Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
یاسر اختر کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ وہ بطور چائلڈ اسٹار متعارف ہوئے اور پھر بطور سنگر ، ایکٹر، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر، اور اسکرپٹ رائٹر انھوں نے جو کام بھی کیا وہ بڑ ی جدت کے ساتھ کیا۔ پاکستان میں میوزک چینل چارٹس کے نام سے یاسر اختر نے ایک شو پیش کیا جس میں ندیم جعفری، فخر عالم اور کومل رضوی سمیت بہت سے بڑے سنگر متعارف ہوئے ۔ پھر جویریہ عباسی، ہمایوں سعید ، ندا یاسر ، زارا شیخ ، طوبیٰ صدیقی ، شمعون عباسی، اور ارمینا خان جیسے سپر اسٹارز کو لانچ کرنے کا سہرا بھی یاسر اختر کے سر جاتا ہے۔ ایریڈ زون میوزک بینڈ سے لے کر میوزک چینل چارٹس اور ٹپال سینما تک یاسر کا سی وی بھرا پڑا ہے۔
ڈراموں کی بات کی جائے تو “جائیں کہاں ارمان، سرد آگ اور لاحاصل ” “میرا گھر ایک ورل پول” جیسے سیریل ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ یو کے منتقل ہونے کے بعد بھی یاسر اختر نے اپنی رفتار کم نہیں ہونے دی، انھوں نے برٹش ایشین میڈیا انڈسٹری میں نا صرف بھرپور کام جاری رکھا بلکہ اپاچی انڈین، اسٹیریو نیشن، اور سہارا گروپس کے ساتھ بھی جوائنٹ وینچرزکیے۔ یاسر کے اپنے گائے ہوئے گیت ب لا تعداد گیت بھی آج تک زبان زدِ عام ہیں۔ وہ 2014 سے پاکستان قونصل خانے کے تعاون سے پاکستان پریڈ بھی کرتے آرہے ہیں ۔ یو کے میں رہتے ہوے ان کے گیتوں ۔ ” سنسنی” اور ” ٹیک اٹ ایزی” نے بھی خوب دھوم مچائی۔
اس عید پر یاسر فلمسازوں کی فہرست میں بھی شامل ہوگئے ہیں اور بطور پروڈیوسر اینڈ ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم “آزاد” پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوئی ہے۔ اگر چہ کورونا کی وبا ء کے باعث فلم سینما گھروں کی زینت نہیں ہے، لہٰذا اسے ٹی وی پر لانچ کیا گیا ہے، یو کے میں شوٹ ہونے والی اس فلم میں یاسر اختر کے علاوہ پروین اکبر، مومل شیخ ، گگن چوپڑا اور عمران علی اسد نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ لندن کی سخت سردیوں میں اس فلم کو مکمل طور پر لندن میں ہی شوٹ کیا گیا ہے، ملٹی نیشنل فلمز کے بینر تلے ، موشن کانٹینٹ گروپ اور یاسر کی کمپنی پگاسس کا یہ پہلا مشترکہ فلمی پروجیکٹ ہے، مگر بقول یاسر کے یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے اور بقر عید پر ریلیز کے لئے ان کی دوسری فلم بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، آزاد، میں جہاں ناظرین نئے چہروں کے جھرمٹ میں پروین اکبر جیسی کہنہ مشق اور مومل شیخ جیسی گلیمرس بیوٹی کوئن کو اپنی فنی زندگی کے بہترین اور اچھوتے کردار کرتا دیکھیں گے وہیں یاسر اختر خود بھی ایک چونکا دینے والے کردار میں جلوہ گر ہیں، یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ فلم میں یاسر کے مقبول ترین گیت “سائیاں ” کو بھی بطور ٹائٹل سانگ خوبصورتی سے عکسبند کیا گیا ہے۔