چاند کو دیکھنا بھی ایک رومانس ہوتا تھا ، سر شام لڑکے بالے چھت پر چڑھ جاتے، بچیاں گھر کے آنگن میں اور بڑے بوڑھے نماز مغرب کے بعد مسجد کے صحن میں ہی آنکھوں پر دائیں ہاتھ کا چھجا بنا کر آسمان کی وسعتوں میں اسے تلاش کرتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چاند کے متلاشیوں کو چاند اکثر دکھائی دے جاتا۔اس کے بعد مبارک سلامت کا ایساشور اٹھتا کہ رات آنکھوں میں گزر جاتی۔ گویا عید سے پہلے عید کا چاند دیکھنا بذات خود ایک تہوار تھا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں یہ معمول متاثر رہا لیکن لگتا ہے کہ اب وہ دور پلٹ آئے گا ۔ لوگ باگ اسی طرح گھروں کی چھت پر کھڑے ہو کر چاند تلاش کریں گے اور عید کی خوشیاں پائیں گے۔
سائنس کو یہ درجہ کمال اِن دو برس میں حاصل نہیں ہو،یعنی سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت فواد چوہدری کے پاس آنے سے بھی برسوں پہلے ہی یہ منزل سر کر لی گئی تھی لیکن یوں کہہ لیجیے کہ چاند دیکھنے کے معاملے میں کسی متحرک اور تخلیقی ذہن کی توجہ اس جانب گئی نہیں یا پھر یہ خیال رہا ہو گا کہ علما ایک کام سے لگے ہوئے ہیں اورایک نظام چل رہا ہے، اسے چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ وجہ جو بھی ہو، فواد چوہدری مختلف آدمی نکلے اور انھوں نے یہ نظام چیلنج کر دیا۔اس بار تو انھوں نے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کرصاف بتا دیاکہ سندھ میں سانگھڑاور بلوچستان میں جیوانی وغیرہ کے نوجوان چھتوں پر چڑھیں اور چاند کو دیکھ کر خوشیوں کے نقیب بنیں۔
بات یہیں تک رہتی تو غنیمت تھا، چوہدری صاحب تو سائنس کی ترقی کو امور دینیہ کا بھی حصہ بنا دینا چاہتے ہیں۔وہ کہیں یا نہ کہیں سا ئنس کا یہ حق تسلیم کر لیا گیا توچاند کو صرف دیکھنے ہی نہیں بلکہ اسے دیکھ کر رمضان کے آغاز و اختتام اور عید شب برات منانے کا حق بھی علما کے ہاتھ سے نکل کر سائنس دانوں یا یوں کہہ لیجیے کہ ریاست کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے گا، بس یہی بات ہے جہاں سے جھگڑا شروع ہوتا ہے اور لوگوں کو ایوب عہد کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے جب اس ملک کے بڑے بڑے علما کی عید جیل میں گزری۔
ایوب خان کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا جب یہ امکان پیدا ہوا کہ عید کہیں جمعے کے روز نہ ہو جائے۔ایک دن میں دو خطبے موجودہ دور کی طرح اُس زمانے میں بھی حکمران پر بھاری سمجھے جاتے تھے۔
اس وہم نے اپنے عہد کے سب سے روشن خیال حکمراں کی نیند حرام کر دی ، کارکنان’’قضا و قدر‘‘ حرکت میں آئے اور انھوں نے کچھ ایسی تگڑم لڑائی کہ عید ایک روز پہلے ہوگئی اور حکمران ’’محفوظ ‘‘ہو گیا۔کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ یہی خطرہ بعد میں آنے والے ایک روشن خیال حکمران کو بھی محسوس ہوا تو رویت ہلال کمیٹی والے جھٹ پٹ اعلان کر کے ایسے روپوش ہوئے بڑے بڑوں کو خبر نہ ہو سکی۔علما کا خیال ہے کہ یہ دینی معاملات اگر محض سائنس کے نام پر ہی ایک بار ریاست کے ہاتھ میں آگئے تو اس کے نتیجے میں امور دینیہ مذاق بن کر رہ جائیں گے۔یہ خدشہ پہاڑ سے بھی زیادہ وزن رکھتا ہے جس پر دینی حلقوں کی فکر مندی قابل فہم ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ایک خطرہ اور بھی پیدا ہو گیا ہے ، ہمارے دینی طبقات کی نگاہ اس پر شاید نہیں ہے۔
