Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کل کا دن آن لائن کلاسوں کے نام پر تینوں بچوں کے اسکولوں میں خواری جھیلتے ہوئے گزرا۔ واپسی پر میرے ہاتھ میں بے وزن سے تین لفافے تھے۔ ہر لفافے میں چار چار کاغذ۔ پہلا پروموشن لیٹر، دوسرے میں آن لائن کلاسوں کا ٹائم ٹیبل تیسرے میں نئی کلاس کے کورس اور کاپیوں کی ہر سال کی طرح ایک طویل فہرست درج تھی اور آخری کاغذ فی واؤچر کا تھا۔یہ لفافے صرف ان خوش قسمت والدین کو فراہم کیے گئے جو بچوں کی مئی تک کی فیس اسکول اکاؤنٹ میں جمع کروا چکے تھے۔ باقی کو ناکام و نامراد لوٹانے میں ذرا تامل نہ کیا گیا۔
بچوں کے فی واؤچر کھولے تو جون کی فیس کے ساتھ اسٹیشنری کی مد میں لگے چارجز منہ چڑا رہے تھے، چھوٹے بیٹے کے اسٹیشنری چارجز تو بہت ہی زیادہ تھے۔ اسکول والوں سے اس کی وضاحت لی تو آئیں بائیں اور شائیں۔ زیادہ بحث کی تو جواب ملا کہ بچوں کو ورک شیٹس وغیرہ تو آن لائن فراہم کی ہی جائیں گی ناں۔ دل میں تو آیا کہ خوب سناؤں لیکن خاموشی سے رگوں میں دوڑتے بھاگتے لہو کو یہ سوچ کر سنبھالاکہ دفتر میں بیٹھے ان لوگوں سے بحث کا فائدہ ہی کیا وہ تو خود اس سسٹم میں چند ہزار کے ملازم ہیں جن کا کام سیٹھوں کے حکم پر سر جھکاکراپنی نوکری بچانا ہے۔
گھر آکر آن لائن کلاسوں کا نوٹس پڑھا، جس کا لب لباب بس یہ تھا کہ والدین آن لائن تعلیم کے بہتے دریا سے اگر بچوں کو فیض یاب کروانا چاہتے ہیں تو جون کی فیس فوری ادا کردیں، اس کے بنا بچوں کو گوگل کلاس روم میں شمولیت کے کوڈ فراہم نہیں کیے جائیں گے، سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ بنا فیس آپ کے بچے کو آن لائن منہ نہ لگایا جائے گا۔
اسکولوں کی یہ لوٹ مار اور بے حسی گو کہ کون سا نیا قصہ ہے لیکن اس مشکل دور میں اداروں کی طرف سے اتنی بے حسی کی بھی امید نہ تھی۔
وبا کے سخت دور میں معاشی مشکلات کا شکار والدین پر یہ بوجھ جس آن لائن تعلیم کے نام پر لادا جا رہا ہے اس کا ٹائم ٹیبل پڑھا تو ہنسی آگئی۔ ہر جماعت کے طلبا کو ہفتے میں بس تین دن فقط دو گھنٹے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان چند گھنٹوں میں ہوم اسائنمنٹس کے نام پر جو بھاری بھرکم ٹاسک دیے جائیں گے ان سے بچے تو بچے والدین بھی بری طرح بوکھلا جائیں گے۔ نتیجتاً سارا دن بچوں کے ساتھ خود سر پھوڑیں گے یا پھرٹیوٹر۔ پھر بھی ہمیں یہی لگے گا کہ ہمارا کا بچہ تو آن لائن اسکول پڑھ رہا ہے۔
اس ٹائم ٹیبل کے ساتھ موجود لمبے چوڑے ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ گھر کا کوئی بڑا اس دوران بچے کے ساتھ موجود رہے۔ گویا اسکول والوں کو یقین ہے کہ کورونا نے لوگوں سے کام دھندے تو ختم ہی کروا دیے ہیں اب بدقسمتی سے وہ اتنے فارغ ہیں کہ کلاس کے دوران بچے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے گزرے وہ دن بھی یاد آ گئے جب میرے بچوں کا ٹیوٹر چند دن کی رخصت پر تھا اور بیٹے کو میتھ کے سوالات سمجھنے تھے۔ سو واٹس ایپ پر بھائی کو ویڈیو کال ملائی اور بیٹے کو لے کر بیٹھ گئی۔ میرے بیٹھنے کا بیٹے کو بس ایک فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ سوالات اس کے بجائے میری سمجھ میں آ گئے۔ بعد میں بیٹے کے ساتھ مزید ایک گھنٹہ خود سر پھوڑا۔ اب یہ ہدایت نامہ ہاتھ میں لیے سوچ رہی ہوں کہ اسکول والے آن لائن تعلیم کے نام پر والدین کی نفسیات سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ گھر کے بڑے کے ساتھ بیٹھنے کی تاکید کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر آپ کا بچہ آن لائن سبق نہ سمجھ سکے تو بعد میں گھر کا بڑا بچے کے ساتھ مغز ماری کر سکے، یوں اسکول کی واہ واہ ہوجائے گی اور والدین اگلے مہینے فیس کی ادائیگی کے لیے بے وقوف بن جائیں گے۔
