Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
یہ امریکا ہے۔ کہنے کو تیسری دنیا کے باشندوں کے لیے خوابوں کی جنت، لیکن حقیقت میں ان کے لیے نفرت اور نسلی تعصب کی آگ دہکاتا ہوا جہنم ہے، جہاں سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے مظالم کی اندوہ ناک کتنی ہی کہانیاں آئے دن اڑان بھرتی ہم تک پہنچتی ہیں، جن کو ہم اکثر بے یقینی کے کانوں سے سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن کل رات وائرل ہونے والی ویڈیو نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ یہ ویڈیو میرے لیے شدید اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ انسٹا گرام پر ہر دوسری پوسٹ اسی سانحے پر رو رہی ہے۔ امریکی ریاست مینیسوٹا کی ایک مصروف شاہراہ پر پولیس وردی میں ملبوس گوری چمڑی والے کا پاؤں ایک سیاہ فام کی شہ رگ پر ہے۔ زندگی سے موت کے درمیان کا یہ وقت سات منٹ پر مشتمل ہے۔ اس دوران افریقی باشندہ امریکی پولیس اہل کار کے گھٹنے تلے سڑک پر منہ کے بل پڑا بلبلا تا رہا۔ گھٹی اور لرزتی آواز میں زندگی کی بھیک مانگتا اور جان کی امان طلب کر تا رہا۔ درد اور تکلیف سے کراہتا تو کبھی پانی مانگتا، حتٰی کہ وہ بار بار کہتا رہا کہ آفیسر میں سانس نہیں لے سکتا، میری گردن چھوڑ دو لیکن طاقت کے نشے میں بدمست پولیس اہل کار نے اس کے بے جان ہونے تک اس کی گردن نہ چھوڑی۔ ترقی یافتہ دور میں درندگی کی جتنی مثالیں امریکا نے سرحد کے دونوں اطراف قائم کی ہیں ان کو انگلیوں پر شمار کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ کیسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں نسل پرستی کا جنون آئے دن کسی کی جان سے کھیل جاتا ہے۔ یہ کون سا غرور ہے جس نے گوری چمڑی والوں کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا ڈالا ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں۔
امریکی پولیس سیاہ فاموں کو ہر جرم کا سزاوار سمجھتی ہے اور معمولی شک کو جواز بنا کر اکثر جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ واشنگٹن پوسٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں گذشتہ سال 992 سیاہ فاموں کو بنا تفتیش گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، اس کے بعد خود امریکی اخبارات نے پولیس کو فیٹل فورس کا نام دے دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی جیلوں میں سیاہ فام قیدی، سفید فام قیدیوں سے چھے گنا زیادہ تعداد میں موجود ہیں، جن میں سے بے شمار بے گناہ یا معمولی جرم کے مرتکب ہیں۔ اس صورت حال سے امریکا میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افریقیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسی تشدد کی وجہ سے 2013 میں Black Lives Matter (سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں) نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کی وجہ سیاہ فام باشندوں کا امریکا میں بڑھتا ہوا قتل تھا۔ گذشتہ چھے مہینوں میں سیاہ فام باشندوں کے قتل کے بے شمار واقعات رونما ہوئے جن میں سے اکثر پولیس کے ہاتھوں جب کہ کچھ عام باشندوں کی نفرت کی بھینٹ بھی چڑھے۔ اس تحریک کے آغاز کے بعد سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امریکی سرزمین پر ہونے والے استحصال کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آرہی ہے اور سماجی میڈیا پر سیاہ فاموں کے احتجاج کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا ہے۔