فلم میں پروین اکبر مہرو کے روپ میں پاکستان سے اس وقت یوکے منتقل ہوتی دکھائی گئی ہیں جب ان کا دیور ان کے شوہر کو قتل کر دیتا ہے، وہاں رہتے ہوئے وہ اپنے دونوں بیٹوں، آزر اور آزاد (یاسر اختر) کی پرورش بڑی محنت سے کرتی ہیں،یہ دونوں مقامی طور پر بہت اچھے تعلقات کے حامل ہوتے ہیں، مومل شیخ ان کی پڑوسن یاسمین کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں، یاسمین اپنے باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس کی ماںنکولا نے اس سے کئی حقائق چھپا رکھے ہیں،فلم میں اصل موڑ تب آتا ہے، جب آزر کا کزن دلاور،(عمران علی اسد ) انٹری دیتا ہے،دلاور اس فیملی کے ہر معاملے میں مداخلت کرتا ہے، فلم آزاد میں ، ایکشن تھرل، ڈرامہ اور سسپنس سمیت مزاح کے پہلووں کو بھی انتہائی خوبی کے ساتھ ٹریٹ کیا گیا ہے،
یاسر اختر نے اپنی اہلیہ لبنی اختر کے ساتھ مل کر پگاسس پروڈکشنز کے بینر تلے بھی ملک میں اور ملک سے باہر متعدد کامیاب پروجیکٹس کئے ہیں، اور بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر لبنی ہر موڑ پر ان کے شانہ بشانہ رہی ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ اپنے پروجیکٹس کی اسکرپٹنگ میں، یاسر ہمیشہ خود بھی پیش پیش رہے ہیں، چنانچہ، آزاد کی اسکرپٹنگ میں مصنفہ رومی زاہد کو یاسر کی اس خاصیت سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملتا رہا، اسد محمد خان ، حمید کاشمیری ، سیما غزل اور زبیر عباسی جیسے رائٹرز کی صحبت میں یاسر نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا نچوڑ ناظرین کو آزاد میں نظر آے گا، فلم کا کیمرا ورک، حیات خان اور کریم آئزک کی صلاحیتوں کا عکاس ہے، ساونڈ ریکارڈنگ میں، زاہد طرفدار اور حرا تحسین کی کاوشوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا، ٹیم آزاد کو جہاں فلم کی ریلیز کی بے انتہا خوشی ہے، وہیں انہیں یہ ملال بھی ہے کہ اس کی ریلیز سے قبل کینسر سے لڑتے لڑتے اس کی مصنفہ رومی زاہد اس دار فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔
مضبوط اسکرپٹ، شاندار لوکیشنز، بہترین عکاسی اور دلوں کو چھو لینے والی کہانی سے سجی فلم آزاد کی ریلیز کے ساتھ ہی
ٹی وی پر فلموں کی ریلیز کا سلسلہ شروع کرنے کا کریڈٹ بھی یاسر نے اپنے سر پر سجا لیا ہے، اور آنے والے دنوں میں ان سوالات کے جوابات بھی سامنے آ جائیں گے کہ ایسے تجربات کس حد تک مالی منفعت کا باعث ہوسکتے ہیں، کیا دیگر فلمساز بھی یاسر اختر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سینما انڈسٹری کو نا سہی، فلم انڈسٹری کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے یا نہیں؟ جلد یہ پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جاے گا۔
یو کے میں بیٹھ کر آزاد بنانے کا خیال یاسر اختر کو آخر کیوں آگیا اس کا جواب تو یقینا” یہ ہے کہ اپنے ملک کی ثقافت کو ہمیشہ پروموٹ کرنے والے یاسر اب یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل اجاگر کرنے کے مشن پر ہیں۔ اور انہوں نے یو کے میں بیٹھ کر فلم آزاد کی شکل میں ایک اور چھکا مارا ہے ۔ کورونا کے باعث ہمارے فلمساز پریشان ہیں ، سینما انڈسٹری مایوس ہے ، ایسے میں آزاد کی ٹی وی لانچنگ کو اندھیرے میں روشنی کی پہلی کرن سمجھا جا سکتا ہے۔