ہدایت نامے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کلاس کے دوران بچے کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری ساتھ رکھیں۔ اب کون پوچھے کہ اسٹیشنری کے پیسے تو جناب والا اسکول انتظامیہ نے والدین سے وصول کرلیے ہیں اور چھوٹے بچوں کے نام پر تو بہت زیادہ وصول کیے ہیں تو پھر آن لائن کلاس کے دوران بچے کو اسٹیشنری کیا اسکول فراہم کرے گا؟ اگر نہیں جو کہ یقیناً نہیں ہوگا تو پھر اسٹیشنری کے کھاتے میں رقم وصول کرنے کی تُک کیا ہے؟ شاید اسی کو پرائیویٹ اسکول مافیا کہتے ہیں۔
ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ آن لائن کلاس میں ملنے والے ہوم ورک یا اسائنمنٹس کو ہدایت کے مطابق اسکول میں جمع بھی کروایا جائے گا۔ یہ پڑھ کر میرا سر چکرا رہا ہے۔ میرے تینوں بچے آن لائن کلاسوں میں اسکرین پر جلوہ گر ہوں گے۔ تینوں کا اسکول سسٹم اگرچہ ایک ہی ہے لیکن کیمپسز الگ الگ اور دور ہیں۔ یہ ہوم اسائنمنٹس لینے کیا اسکول کی گاڑی گھر آئے گی؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر تیار رہیے! یہ ذمہ داری بھی والدین کے ناتواں کاندھوں پر پڑنے والی ہے اور عنقریب وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک جوتیاں چٹخاتے رہ جائیں گے۔
سب سے مزے کی بات تو بتانا ہی بھول گئی۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق پِری نرسری کے بچوں کی آن لائن کلاسز کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ سر پیٹوں یا پیٹ پکڑ کر لوٹیں لگاؤں۔ پِری نرسری میں داخل ہونے والے بچوں کی عمریں عموماً ڈھائی سے ساڑھے تین سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات ذرا ایک جگہ بٹھا کر تو دکھا دیں، یہی سب سے بڑا کمال ہو گا۔ اس معاملے میں بھی والدین کی مجبوریوں سے کھیلا جارہا ہے، کیوں کہ دسمبر سے پہلے داخلے کروا کے والدین بری طرح پھنس چکے ہیں۔ وبا کے تناظر میں اگر صرف ان ننھے بچوں کی کلاسوں کو اگلے سال تک کے لیے ملتوی کردیا جاتا تو کیا قباحت تھی؟ لیکن پھر والدین سے فیس کے نام پر رقم کیسے بٹوری جاتی؟
سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اب ہر گھر میں آن لائن کلاسیں اور آف لائن دھمال شروع ہونے والا ہے۔ کسی گھر میں پڑھنے والے بچے زیادہ اور اینڈرائیڈ فون کم ہونے کی وجہ سے کھینچا تانی ہورہی ہوگی تو کہیں بچے کی آن لائن کلاس کلاس کے دوران مائیں باقی بچوں کے منہ بھینچ بھینچ کر خاموش کروارہی ہوں گی۔ کہیں ڈھائی تین سال کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر اسکرین کے سامنے بٹھانے کے جتن میں والدین خود کو ہلکان کرتے ملیں گے۔
لیکن بھیا فیصلہ صادر ہوچکا ہے۔ آن لائن کلاسیں بس شروع ہونے کو ہیں۔ والدین اچھی سے اچھی انٹرنیٹ ڈیوائس خرید لیں۔ بھاری موبائل پیکیجز کروائیں۔ انٹرنیٹ کا بل مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کرنے کی نیک عادت اپنائیں۔ بچوں کے لیے الگ الگ اینڈرائیڈ فون کا انتظام کریں۔ لیکن ٹھہریے! سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ نے اسکول کے اکاؤنٹ میں جون تک کی فیس کے ساتھ دیگر اضافی اور غیرضروری تمام واجبات جمع کروادیے ہیں ناں؟؟؟