قومی رویت ہلال کمیٹی اور مسجد قاسم علی خان کمیٹی کے چاند دیکھنے کے طریقوں میں ایک فرق بہت نمایاں ہے۔ مسجد قاسم علی خان میں چاند دیکھنے کے لیے شہاد ت وغیرہ کا تکلف بھی کیا جاتا ہے لیکن زمینی حقائق عام طور پر مختلف ہوتے ہیں۔اس مرحلے پر اس مسجد کے ذمے داران کا ایک اور موقف سامنے آتا ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے یہ روایت چلی آتی ہے کہ اس خطے میں چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا اعلان اسی مسجد سے کیا جاتا ہے، یہ روایت کسی حکمران کی خواہش پر کس طرح ترک کی جاسکتی ہے۔اس کے مقابلے میں قومی رویت ہلال کمیٹی کا طریقہ زیادہ شفاف اور سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔یوں مسجد قاسم علی خان کے مقابلے میں رویت ہلال کمیٹی زیادہ قابل قبول ہے لیکن فواد چوہدری کے آنے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
وہ جب چاند کے دیکھنے کے ضمن میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے استفادے کی بات کرتے ہیں تو رویت ہلال کمیٹی کے ارکان سمیت علما کا ایک بڑا طبقہ مسجد قاسم علی خان والوں کی طرح ہی مزاحمت کرتا ہے۔اب کوئی اس بات کو پسند کر یا نہ کرے لیکن حقیقت یہی ہے ہمارے جدید ذہن اور خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانو ں کو ان کی بات اپیل کر تی ہے اور اس معاملے میں وہ رویت ہلال کمیٹی اور مسجد قاسم علی خان کے لوگوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔
یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے علمائے کرام کو اس صورت حال کی کتنی خبر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دینی حلقوں کی طرف سے جدید تحقیق کے مقابلے میں جب پرانی روایات پر اصرار کیا جاتا ہے تو اس مرحلے پر خاصے دین دار گھرانوں کی نئی نسل بھی ان کی ہم نوا نہیں ہوتی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نوجوان دین کے باغی ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ امور دینیہ کے فیصلوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ میرا یہ احساس ہے کہ ہمارے دینی طبقات جب آئین نو کی مزاحمت اورطرز کہن پر جمے رہنے پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وہ خود کو پڑھے لکھے طبقات ، خاص طور پر نوجوانوں میں تنہا کر لیتے ہیں۔
یہ صورت حال ایک بڑے تہذیبی خطرے کی صورت میں ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے ، ہمارے دینی طبقات نے اس مرحلے پر بھی اگر ماضی کی روایات کے مطابق بے لچک طرز عمل اختیار کیا تو یہ عمل تیز ہو جائے گا۔ حال ہی میں کورونا کی وبا کے موقع پر دینی طبقات نے اپنے انداز فکر سے خود کو تنہا کیا ہے۔کورونا تو چلیے اس بار آیاہے ، کچھ دنوں بعد چلا جائے گا لیکن رمضا ن اور عید کا چاند تو ہر سال یہ بدمزگی پیدا کرے گا اور لوگوں کو دینی طبقات سے دور کرنے کا باعث بنے گا۔اس لیے ضرور ی ہے کہ ہمارے دینی طبقات اس معاملے میں جہاں بالغ نظری سے کام لیں ، وہیں حکومت کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ دینی امور کے تقدس کو برقرار رکھنے کا اہتمام کرے، کیوں کہ سائنس کی بالادستی کے نام پر علما کی تضحیک سے بات بنے گی نہیں بلکہ زیادہ بگڑ جائے گی۔