حالیہ پھیلنے والی عالمی وبا میں بھی امریکا میں نسلی تعصب کا بہ خوبی مشاہدہ کیا گیا۔ دنیا میں اگر ایک طرف انسان دوستی اور ہم دردی کی اعلٰی مثالیں قائم ہوئیں تو دوسری طرف امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ روا رکھا جانے ولا امتیازی سلوک بھی چھپ نہ سکا۔ اس وبا سے مرنے والے امریکیوں میں بڑی تعداد سیاہ فاموں کی دیکھ کر ایک لمحے کو تو یہ گمان گزرا کہ شاید کورونا وائرس بھی چمڑی کا رنگ پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہاں سفید فام باشندوں کے مقابلے میں وبا سے مرنے والے سیاہ فاموں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ نسلی تعصب ہے جس کا شکار سیاہ فام باشندے یہاں سالوں سے بدترین زندگی گزار رہے ہیں، ان کو صحت اور روزگار کے مناسب مواقع تک میسر نہیں۔ یوں پہلے سے ابتر حالات کا شکار افریقیوں کے لیے وبا زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ امریکا میں مقیم سیاہ فاموں کی اکثریت نامناسب حالات کی وجہ سے شوگر، ہائیپر ٹینشن، دل کے امراض، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہے۔ ان نامساعد سماجی و معاشی حالات نے سیاہ فام باشندوں کی قوت مدافعت کو نچوڑ کر رکھ دیا اور وہ وبا کا بڑا شکار بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسپتالوں میں بھی سفید فام امریکیوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا گیا جس کی وجہ سے افریقی امریکیوں کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوگئی۔
امریکی سرزمین پر کالوں کے استحصال کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ اس کی جڑیں امریکا کی بنیاد رکھے جانے کے دور میں پیوست ہیں۔ سیاہ فاموں کو یہاں غلام بنا کر لایا جانا کبھی راز نہیں رہا۔ امریکا کی ترقی کی بنیادوں میں سیاہ فام باشندوں کا خون جبراً شامل کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاہ فاموں کی غلامی کا در تو بند ہوا لیکن عوامی ذہنیت نہ بدل سکی۔ آج بھی زندگی کے ہر معاملے میں نسلی تعصب کی بنا پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس وقت بے شمار امریکیوں نے سوشل میڈیا پر سیاہ فاموں کے خلاف نفرت انگیز صفحات بنا رکھے ہیں اور اس نفرت کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ حتٰی کہ فیس بک انتظامیہ بھی ان صفحات کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔
ایک وہ وقت تھا، جب انسانیت کا شعور اس قدر بے دار نہ ہوا تھا، کالوں کو ان کی زمین سے جبراً اٹھا کر لایا جاتا اور غلامی کی زنجیریں پہنا کر ان کی سانسیں گھونٹی جاتیں اور ایک یہ وقت ہے کہ جب انسان اپنے شعور پر نازاں ہے، ترقی کی نہ کوئی حد ہے نہ رفتار لیکن بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی خاطر اپنی سرزمین چھوڑ کر امریکا آنے والے سیاہ فام باشندوں کی سانسیں تو اب بھی گھونٹی جارہی ہیں۔ وہ پہلے بھی قابلِ رحم تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کو آج بھی چیخ چیخ کر کہنا پڑ رہا ہے کہ خدارا ہمیں سانس لینے دو، جینے دو۔ قبل از شعور اور بعد از شعور کے ان دونوں ادوار میں بس ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ پہلے یہ سانسیں اس لیے گھونٹی جاتی تھیں کہ سیاہ فاموں کو امریکا گھسیٹ کر لایا جاسکے اور اب اس لیے گھونٹی جارہی ہیں کہ انہیں یہاں سے واپس دھکیلا جا سکے۔
یہ امریکا ہے۔ کہنے کو تیسری دنیا کے باشندوں کے لیے خوابوں کی جنت، لیکن حقیقت میں ان کے لیے نفرت اور نسلی تعصب کی آگ دہکاتا ہوا جہنم ہے، جہاں سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے مظالم کی اندوہ ناک کتنی ہی کہانیاں آئے دن اڑان بھرتی ہم تک پہنچتی ہیں، جن کو ہم اکثر بے یقینی کے کانوں سے سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن کل رات وائرل ہونے والی ویڈیو نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ یہ ویڈیو میرے لیے شدید اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ انسٹا گرام پر ہر دوسری پوسٹ اسی سانحے پر رو رہی ہے۔ امریکی ریاست مینیسوٹا کی ایک مصروف شاہراہ پر پولیس وردی میں ملبوس گوری چمڑی والے کا پاؤں ایک سیاہ فام کی شہ رگ پر ہے۔ زندگی سے موت کے درمیان کا یہ وقت سات منٹ پر مشتمل ہے۔ اس دوران افریقی باشندہ امریکی پولیس اہل کار کے گھٹنے تلے سڑک پر منہ کے بل پڑا بلبلا تا رہا۔ گھٹی اور لرزتی آواز میں زندگی کی بھیک مانگتا اور جان کی امان طلب کر تا رہا۔ درد اور تکلیف سے کراہتا تو کبھی پانی مانگتا، حتٰی کہ وہ بار بار کہتا رہا کہ آفیسر میں سانس نہیں لے سکتا، میری گردن چھوڑ دو لیکن طاقت کے نشے میں بدمست پولیس اہل کار نے اس کے بے جان ہونے تک اس کی گردن نہ چھوڑی۔ ترقی یافتہ دور میں درندگی کی جتنی مثالیں امریکا نے سرحد کے دونوں اطراف قائم کی ہیں ان کو انگلیوں پر شمار کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ کیسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں نسل پرستی کا جنون آئے دن کسی کی جان سے کھیل جاتا ہے۔ یہ کون سا غرور ہے جس نے گوری چمڑی والوں کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا ڈالا ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں۔
امریکی پولیس سیاہ فاموں کو ہر جرم کا سزاوار سمجھتی ہے اور معمولی شک کو جواز بنا کر اکثر جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ واشنگٹن پوسٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں گذشتہ سال 992 سیاہ فاموں کو بنا تفتیش گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، اس کے بعد خود امریکی اخبارات نے پولیس کو فیٹل فورس کا نام دے دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی جیلوں میں سیاہ فام قیدی، سفید فام قیدیوں سے چھے گنا زیادہ تعداد میں موجود ہیں، جن میں سے بے شمار بے گناہ یا معمولی جرم کے مرتکب ہیں۔ اس صورت حال سے امریکا میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افریقیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسی تشدد کی وجہ سے 2013 میں Black Lives Matter (سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں) نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کی وجہ سیاہ فام باشندوں کا امریکا میں بڑھتا ہوا قتل تھا۔ گذشتہ چھے مہینوں میں سیاہ فام باشندوں کے قتل کے بے شمار واقعات رونما ہوئے جن میں سے اکثر پولیس کے ہاتھوں جب کہ کچھ عام باشندوں کی نفرت کی بھینٹ بھی چڑھے۔ اس تحریک کے آغاز کے بعد سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امریکی سرزمین پر ہونے والے استحصال کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آرہی ہے اور سماجی میڈیا پر سیاہ فاموں کے احتجاج کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا ہے۔
حالیہ پھیلنے والی عالمی وبا میں بھی امریکا میں نسلی تعصب کا بہ خوبی مشاہدہ کیا گیا۔ دنیا میں اگر ایک طرف انسان دوستی اور ہم دردی کی اعلٰی مثالیں قائم ہوئیں تو دوسری طرف امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ روا رکھا جانے ولا امتیازی سلوک بھی چھپ نہ سکا۔ اس وبا سے مرنے والے امریکیوں میں بڑی تعداد سیاہ فاموں کی دیکھ کر ایک لمحے کو تو یہ گمان گزرا کہ شاید کورونا وائرس بھی چمڑی کا رنگ پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہاں سفید فام باشندوں کے مقابلے میں وبا سے مرنے والے سیاہ فاموں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ نسلی تعصب ہے جس کا شکار سیاہ فام باشندے یہاں سالوں سے بدترین زندگی گزار رہے ہیں، ان کو صحت اور روزگار کے مناسب مواقع تک میسر نہیں۔ یوں پہلے سے ابتر حالات کا شکار افریقیوں کے لیے وبا زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ امریکا میں مقیم سیاہ فاموں کی اکثریت نامناسب حالات کی وجہ سے شوگر، ہائیپر ٹینشن، دل کے امراض، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہے۔ ان نامساعد سماجی و معاشی حالات نے سیاہ فام باشندوں کی قوت مدافعت کو نچوڑ کر رکھ دیا اور وہ وبا کا بڑا شکار بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسپتالوں میں بھی سفید فام امریکیوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا گیا جس کی وجہ سے افریقی امریکیوں کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوگئی۔