کل کا دن آن لائن کلاسوں کے نام پر تینوں بچوں کے اسکولوں میں خواری جھیلتے ہوئے گزرا۔ واپسی پر میرے ہاتھ میں بے وزن سے تین لفافے تھے۔ ہر لفافے میں چار چار کاغذ۔ پہلا پروموشن لیٹر، دوسرے میں آن لائن کلاسوں کا ٹائم ٹیبل تیسرے میں نئی کلاس کے کورس اور کاپیوں کی ہر سال کی طرح ایک طویل فہرست درج تھی اور آخری کاغذ فی واؤچر کا تھا۔یہ لفافے صرف ان خوش قسمت والدین کو فراہم کیے گئے جو بچوں کی مئی تک کی فیس اسکول اکاؤنٹ میں جمع کروا چکے تھے۔ باقی کو ناکام و نامراد لوٹانے میں ذرا تامل نہ کیا گیا۔
بچوں کے فی واؤچر کھولے تو جون کی فیس کے ساتھ اسٹیشنری کی مد میں لگے چارجز منہ چڑا رہے تھے، چھوٹے بیٹے کے اسٹیشنری چارجز تو بہت ہی زیادہ تھے۔ اسکول والوں سے اس کی وضاحت لی تو آئیں بائیں اور شائیں۔ زیادہ بحث کی تو جواب ملا کہ بچوں کو ورک شیٹس وغیرہ تو آن لائن فراہم کی ہی جائیں گی ناں۔ دل میں تو آیا کہ خوب سناؤں لیکن خاموشی سے رگوں میں دوڑتے بھاگتے لہو کو یہ سوچ کر سنبھالاکہ دفتر میں بیٹھے ان لوگوں سے بحث کا فائدہ ہی کیا وہ تو خود اس سسٹم میں چند ہزار کے ملازم ہیں جن کا کام سیٹھوں کے حکم پر سر جھکاکراپنی نوکری بچانا ہے۔
گھر آکر آن لائن کلاسوں کا نوٹس پڑھا، جس کا لب لباب بس یہ تھا کہ والدین آن لائن تعلیم کے بہتے دریا سے اگر بچوں کو فیض یاب کروانا چاہتے ہیں تو جون کی فیس فوری ادا کردیں، اس کے بنا بچوں کو گوگل کلاس روم میں شمولیت کے کوڈ فراہم نہیں کیے جائیں گے، سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ بنا فیس آپ کے بچے کو آن لائن منہ نہ لگایا جائے گا۔
اسکولوں کی یہ لوٹ مار اور بے حسی گو کہ کون سا نیا قصہ ہے لیکن اس مشکل دور میں اداروں کی طرف سے اتنی بے حسی کی بھی امید نہ تھی۔
وبا کے سخت دور میں معاشی مشکلات کا شکار والدین پر یہ بوجھ جس آن لائن تعلیم کے نام پر لادا جا رہا ہے اس کا ٹائم ٹیبل پڑھا تو ہنسی آگئی۔ ہر جماعت کے طلبا کو ہفتے میں بس تین دن فقط دو گھنٹے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان چند گھنٹوں میں ہوم اسائنمنٹس کے نام پر جو بھاری بھرکم ٹاسک دیے جائیں گے ان سے بچے تو بچے والدین بھی بری طرح بوکھلا جائیں گے۔ نتیجتاً سارا دن بچوں کے ساتھ خود سر پھوڑیں گے یا پھرٹیوٹر۔ پھر بھی ہمیں یہی لگے گا کہ ہمارا کا بچہ تو آن لائن اسکول پڑھ رہا ہے۔
اس ٹائم ٹیبل کے ساتھ موجود لمبے چوڑے ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ گھر کا کوئی بڑا اس دوران بچے کے ساتھ موجود رہے۔ گویا اسکول والوں کو یقین ہے کہ کورونا نے لوگوں سے کام دھندے تو ختم ہی کروا دیے ہیں اب بدقسمتی سے وہ اتنے فارغ ہیں کہ کلاس کے دوران بچے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے گزرے وہ دن بھی یاد آ گئے جب میرے بچوں کا ٹیوٹر چند دن کی رخصت پر تھا اور بیٹے کو میتھ کے سوالات سمجھنے تھے۔ سو واٹس ایپ پر بھائی کو ویڈیو کال ملائی اور بیٹے کو لے کر بیٹھ گئی۔ میرے بیٹھنے کا بیٹے کو بس ایک فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ سوالات اس کے بجائے میری سمجھ میں آ گئے۔ بعد میں بیٹے کے ساتھ مزید ایک گھنٹہ خود سر پھوڑا۔ اب یہ ہدایت نامہ ہاتھ میں لیے سوچ رہی ہوں کہ اسکول والے آن لائن تعلیم کے نام پر والدین کی نفسیات سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ گھر کے بڑے کے ساتھ بیٹھنے کی تاکید کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر آپ کا بچہ آن لائن سبق نہ سمجھ سکے تو بعد میں گھر کا بڑا بچے کے ساتھ مغز ماری کر سکے، یوں اسکول کی واہ واہ ہوجائے گی اور والدین اگلے مہینے فیس کی ادائیگی کے لیے بے وقوف بن جائیں گے۔
