٹنڈی ہونے کے طعنے سننے اور سنانے والی پھپھے کٹنیوں سے پوشیدہ رکھے جانے والے انسانی اعضا کے ناموں کو فراوانی سے سنا تھا تو اپنے بدن میں باسی ہو جانے والی زندگی کو تازہ ہوتے اور ایک لذت کو پھوٹتے پایا تھا۔ میلہ دیکھنے آنے والے اس شخص کی کہانی جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ ”راستے بند ہیں“ جیسی اس انوکھی کہانی کا یہ عجب کردارلکھتے ہوئے اس نے اپنے اندر کی ساری لذت اس کے اندر اتاردی تھی حتی کہ ٹرک کے نیچے آکرکچلا جانے والا کوئی اور تھا مگر موت کی لذت اس کے اندر اتری جو خالی جیب میلا دیکھنے آیا تھا لہذا وہ مر گیاتھا۔
کچی پکی قبریں، پانی میں گھرا پانی، رکی ہوئی آوازیں، بوکا، تماشا، راتب،جیکوپچھے، بیک مرر، وقت سمندر، سارنگی، پولی تھین، نظر کا دھوکہ، پنج کلیان، سزا اور بڑھا دی، درخت آدمی، کٹم کاٹا۔
کٹم کاٹے کا کھیل چلتا رہا، وقت لمحہ لمحہ کرکے تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتا رہا اور وہ کرداروں کی لکیریں بناتا اور انھیں کاٹتا رہا۔
اس نے عجب عجب ذائقے لکھے اور ان کا چکھنا لکھا۔نئے نئے مناظر لکھے اور ان کا دیکھا جانا لکھا،انوکھی انوکھی خوش بوئیں لکھیں اور ان کا مشام جان میں اترنا لکھا،لذت بھرے لمس کو محسوس کیا اور اسے زندگی بنا کر لکھا۔
اس نے جس طرح اپنے کرداروں کو شدت سے سوچنے پر اکسایا اور اتنے ہی بھولپن سے انھیں دانش بھرے سوالات کے مقابل کردیا۔ بے پناہ محبت کی طویل نہر کھودی اورساری آدمیت کو اس کے کنارے بسانا چاہا۔ محترم ہو جانے والے رشتوں کو لکھا اور اپنے محبوب کرداروں کو اس ریشمی ڈور میں پرونا چاہا۔ کرداروں کے اندر ایک عجب طرح کی حمیت جگائی اور ان کے لہو میں اپنی رہتل کی خوش بو کو اتاردیا۔
عجب عجب کہانیاں، عجب عجب کردار۔ کہیں موت کے کھلیان سے اگتی ہوئی زندگی۔ کہیں زندگی کی نس نس میں اترتی ہوئی موت۔ یوں نہیں ہے کہ موت اس کے لیے کوئی اجنبی کردار تھا اس نے اسے محبت سے لکھا ہے اور سفاکی سے بھی۔ یہ موت کبھی تو انجی کی چیخ کے بعداس کے تھر تھر کانپے چلے جانے پر اس عاشق کی سی ہوگئی تھی جوریل کار کے نیچے کچلا نہیں گیا تھا بلکہ اس کے دروازے میں کھڑا ہوا کے جھونکوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور کبھی علی احمد پر قسطوں میں اترنے والے اس عذاب جیسی،جو مرنا چاہتا تھا مگر مر نہیں چکتا تھا حتی کہ اس کی اپنی بیوی نے جھنجھلا کر پوچھا تھا”کیا ہم سب کو مار کر مرنے کا ارادہ ہے“۔ اسی کہانی میں موت نے آکر موت کو آوازیں دینے والی اسی عورت کی”سزا اور بڑھا دی“ تھی۔
ادبدا کر کھسک جانے والی موت سے لے کر ترسا ترسا کر مارنے والی موت تک، ایک ہی ہلے میں بہت سارے انسانوں کو مارڈالنے والی موت سے لے کر اس شخص کی موت تک جسے ”پولی تھین“ کھا کر مرنا تھا مگرجو مومی لفافے کے تعاقب میں بجلی کے کھمبے پر چڑھا اور کرنٹ لگنے سے مرگیا تھا۔
سب طرح کی موتیں اس نے لکھ ڈالی تھیں۔مگر یوں لگتا تھا کہ جیسے جوموت اسے لکھنا تھی، وہ ابھی باقی تھی لہذا وہ خود اس کے ڈھیلے ماس کے جال میں اتر گیا۔
اچھا یوں نہیں ہے کہ اچانک وہ اپنے نصیبے میں لکھی ہوئی موت کے مقابل ہوا تھا اور یہ بھی بجا ہے کہ یہ سب کچھ اس کے ادراک میں کہیں پہلے سے تھا تاہم یوں ہے کہ میرے لیے یہ مرحلہ ٹوٹ پڑنے والی قیامت کا سا تھا۔
مجھے یاد ہے کچھ عرصہ پہلے جب اس کے دل کی دھڑکنیں اپنا آہنگ چھوڑنے لگی تھیں اور اس نے اپنی چھاتی کا ماس کٹوا کر اس میں پیس میکر رکھوا لیاتھا۔ اس نے ایک کہانی لکھی تھی، ”کوک بھرے کھلونے“۔تب اس نے بتایا تھا کہ موت اسے چھو کر نکل گئی تھی۔