امریکی سرزمین پر کالوں کے استحصال کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ اس کی جڑیں امریکا کی بنیاد رکھے جانے کے دور میں پیوست ہیں۔ سیاہ فاموں کو یہاں غلام بنا کر لایا جانا کبھی راز نہیں رہا۔ امریکا کی ترقی کی بنیادوں میں سیاہ فام باشندوں کا خون جبراً شامل کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاہ فاموں کی غلامی کا در تو بند ہوا لیکن عوامی ذہنیت نہ بدل سکی۔ آج بھی زندگی کے ہر معاملے میں نسلی تعصب کی بنا پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس وقت بے شمار امریکیوں نے سوشل میڈیا پر سیاہ فاموں کے خلاف نفرت انگیز صفحات بنا رکھے ہیں اور اس نفرت کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ حتٰی کہ فیس بک انتظامیہ بھی ان صفحات کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔
ایک وہ وقت تھا، جب انسانیت کا شعور اس قدر بے دار نہ ہوا تھا، کالوں کو ان کی زمین سے جبراً اٹھا کر لایا جاتا اور غلامی کی زنجیریں پہنا کر ان کی سانسیں گھونٹی جاتیں اور ایک یہ وقت ہے کہ جب انسان اپنے شعور پر نازاں ہے، ترقی کی نہ کوئی حد ہے نہ رفتار لیکن بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی خاطر اپنی سرزمین چھوڑ کر امریکا آنے والے سیاہ فام باشندوں کی سانسیں تو اب بھی گھونٹی جارہی ہیں۔ وہ پہلے بھی قابلِ رحم تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کو آج بھی چیخ چیخ کر کہنا پڑ رہا ہے کہ خدارا ہمیں سانس لینے دو، جینے دو۔ قبل از شعور اور بعد از شعور کے ان دونوں ادوار میں بس ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ پہلے یہ سانسیں اس لیے گھونٹی جاتی تھیں کہ سیاہ فاموں کو امریکا گھسیٹ کر لایا جاسکے اور اب اس لیے گھونٹی جارہی ہیں کہ انہیں یہاں سے واپس دھکیلا جا سکے۔
یہ امریکا ہے۔ کہنے کو تیسری دنیا کے باشندوں کے لیے خوابوں کی جنت، لیکن حقیقت میں ان کے لیے نفرت اور نسلی تعصب کی آگ دہکاتا ہوا جہنم ہے، جہاں سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے مظالم کی اندوہ ناک کتنی ہی کہانیاں آئے دن اڑان بھرتی ہم تک پہنچتی ہیں، جن کو ہم اکثر بے یقینی کے کانوں سے سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن کل رات وائرل ہونے والی ویڈیو نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ یہ ویڈیو میرے لیے شدید اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ انسٹا گرام پر ہر دوسری پوسٹ اسی سانحے پر رو رہی ہے۔ امریکی ریاست مینیسوٹا کی ایک مصروف شاہراہ پر پولیس وردی میں ملبوس گوری چمڑی والے کا پاؤں ایک سیاہ فام کی شہ رگ پر ہے۔ زندگی سے موت کے درمیان کا یہ وقت سات منٹ پر مشتمل ہے۔ اس دوران افریقی باشندہ امریکی پولیس اہل کار کے گھٹنے تلے سڑک پر منہ کے بل پڑا بلبلا تا رہا۔ گھٹی اور لرزتی آواز میں زندگی کی بھیک مانگتا اور جان کی امان طلب کر تا رہا۔ درد اور تکلیف سے کراہتا تو کبھی پانی مانگتا، حتٰی کہ وہ بار بار کہتا رہا کہ آفیسر میں سانس نہیں لے سکتا، میری گردن چھوڑ دو لیکن طاقت کے نشے میں بدمست پولیس اہل کار نے اس کے بے جان ہونے تک اس کی گردن نہ چھوڑی۔ ترقی یافتہ دور میں درندگی کی جتنی مثالیں امریکا نے سرحد کے دونوں اطراف قائم کی ہیں ان کو انگلیوں پر شمار کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ کیسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں نسل پرستی کا جنون آئے دن کسی کی جان سے کھیل جاتا ہے۔ یہ کون سا غرور ہے جس نے گوری چمڑی والوں کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا ڈالا ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں۔