ہدایت نامے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کلاس کے دوران بچے کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری ساتھ رکھیں۔ اب کون پوچھے کہ اسٹیشنری کے پیسے تو جناب والا اسکول انتظامیہ نے والدین سے وصول کرلیے ہیں اور چھوٹے بچوں کے نام پر تو بہت زیادہ وصول کیے ہیں تو پھر آن لائن کلاس کے دوران بچے کو اسٹیشنری کیا اسکول فراہم کرے گا؟ اگر نہیں جو کہ یقیناً نہیں ہوگا تو پھر اسٹیشنری کے کھاتے میں رقم وصول کرنے کی تُک کیا ہے؟ شاید اسی کو پرائیویٹ اسکول مافیا کہتے ہیں۔
ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ آن لائن کلاس میں ملنے والے ہوم ورک یا اسائنمنٹس کو ہدایت کے مطابق اسکول میں جمع بھی کروایا جائے گا۔ یہ پڑھ کر میرا سر چکرا رہا ہے۔ میرے تینوں بچے آن لائن کلاسوں میں اسکرین پر جلوہ گر ہوں گے۔ تینوں کا اسکول سسٹم اگرچہ ایک ہی ہے لیکن کیمپسز الگ الگ اور دور ہیں۔ یہ ہوم اسائنمنٹس لینے کیا اسکول کی گاڑی گھر آئے گی؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر تیار رہیے! یہ ذمہ داری بھی والدین کے ناتواں کاندھوں پر پڑنے والی ہے اور عنقریب وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک جوتیاں چٹخاتے رہ جائیں گے۔
سب سے مزے کی بات تو بتانا ہی بھول گئی۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق پِری نرسری کے بچوں کی آن لائن کلاسز کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ سر پیٹوں یا پیٹ پکڑ کر لوٹیں لگاؤں۔ پِری نرسری میں داخل ہونے والے بچوں کی عمریں عموماً ڈھائی سے ساڑھے تین سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات ذرا ایک جگہ بٹھا کر تو دکھا دیں، یہی سب سے بڑا کمال ہو گا۔ اس معاملے میں بھی والدین کی مجبوریوں سے کھیلا جارہا ہے، کیوں کہ دسمبر سے پہلے داخلے کروا کے والدین بری طرح پھنس چکے ہیں۔ وبا کے تناظر میں اگر صرف ان ننھے بچوں کی کلاسوں کو اگلے سال تک کے لیے ملتوی کردیا جاتا تو کیا قباحت تھی؟ لیکن پھر والدین سے فیس کے نام پر رقم کیسے بٹوری جاتی؟
سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اب ہر گھر میں آن لائن کلاسیں اور آف لائن دھمال شروع ہونے والا ہے۔ کسی گھر میں پڑھنے والے بچے زیادہ اور اینڈرائیڈ فون کم ہونے کی وجہ سے کھینچا تانی ہورہی ہوگی تو کہیں بچے کی آن لائن کلاس کلاس کے دوران مائیں باقی بچوں کے منہ بھینچ بھینچ کر خاموش کروارہی ہوں گی۔ کہیں ڈھائی تین سال کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر اسکرین کے سامنے بٹھانے کے جتن میں والدین خود کو ہلکان کرتے ملیں گے۔
لیکن بھیا فیصلہ صادر ہوچکا ہے۔ آن لائن کلاسیں بس شروع ہونے کو ہیں۔ والدین اچھی سے اچھی انٹرنیٹ ڈیوائس خرید لیں۔ بھاری موبائل پیکیجز کروائیں۔ انٹرنیٹ کا بل مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کرنے کی نیک عادت اپنائیں۔ بچوں کے لیے الگ الگ اینڈرائیڈ فون کا انتظام کریں۔ لیکن ٹھہریے! سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ نے اسکول کے اکاؤنٹ میں جون تک کی فیس کے ساتھ دیگر اضافی اور غیرضروری تمام واجبات جمع کروادیے ہیں ناں؟؟؟