وہ ساری عمر عجب اور انوکھے خیال سوچتا اور لکھتا رہا۔ موت اسے چھو کر گزری تو اس نے اپنے آپ کو ایک کوک بھرا کھلوناکہا۔ کہانی مکمل ہو گئی تو مجھے بلایا اور مزے لے لے کر ساری کہانی مجھے سنادی۔
کہانی سنا چکا تو اس نے سوچے ہوئے کئی عنوان میرے سامنے رکھ دیے۔
ایک۔۔۔۔
دو۔۔۔۔۔۔
تین۔۔۔۔۔۔۔۔
چار۔۔۔۔۔
میں نے کہا:”کوک بھرا کھلونا“
کہانی میں کوک بھرے کھلونے کا حوالہ آیا تھا، ایسا کھلونا جس میں چابی بھرتے ہیں اور وہ زندہ ہو جاتا ہے،مگر یہ عنوان اس فہرست میں نہ تھا جو اس نے سوچے تھے۔
وہ الجھن میں پڑ گیا کہ اس عنوان سے وہ سب الجھن میں پڑ سکتے تھے تو فوری طور پر”کوک“ جیسے لفظ سے معنی اخذ نہ کر سکتے تھے۔
کہانی کو الجھاوا بنانے والوں پر وہ خوب برستا تھا۔ ترسیل اسے عزیز تھی تاہم اسے محض واقعہ بنا ڈالنے کے حق میں بھی نہ تھا۔ اچھا جملہ کہنا، تہذیبی تناظر اچھالتا ہوا،دیہی دانش سے لبالب بھرا ہوا، مٹی کی خوش بو میں گندھا ہوامگر کہانی کے اندر پوری طرح پیوست، ہاں یہ بھی اسے عزیز تھا
اور کہانی کا ایسا عنوان، جو پوری توجہ کھینچ لے اور پڑھنے والے کو کہانی کی طرف مائل کر دے۔ کہانی کی طرف اور اس تخلیقی حصار کی جانب بھی جو وہ اپنے جادو بھرے بیانیے سے کھینچا کرتا تھا۔
خیر میرا اصرار بڑھا تو اس نے کہانی کے اوپر یہ عنوان جما کر اسے کئی بار دہرایا۔ پھر چپ ہو گیا اور اپنی چھاتی پر وہاں ہاتھ رکھا جہاں اس نے پیس میکر لگوا رکھا تھا۔
اس نے بتایا تھا:
”جب میں نے ڈاکٹروں سے یہ پوچھا تھا کہ اس مشین کی کوئی گارنٹی ہے، جو آپ نے میری چھاتی میں گاڑ دی ہے تو انھوں نے کہا تھا ہاں، مگر آدمی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔“
پھر وہ خود ہی ہنسنے لگاتھا۔ وہ ہنستا رہا۔ نہیں، شاید وہ ہنسنے کی اداکاری کر رہا تھا۔ تب ہی تو میں بوکھلا کراسے دیکھنے لگا تھا۔ وہ جھینپ کر چپ ہو گیا اور میرا دل رکھنے کو وہ کہانی سنانے لگا جو ڈاکٹروں نے اسے کچھ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے سنائی تھی۔ ایک ایسے شخص کی کہانی جو مر گیا تھا مگر اس کا پیس میکر اس کے مرنے کے بعد بھی کام کرتا رہا یہ پیس میکربعدازاں مرنے والے کی وصیت پر ایک اور ضرورت مند کو لگا دیا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس مشین کی قیمت بتائی تھی جس کی کارکردگی کو کمپیوٹر سے آنکا جاسکتا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ وہ پیس میکر ابھی تک اس ضرورت مند کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔
”کوک بھرا کھلونا“ میں نے دہرایا
یوں لگتا تھا اسے میری تجویز اب اچھی لگنے لگی تھی اس نے اسے تھوڑا سا بدل کر لکھا ”کوک بھرے کھلونے“
پھر میری طرف دیکھا، کہا: ”یہ ٹھیک رہے گاکہ ہم سب تقدیر کے ہاتھوں میں کوک بھر ے کھلونے ہی تو ہیں۔پتہ نہیں کب اور کہاں کوک ختم ہو جائے۔“
مقدر کو بدل لینے کا اس میں حوصلہ تھا، ساری عمر اس نے یہی تو کیا تھا یوں لگتا ہے، وہ مسلسل اپنے قلم سے اپنی تقدیر میں کمی بیشی کرتا آیا تھا، مگرکچھ برسوں سے مجھے محسوس ہونے لگا تھاکہ موت جس سے وہ کنی کاٹ کر گزرنا چاہتا تھا اس کی محبوبہ ہو گئی تھی، سیاہ چشم محبوبہ۔ موت کو سیاہ چشم اس نے تب کہا تھا جب وہ گلابوں کی مہک کے ساتھ اس کا تعاقب کر رہی تھی اور جب اس کی یہ محبوبہ اس کے مقابل آئی تو اس کی کہانی کواس نے شام پڑنے سے پہلے پہلے لکھنا چاہا۔
عصر کاوقت ڈھل رہا تھا۔ شام پڑنے اور رات کے آلینے میں ابھی کئی سمے باقی تھے،اس کی کہانی مکمل ہوگئی اور سارا خسارہ ہماری جھولی میں آگرا تھا کہ موت کی کہانی لکھتے ہوئے وہ اپنے بدن میں لوٹ کرکوک بھرنا بھول گیاتھا۔