امریکی پولیس سیاہ فاموں کو ہر جرم کا سزاوار سمجھتی ہے اور معمولی شک کو جواز بنا کر اکثر جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ واشنگٹن پوسٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں گذشتہ سال 992 سیاہ فاموں کو بنا تفتیش گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، اس کے بعد خود امریکی اخبارات نے پولیس کو فیٹل فورس کا نام دے دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی جیلوں میں سیاہ فام قیدی، سفید فام قیدیوں سے چھے گنا زیادہ تعداد میں موجود ہیں، جن میں سے بے شمار بے گناہ یا معمولی جرم کے مرتکب ہیں۔ اس صورت حال سے امریکا میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افریقیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسی تشدد کی وجہ سے 2013 میں Black Lives Matter (سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں) نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کی وجہ سیاہ فام باشندوں کا امریکا میں بڑھتا ہوا قتل تھا۔ گذشتہ چھے مہینوں میں سیاہ فام باشندوں کے قتل کے بے شمار واقعات رونما ہوئے جن میں سے اکثر پولیس کے ہاتھوں جب کہ کچھ عام باشندوں کی نفرت کی بھینٹ بھی چڑھے۔ اس تحریک کے آغاز کے بعد سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امریکی سرزمین پر ہونے والے استحصال کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آرہی ہے اور سماجی میڈیا پر سیاہ فاموں کے احتجاج کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا ہے۔
حالیہ پھیلنے والی عالمی وبا میں بھی امریکا میں نسلی تعصب کا بہ خوبی مشاہدہ کیا گیا۔ دنیا میں اگر ایک طرف انسان دوستی اور ہم دردی کی اعلٰی مثالیں قائم ہوئیں تو دوسری طرف امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ روا رکھا جانے ولا امتیازی سلوک بھی چھپ نہ سکا۔ اس وبا سے مرنے والے امریکیوں میں بڑی تعداد سیاہ فاموں کی دیکھ کر ایک لمحے کو تو یہ گمان گزرا کہ شاید کورونا وائرس بھی چمڑی کا رنگ پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہاں سفید فام باشندوں کے مقابلے میں وبا سے مرنے والے سیاہ فاموں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ نسلی تعصب ہے جس کا شکار سیاہ فام باشندے یہاں سالوں سے بدترین زندگی گزار رہے ہیں، ان کو صحت اور روزگار کے مناسب مواقع تک میسر نہیں۔ یوں پہلے سے ابتر حالات کا شکار افریقیوں کے لیے وبا زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ امریکا میں مقیم سیاہ فاموں کی اکثریت نامناسب حالات کی وجہ سے شوگر، ہائیپر ٹینشن، دل کے امراض، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہے۔ ان نامساعد سماجی و معاشی حالات نے سیاہ فام باشندوں کی قوت مدافعت کو نچوڑ کر رکھ دیا اور وہ وبا کا بڑا شکار بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسپتالوں میں بھی سفید فام امریکیوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا گیا جس کی وجہ سے افریقی امریکیوں کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوگئی۔
امریکی سرزمین پر کالوں کے استحصال کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ اس کی جڑیں امریکا کی بنیاد رکھے جانے کے دور میں پیوست ہیں۔ سیاہ فاموں کو یہاں غلام بنا کر لایا جانا کبھی راز نہیں رہا۔ امریکا کی ترقی کی بنیادوں میں سیاہ فام باشندوں کا خون جبراً شامل کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاہ فاموں کی غلامی کا در تو بند ہوا لیکن عوامی ذہنیت نہ بدل سکی۔ آج بھی زندگی کے ہر معاملے میں نسلی تعصب کی بنا پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس وقت بے شمار امریکیوں نے سوشل میڈیا پر سیاہ فاموں کے خلاف نفرت انگیز صفحات بنا رکھے ہیں اور اس نفرت کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ حتٰی کہ فیس بک انتظامیہ بھی ان صفحات کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔
ایک وہ وقت تھا، جب انسانیت کا شعور اس قدر بے دار نہ ہوا تھا، کالوں کو ان کی زمین سے جبراً اٹھا کر لایا جاتا اور غلامی کی زنجیریں پہنا کر ان کی سانسیں گھونٹی جاتیں اور ایک یہ وقت ہے کہ جب انسان اپنے شعور پر نازاں ہے، ترقی کی نہ کوئی حد ہے نہ رفتار لیکن بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی خاطر اپنی سرزمین چھوڑ کر امریکا آنے والے سیاہ فام باشندوں کی سانسیں تو اب بھی گھونٹی جارہی ہیں۔ وہ پہلے بھی قابلِ رحم تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کو آج بھی چیخ چیخ کر کہنا پڑ رہا ہے کہ خدارا ہمیں سانس لینے دو، جینے دو۔ قبل از شعور اور بعد از شعور کے ان دونوں ادوار میں بس ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ پہلے یہ سانسیں اس لیے گھونٹی جاتی تھیں کہ سیاہ فاموں کو امریکا گھسیٹ کر لایا جاسکے اور اب اس لیے گھونٹی جارہی ہیں کہ انہیں یہاں سے واپس دھکیلا جا سکے۔
یہ امریکا ہے۔ کہنے کو تیسری دنیا کے باشندوں کے لیے خوابوں کی جنت، لیکن حقیقت میں ان کے لیے نفرت اور نسلی تعصب کی آگ دہکاتا ہوا جہنم ہے، جہاں سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے مظالم کی اندوہ ناک کتنی ہی کہانیاں آئے دن اڑان بھرتی ہم تک پہنچتی ہیں، جن کو ہم اکثر بے یقینی کے کانوں سے سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن کل رات وائرل ہونے والی ویڈیو نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ یہ ویڈیو میرے لیے شدید اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ انسٹا گرام پر ہر دوسری پوسٹ اسی سانحے پر رو رہی ہے۔ امریکی ریاست مینیسوٹا کی ایک مصروف شاہراہ پر پولیس وردی میں ملبوس گوری چمڑی والے کا پاؤں ایک سیاہ فام کی شہ رگ پر ہے۔ زندگی سے موت کے درمیان کا یہ وقت سات منٹ پر مشتمل ہے۔ اس دوران افریقی باشندہ امریکی پولیس اہل کار کے گھٹنے تلے سڑک پر منہ کے بل پڑا بلبلا تا رہا۔ گھٹی اور لرزتی آواز میں زندگی کی بھیک مانگتا اور جان کی امان طلب کر تا رہا۔ درد اور تکلیف سے کراہتا تو کبھی پانی مانگتا، حتٰی کہ وہ بار بار کہتا رہا کہ آفیسر میں سانس نہیں لے سکتا، میری گردن چھوڑ دو لیکن طاقت کے نشے میں بدمست پولیس اہل کار نے اس کے بے جان ہونے تک اس کی گردن نہ چھوڑی۔ ترقی یافتہ دور میں درندگی کی جتنی مثالیں امریکا نے سرحد کے دونوں اطراف قائم کی ہیں ان کو انگلیوں پر شمار کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ کیسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں نسل پرستی کا جنون آئے دن کسی کی جان سے کھیل جاتا ہے۔ یہ کون سا غرور ہے جس نے گوری چمڑی والوں کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا ڈالا ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں۔
امریکی پولیس سیاہ فاموں کو ہر جرم کا سزاوار سمجھتی ہے اور معمولی شک کو جواز بنا کر اکثر جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ واشنگٹن پوسٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں گذشتہ سال 992 سیاہ فاموں کو بنا تفتیش گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، اس کے بعد خود امریکی اخبارات نے پولیس کو فیٹل فورس کا نام دے دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی جیلوں میں سیاہ فام قیدی، سفید فام قیدیوں سے چھے گنا زیادہ تعداد میں موجود ہیں، جن میں سے بے شمار بے گناہ یا معمولی جرم کے مرتکب ہیں۔ اس صورت حال سے امریکا میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افریقیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسی تشدد کی وجہ سے 2013 میں Black Lives Matter (سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں) نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کی وجہ سیاہ فام باشندوں کا امریکا میں بڑھتا ہوا قتل تھا۔ گذشتہ چھے مہینوں میں سیاہ فام باشندوں کے قتل کے بے شمار واقعات رونما ہوئے جن میں سے اکثر پولیس کے ہاتھوں جب کہ کچھ عام باشندوں کی نفرت کی بھینٹ بھی چڑھے۔ اس تحریک کے آغاز کے بعد سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امریکی سرزمین پر ہونے والے استحصال کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آرہی ہے اور سماجی میڈیا پر سیاہ فاموں کے احتجاج کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا ہے۔