کل کا دن آن لائن کلاسوں کے نام پر تینوں بچوں کے اسکولوں میں خواری جھیلتے ہوئے گزرا۔ واپسی پر میرے ہاتھ میں بے وزن سے تین لفافے تھے۔ ہر لفافے میں چار چار کاغذ۔ پہلا پروموشن لیٹر، دوسرے میں آن لائن کلاسوں کا ٹائم ٹیبل تیسرے میں نئی کلاس کے کورس اور کاپیوں کی ہر سال کی طرح ایک طویل فہرست درج تھی اور آخری کاغذ فی واؤچر کا تھا۔یہ لفافے صرف ان خوش قسمت والدین کو فراہم کیے گئے جو بچوں کی مئی تک کی فیس اسکول اکاؤنٹ میں جمع کروا چکے تھے۔ باقی کو ناکام و نامراد لوٹانے میں ذرا تامل نہ کیا گیا۔
بچوں کے فی واؤچر کھولے تو جون کی فیس کے ساتھ اسٹیشنری کی مد میں لگے چارجز منہ چڑا رہے تھے، چھوٹے بیٹے کے اسٹیشنری چارجز تو بہت ہی زیادہ تھے۔ اسکول والوں سے اس کی وضاحت لی تو آئیں بائیں اور شائیں۔ زیادہ بحث کی تو جواب ملا کہ بچوں کو ورک شیٹس وغیرہ تو آن لائن فراہم کی ہی جائیں گی ناں۔ دل میں تو آیا کہ خوب سناؤں لیکن خاموشی سے رگوں میں دوڑتے بھاگتے لہو کو یہ سوچ کر سنبھالاکہ دفتر میں بیٹھے ان لوگوں سے بحث کا فائدہ ہی کیا وہ تو خود اس سسٹم میں چند ہزار کے ملازم ہیں جن کا کام سیٹھوں کے حکم پر سر جھکاکراپنی نوکری بچانا ہے۔
گھر آکر آن لائن کلاسوں کا نوٹس پڑھا، جس کا لب لباب بس یہ تھا کہ والدین آن لائن تعلیم کے بہتے دریا سے اگر بچوں کو فیض یاب کروانا چاہتے ہیں تو جون کی فیس فوری ادا کردیں، اس کے بنا بچوں کو گوگل کلاس روم میں شمولیت کے کوڈ فراہم نہیں کیے جائیں گے، سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ بنا فیس آپ کے بچے کو آن لائن منہ نہ لگایا جائے گا۔
اسکولوں کی یہ لوٹ مار اور بے حسی گو کہ کون سا نیا قصہ ہے لیکن اس مشکل دور میں اداروں کی طرف سے اتنی بے حسی کی بھی امید نہ تھی۔
وبا کے سخت دور میں معاشی مشکلات کا شکار والدین پر یہ بوجھ جس آن لائن تعلیم کے نام پر لادا جا رہا ہے اس کا ٹائم ٹیبل پڑھا تو ہنسی آگئی۔ ہر جماعت کے طلبا کو ہفتے میں بس تین دن فقط دو گھنٹے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان چند گھنٹوں میں ہوم اسائنمنٹس کے نام پر جو بھاری بھرکم ٹاسک دیے جائیں گے ان سے بچے تو بچے والدین بھی بری طرح بوکھلا جائیں گے۔ نتیجتاً سارا دن بچوں کے ساتھ خود سر پھوڑیں گے یا پھرٹیوٹر۔ پھر بھی ہمیں یہی لگے گا کہ ہمارا کا بچہ تو آن لائن اسکول پڑھ رہا ہے۔
اس ٹائم ٹیبل کے ساتھ موجود لمبے چوڑے ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ گھر کا کوئی بڑا اس دوران بچے کے ساتھ موجود رہے۔ گویا اسکول والوں کو یقین ہے کہ کورونا نے لوگوں سے کام دھندے تو ختم ہی کروا دیے ہیں اب بدقسمتی سے وہ اتنے فارغ ہیں کہ کلاس کے دوران بچے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے گزرے وہ دن بھی یاد آ گئے جب میرے بچوں کا ٹیوٹر چند دن کی رخصت پر تھا اور بیٹے کو میتھ کے سوالات سمجھنے تھے۔ سو واٹس ایپ پر بھائی کو ویڈیو کال ملائی اور بیٹے کو لے کر بیٹھ گئی۔ میرے بیٹھنے کا بیٹے کو بس ایک فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ سوالات اس کے بجائے میری سمجھ میں آ گئے۔ بعد میں بیٹے کے ساتھ مزید ایک گھنٹہ خود سر پھوڑا۔ اب یہ ہدایت نامہ ہاتھ میں لیے سوچ رہی ہوں کہ اسکول والے آن لائن تعلیم کے نام پر والدین کی نفسیات سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ گھر کے بڑے کے ساتھ بیٹھنے کی تاکید کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر آپ کا بچہ آن لائن سبق نہ سمجھ سکے تو بعد میں گھر کا بڑا بچے کے ساتھ مغز ماری کر سکے، یوں اسکول کی واہ واہ ہوجائے گی اور والدین اگلے مہینے فیس کی ادائیگی کے لیے بے وقوف بن جائیں گے۔
ہدایت نامے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کلاس کے دوران بچے کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری ساتھ رکھیں۔ اب کون پوچھے کہ اسٹیشنری کے پیسے تو جناب والا اسکول انتظامیہ نے والدین سے وصول کرلیے ہیں اور چھوٹے بچوں کے نام پر تو بہت زیادہ وصول کیے ہیں تو پھر آن لائن کلاس کے دوران بچے کو اسٹیشنری کیا اسکول فراہم کرے گا؟ اگر نہیں جو کہ یقیناً نہیں ہوگا تو پھر اسٹیشنری کے کھاتے میں رقم وصول کرنے کی تُک کیا ہے؟ شاید اسی کو پرائیویٹ اسکول مافیا کہتے ہیں۔
ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ آن لائن کلاس میں ملنے والے ہوم ورک یا اسائنمنٹس کو ہدایت کے مطابق اسکول میں جمع بھی کروایا جائے گا۔ یہ پڑھ کر میرا سر چکرا رہا ہے۔ میرے تینوں بچے آن لائن کلاسوں میں اسکرین پر جلوہ گر ہوں گے۔ تینوں کا اسکول سسٹم اگرچہ ایک ہی ہے لیکن کیمپسز الگ الگ اور دور ہیں۔ یہ ہوم اسائنمنٹس لینے کیا اسکول کی گاڑی گھر آئے گی؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر تیار رہیے! یہ ذمہ داری بھی والدین کے ناتواں کاندھوں پر پڑنے والی ہے اور عنقریب وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک جوتیاں چٹخاتے رہ جائیں گے۔
سب سے مزے کی بات تو بتانا ہی بھول گئی۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق پِری نرسری کے بچوں کی آن لائن کلاسز کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ سر پیٹوں یا پیٹ پکڑ کر لوٹیں لگاؤں۔ پِری نرسری میں داخل ہونے والے بچوں کی عمریں عموماً ڈھائی سے ساڑھے تین سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات ذرا ایک جگہ بٹھا کر تو دکھا دیں، یہی سب سے بڑا کمال ہو گا۔ اس معاملے میں بھی والدین کی مجبوریوں سے کھیلا جارہا ہے، کیوں کہ دسمبر سے پہلے داخلے کروا کے والدین بری طرح پھنس چکے ہیں۔ وبا کے تناظر میں اگر صرف ان ننھے بچوں کی کلاسوں کو اگلے سال تک کے لیے ملتوی کردیا جاتا تو کیا قباحت تھی؟ لیکن پھر والدین سے فیس کے نام پر رقم کیسے بٹوری جاتی؟
سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اب ہر گھر میں آن لائن کلاسیں اور آف لائن دھمال شروع ہونے والا ہے۔ کسی گھر میں پڑھنے والے بچے زیادہ اور اینڈرائیڈ فون کم ہونے کی وجہ سے کھینچا تانی ہورہی ہوگی تو کہیں بچے کی آن لائن کلاس کلاس کے دوران مائیں باقی بچوں کے منہ بھینچ بھینچ کر خاموش کروارہی ہوں گی۔ کہیں ڈھائی تین سال کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر اسکرین کے سامنے بٹھانے کے جتن میں والدین خود کو ہلکان کرتے ملیں گے۔
لیکن بھیا فیصلہ صادر ہوچکا ہے۔ آن لائن کلاسیں بس شروع ہونے کو ہیں۔ والدین اچھی سے اچھی انٹرنیٹ ڈیوائس خرید لیں۔ بھاری موبائل پیکیجز کروائیں۔ انٹرنیٹ کا بل مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کرنے کی نیک عادت اپنائیں۔ بچوں کے لیے الگ الگ اینڈرائیڈ فون کا انتظام کریں۔ لیکن ٹھہریے! سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ نے اسکول کے اکاؤنٹ میں جون تک کی فیس کے ساتھ دیگر اضافی اور غیرضروری تمام واجبات جمع کروادیے ہیں ناں؟؟؟