حالیہ پھیلنے والی عالمی وبا میں بھی امریکا میں نسلی تعصب کا بہ خوبی مشاہدہ کیا گیا۔ دنیا میں اگر ایک طرف انسان دوستی اور ہم دردی کی اعلٰی مثالیں قائم ہوئیں تو دوسری طرف امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ روا رکھا جانے ولا امتیازی سلوک بھی چھپ نہ سکا۔ اس وبا سے مرنے والے امریکیوں میں بڑی تعداد سیاہ فاموں کی دیکھ کر ایک لمحے کو تو یہ گمان گزرا کہ شاید کورونا وائرس بھی چمڑی کا رنگ پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہاں سفید فام باشندوں کے مقابلے میں وبا سے مرنے والے سیاہ فاموں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ نسلی تعصب ہے جس کا شکار سیاہ فام باشندے یہاں سالوں سے بدترین زندگی گزار رہے ہیں، ان کو صحت اور روزگار کے مناسب مواقع تک میسر نہیں۔ یوں پہلے سے ابتر حالات کا شکار افریقیوں کے لیے وبا زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ امریکا میں مقیم سیاہ فاموں کی اکثریت نامناسب حالات کی وجہ سے شوگر، ہائیپر ٹینشن، دل کے امراض، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہے۔ ان نامساعد سماجی و معاشی حالات نے سیاہ فام باشندوں کی قوت مدافعت کو نچوڑ کر رکھ دیا اور وہ وبا کا بڑا شکار بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسپتالوں میں بھی سفید فام امریکیوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا گیا جس کی وجہ سے افریقی امریکیوں کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوگئی۔
امریکی سرزمین پر کالوں کے استحصال کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ اس کی جڑیں امریکا کی بنیاد رکھے جانے کے دور میں پیوست ہیں۔ سیاہ فاموں کو یہاں غلام بنا کر لایا جانا کبھی راز نہیں رہا۔ امریکا کی ترقی کی بنیادوں میں سیاہ فام باشندوں کا خون جبراً شامل کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاہ فاموں کی غلامی کا در تو بند ہوا لیکن عوامی ذہنیت نہ بدل سکی۔ آج بھی زندگی کے ہر معاملے میں نسلی تعصب کی بنا پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس وقت بے شمار امریکیوں نے سوشل میڈیا پر سیاہ فاموں کے خلاف نفرت انگیز صفحات بنا رکھے ہیں اور اس نفرت کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ حتٰی کہ فیس بک انتظامیہ بھی ان صفحات کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔
ایک وہ وقت تھا، جب انسانیت کا شعور اس قدر بے دار نہ ہوا تھا، کالوں کو ان کی زمین سے جبراً اٹھا کر لایا جاتا اور غلامی کی زنجیریں پہنا کر ان کی سانسیں گھونٹی جاتیں اور ایک یہ وقت ہے کہ جب انسان اپنے شعور پر نازاں ہے، ترقی کی نہ کوئی حد ہے نہ رفتار لیکن بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی خاطر اپنی سرزمین چھوڑ کر امریکا آنے والے سیاہ فام باشندوں کی سانسیں تو اب بھی گھونٹی جارہی ہیں۔ وہ پہلے بھی قابلِ رحم تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کو آج بھی چیخ چیخ کر کہنا پڑ رہا ہے کہ خدارا ہمیں سانس لینے دو، جینے دو۔ قبل از شعور اور بعد از شعور کے ان دونوں ادوار میں بس ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ پہلے یہ سانسیں اس لیے گھونٹی جاتی تھیں کہ سیاہ فاموں کو امریکا گھسیٹ کر لایا جاسکے اور اب اس لیے گھونٹی جارہی ہیں کہ انہیں یہاں سے واپس دھکیلا جا سکے۔