کل کا دن آن لائن کلاسوں کے نام پر تینوں بچوں کے اسکولوں میں خواری جھیلتے ہوئے گزرا۔ واپسی پر میرے ہاتھ میں بے وزن سے تین لفافے تھے۔ ہر لفافے میں چار چار کاغذ۔ پہلا پروموشن لیٹر، دوسرے میں آن لائن کلاسوں کا ٹائم ٹیبل تیسرے میں نئی کلاس کے کورس اور کاپیوں کی ہر سال کی طرح ایک طویل فہرست درج تھی اور آخری کاغذ فی واؤچر کا تھا۔یہ لفافے صرف ان خوش قسمت والدین کو فراہم کیے گئے جو بچوں کی مئی تک کی فیس اسکول اکاؤنٹ میں جمع کروا چکے تھے۔ باقی کو ناکام و نامراد لوٹانے میں ذرا تامل نہ کیا گیا۔
بچوں کے فی واؤچر کھولے تو جون کی فیس کے ساتھ اسٹیشنری کی مد میں لگے چارجز منہ چڑا رہے تھے، چھوٹے بیٹے کے اسٹیشنری چارجز تو بہت ہی زیادہ تھے۔ اسکول والوں سے اس کی وضاحت لی تو آئیں بائیں اور شائیں۔ زیادہ بحث کی تو جواب ملا کہ بچوں کو ورک شیٹس وغیرہ تو آن لائن فراہم کی ہی جائیں گی ناں۔ دل میں تو آیا کہ خوب سناؤں لیکن خاموشی سے رگوں میں دوڑتے بھاگتے لہو کو یہ سوچ کر سنبھالاکہ دفتر میں بیٹھے ان لوگوں سے بحث کا فائدہ ہی کیا وہ تو خود اس سسٹم میں چند ہزار کے ملازم ہیں جن کا کام سیٹھوں کے حکم پر سر جھکاکراپنی نوکری بچانا ہے۔
گھر آکر آن لائن کلاسوں کا نوٹس پڑھا، جس کا لب لباب بس یہ تھا کہ والدین آن لائن تعلیم کے بہتے دریا سے اگر بچوں کو فیض یاب کروانا چاہتے ہیں تو جون کی فیس فوری ادا کردیں، اس کے بنا بچوں کو گوگل کلاس روم میں شمولیت کے کوڈ فراہم نہیں کیے جائیں گے، سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ بنا فیس آپ کے بچے کو آن لائن منہ نہ لگایا جائے گا۔
اسکولوں کی یہ لوٹ مار اور بے حسی گو کہ کون سا نیا قصہ ہے لیکن اس مشکل دور میں اداروں کی طرف سے اتنی بے حسی کی بھی امید نہ تھی۔
وبا کے سخت دور میں معاشی مشکلات کا شکار والدین پر یہ بوجھ جس آن لائن تعلیم کے نام پر لادا جا رہا ہے اس کا ٹائم ٹیبل پڑھا تو ہنسی آگئی۔ ہر جماعت کے طلبا کو ہفتے میں بس تین دن فقط دو گھنٹے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان چند گھنٹوں میں ہوم اسائنمنٹس کے نام پر جو بھاری بھرکم ٹاسک دیے جائیں گے ان سے بچے تو بچے والدین بھی بری طرح بوکھلا جائیں گے۔ نتیجتاً سارا دن بچوں کے ساتھ خود سر پھوڑیں گے یا پھرٹیوٹر۔ پھر بھی ہمیں یہی لگے گا کہ ہمارا کا بچہ تو آن لائن اسکول پڑھ رہا ہے۔
اس ٹائم ٹیبل کے ساتھ موجود لمبے چوڑے ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ گھر کا کوئی بڑا اس دوران بچے کے ساتھ موجود رہے۔ گویا اسکول والوں کو یقین ہے کہ کورونا نے لوگوں سے کام دھندے تو ختم ہی کروا دیے ہیں اب بدقسمتی سے وہ اتنے فارغ ہیں کہ کلاس کے دوران بچے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے گزرے وہ دن بھی یاد آ گئے جب میرے بچوں کا ٹیوٹر چند دن کی رخصت پر تھا اور بیٹے کو میتھ کے سوالات سمجھنے تھے۔ سو واٹس ایپ پر بھائی کو ویڈیو کال ملائی اور بیٹے کو لے کر بیٹھ گئی۔ میرے بیٹھنے کا بیٹے کو بس ایک فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ سوالات اس کے بجائے میری سمجھ میں آ گئے۔ بعد میں بیٹے کے ساتھ مزید ایک گھنٹہ خود سر پھوڑا۔ اب یہ ہدایت نامہ ہاتھ میں لیے سوچ رہی ہوں کہ اسکول والے آن لائن تعلیم کے نام پر والدین کی نفسیات سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ گھر کے بڑے کے ساتھ بیٹھنے کی تاکید کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر آپ کا بچہ آن لائن سبق نہ سمجھ سکے تو بعد میں گھر کا بڑا بچے کے ساتھ مغز ماری کر سکے، یوں اسکول کی واہ واہ ہوجائے گی اور والدین اگلے مہینے فیس کی ادائیگی کے لیے بے وقوف بن جائیں گے۔
ہدایت نامے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کلاس کے دوران بچے کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری ساتھ رکھیں۔ اب کون پوچھے کہ اسٹیشنری کے پیسے تو جناب والا اسکول انتظامیہ نے والدین سے وصول کرلیے ہیں اور چھوٹے بچوں کے نام پر تو بہت زیادہ وصول کیے ہیں تو پھر آن لائن کلاس کے دوران بچے کو اسٹیشنری کیا اسکول فراہم کرے گا؟ اگر نہیں جو کہ یقیناً نہیں ہوگا تو پھر اسٹیشنری کے کھاتے میں رقم وصول کرنے کی تُک کیا ہے؟ شاید اسی کو پرائیویٹ اسکول مافیا کہتے ہیں۔
ہدایت نامے میں یہ بھی درج ہے کہ آن لائن کلاس میں ملنے والے ہوم ورک یا اسائنمنٹس کو ہدایت کے مطابق اسکول میں جمع بھی کروایا جائے گا۔ یہ پڑھ کر میرا سر چکرا رہا ہے۔ میرے تینوں بچے آن لائن کلاسوں میں اسکرین پر جلوہ گر ہوں گے۔ تینوں کا اسکول سسٹم اگرچہ ایک ہی ہے لیکن کیمپسز الگ الگ اور دور ہیں۔ یہ ہوم اسائنمنٹس لینے کیا اسکول کی گاڑی گھر آئے گی؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر تیار رہیے! یہ ذمہ داری بھی والدین کے ناتواں کاندھوں پر پڑنے والی ہے اور عنقریب وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک جوتیاں چٹخاتے رہ جائیں گے۔
سب سے مزے کی بات تو بتانا ہی بھول گئی۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق پِری نرسری کے بچوں کی آن لائن کلاسز کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ سر پیٹوں یا پیٹ پکڑ کر لوٹیں لگاؤں۔ پِری نرسری میں داخل ہونے والے بچوں کی عمریں عموماً ڈھائی سے ساڑھے تین سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات ذرا ایک جگہ بٹھا کر تو دکھا دیں، یہی سب سے بڑا کمال ہو گا۔ اس معاملے میں بھی والدین کی مجبوریوں سے کھیلا جارہا ہے، کیوں کہ دسمبر سے پہلے داخلے کروا کے والدین بری طرح پھنس چکے ہیں۔ وبا کے تناظر میں اگر صرف ان ننھے بچوں کی کلاسوں کو اگلے سال تک کے لیے ملتوی کردیا جاتا تو کیا قباحت تھی؟ لیکن پھر والدین سے فیس کے نام پر رقم کیسے بٹوری جاتی؟
سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اب ہر گھر میں آن لائن کلاسیں اور آف لائن دھمال شروع ہونے والا ہے۔ کسی گھر میں پڑھنے والے بچے زیادہ اور اینڈرائیڈ فون کم ہونے کی وجہ سے کھینچا تانی ہورہی ہوگی تو کہیں بچے کی آن لائن کلاس کلاس کے دوران مائیں باقی بچوں کے منہ بھینچ بھینچ کر خاموش کروارہی ہوں گی۔ کہیں ڈھائی تین سال کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر اسکرین کے سامنے بٹھانے کے جتن میں والدین خود کو ہلکان کرتے ملیں گے۔
لیکن بھیا فیصلہ صادر ہوچکا ہے۔ آن لائن کلاسیں بس شروع ہونے کو ہیں۔ والدین اچھی سے اچھی انٹرنیٹ ڈیوائس خرید لیں۔ بھاری موبائل پیکیجز کروائیں۔ انٹرنیٹ کا بل مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کرنے کی نیک عادت اپنائیں۔ بچوں کے لیے الگ الگ اینڈرائیڈ فون کا انتظام کریں۔ لیکن ٹھہریے! سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ نے اسکول کے اکاؤنٹ میں جون تک کی فیس کے ساتھ دیگر اضافی اور غیرضروری تمام واجبات جمع کروادیے ہیں ناں؟؟؟