یاسر نے گگن چوپڑا اور عمران علی اسد کو یو کے سے کاسٹ کرکے دیار غیر میں بھی نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کا مشن جاری رکھا ہوا ہے،فلم کے لیے بطور ہیروئن ان کو کوئی برٹش پاکستانی لڑکی بھی مل سکتی تھی ۔ مگر مرکزی کردار کیلئے انہوں نے پاکستان سے بلا کر مومل شیخ کا ہی انتخاب اس لئے کیا کیونکہ وہ اپنے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو بھی انٹرنیشنل ایکسپوژر دینا چاہتے ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے مشہور ٹی وی سیریل “جائیں کہاں ارمان ” کا بھی ری میک بنا رہے ہیں ، اسے فلم کی طرز پر منتقل کر رہے ہیں، یا ارمان کے مرکزی کردار کو نئے روپ میں سامنے لا کر کوئی ڈڑامہ پروڈیوس کرنے والے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے تفصیلات عنقریب جاری کرنے کا سرپرائز رکھ چھوڑا ہے
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ، میوزک ہو ، ڈرامہ یا اب فلم، یاسر کے فٹ اسٹیپس کو فالو کیا جاتا ہے ۔ وہ جو کام بھی کرتے ہیں وہ ایک برانڈ بن جاتا ہے۔ انہوں نے آزاد نامی اپنی اس پہلی فلم کو ٹی وی پر لانچ کرنے کی سوچ دی ہے، جو نئے پرڈیوسرز یہ تجربہ کرنا چاہیں تو ان کے لئے راہوں کا تعین یاسر نے بہرحال کر دیا ہے۔
یاسر اختر کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ وہ بطور چائلڈ اسٹار متعارف ہوئے اور پھر بطور سنگر ، ایکٹر، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر، اور اسکرپٹ رائٹر انھوں نے جو کام بھی کیا وہ بڑ ی جدت کے ساتھ کیا۔ پاکستان میں میوزک چینل چارٹس کے نام سے یاسر اختر نے ایک شو پیش کیا جس میں ندیم جعفری، فخر عالم اور کومل رضوی سمیت بہت سے بڑے سنگر متعارف ہوئے ۔ پھر جویریہ عباسی، ہمایوں سعید ، ندا یاسر ، زارا شیخ ، طوبیٰ صدیقی ، شمعون عباسی، اور ارمینا خان جیسے سپر اسٹارز کو لانچ کرنے کا سہرا بھی یاسر اختر کے سر جاتا ہے۔ ایریڈ زون میوزک بینڈ سے لے کر میوزک چینل چارٹس اور ٹپال سینما تک یاسر کا سی وی بھرا پڑا ہے۔
ڈراموں کی بات کی جائے تو “جائیں کہاں ارمان، سرد آگ اور لاحاصل ” “میرا گھر ایک ورل پول” جیسے سیریل ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ یو کے منتقل ہونے کے بعد بھی یاسر اختر نے اپنی رفتار کم نہیں ہونے دی، انھوں نے برٹش ایشین میڈیا انڈسٹری میں نا صرف بھرپور کام جاری رکھا بلکہ اپاچی انڈین، اسٹیریو نیشن، اور سہارا گروپس کے ساتھ بھی جوائنٹ وینچرزکیے۔ یاسر کے اپنے گائے ہوئے گیت ب لا تعداد گیت بھی آج تک زبان زدِ عام ہیں۔ وہ 2014 سے پاکستان قونصل خانے کے تعاون سے پاکستان پریڈ بھی کرتے آرہے ہیں ۔ یو کے میں رہتے ہوے ان کے گیتوں ۔ ” سنسنی” اور ” ٹیک اٹ ایزی” نے بھی خوب دھوم مچائی۔
اس عید پر یاسر فلمسازوں کی فہرست میں بھی شامل ہوگئے ہیں اور بطور پروڈیوسر اینڈ ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم “آزاد” پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوئی ہے۔ اگر چہ کورونا کی وبا ء کے باعث فلم سینما گھروں کی زینت نہیں ہے، لہٰذا اسے ٹی وی پر لانچ کیا گیا ہے، یو کے میں شوٹ ہونے والی اس فلم میں یاسر اختر کے علاوہ پروین اکبر، مومل شیخ ، گگن چوپڑا اور عمران علی اسد نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ لندن کی سخت سردیوں میں اس فلم کو مکمل طور پر لندن میں ہی شوٹ کیا گیا ہے، ملٹی نیشنل فلمز کے بینر تلے ، موشن کانٹینٹ گروپ اور یاسر کی کمپنی پگاسس کا یہ پہلا مشترکہ فلمی پروجیکٹ ہے، مگر بقول یاسر کے یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے اور بقر عید پر ریلیز کے لئے ان کی دوسری فلم بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، آزاد، میں جہاں ناظرین نئے چہروں کے جھرمٹ میں پروین اکبر جیسی کہنہ مشق اور مومل شیخ جیسی گلیمرس بیوٹی کوئن کو اپنی فنی زندگی کے بہترین اور اچھوتے کردار کرتا دیکھیں گے وہیں یاسر اختر خود بھی ایک چونکا دینے والے کردار میں جلوہ گر ہیں، یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ فلم میں یاسر کے مقبول ترین گیت “سائیاں ” کو بھی بطور ٹائٹل سانگ خوبصورتی سے عکسبند کیا گیا ہے۔فلم میں پروین اکبر مہرو کے روپ میں پاکستان سے اس وقت یوکے منتقل ہوتی دکھائی گئی ہیں جب ان کا دیور ان کے شوہر کو قتل کر دیتا ہے، وہاں رہتے ہوئے وہ اپنے دونوں بیٹوں، آزر اور آزاد (یاسر اختر) کی پرورش بڑی محنت سے کرتی ہیں،یہ دونوں مقامی طور پر بہت اچھے تعلقات کے حامل ہوتے ہیں، مومل شیخ ان کی پڑوسن یاسمین کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں، یاسمین اپنے باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس کی ماںنکولا نے اس سے کئی حقائق چھپا رکھے ہیں،فلم میں اصل موڑ تب آتا ہے، جب آزر کا کزن دلاور،(عمران علی اسد ) انٹری دیتا ہے،دلاور اس فیملی کے ہر معاملے میں مداخلت کرتا ہے، فلم آزاد میں ، ایکشن تھرل، ڈرامہ اور سسپنس سمیت مزاح کے پہلووں کو بھی انتہائی خوبی کے ساتھ ٹریٹ کیا گیا ہے،
یاسر اختر نے اپنی اہلیہ لبنی اختر کے ساتھ مل کر پگاسس پروڈکشنز کے بینر تلے بھی ملک میں اور ملک سے باہر متعدد کامیاب پروجیکٹس کئے ہیں، اور بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر لبنی ہر موڑ پر ان کے شانہ بشانہ رہی ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ اپنے پروجیکٹس کی اسکرپٹنگ میں، یاسر ہمیشہ خود بھی پیش پیش رہے ہیں، چنانچہ، آزاد کی اسکرپٹنگ میں مصنفہ رومی زاہد کو یاسر کی اس خاصیت سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملتا رہا، اسد محمد خان ، حمید کاشمیری ، سیما غزل اور زبیر عباسی جیسے رائٹرز کی صحبت میں یاسر نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا نچوڑ ناظرین کو آزاد میں نظر آے گا، فلم کا کیمرا ورک، حیات خان اور کریم آئزک کی صلاحیتوں کا عکاس ہے، ساونڈ ریکارڈنگ میں، زاہد طرفدار اور حرا تحسین کی کاوشوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا، ٹیم آزاد کو جہاں فلم کی ریلیز کی بے انتہا خوشی ہے، وہیں انہیں یہ ملال بھی ہے کہ اس کی ریلیز سے قبل کینسر سے لڑتے لڑتے اس کی مصنفہ رومی زاہد اس دار فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔
مضبوط اسکرپٹ، شاندار لوکیشنز، بہترین عکاسی اور دلوں کو چھو لینے والی کہانی سے سجی فلم آزاد کی ریلیز کے ساتھ ہی
ٹی وی پر فلموں کی ریلیز کا سلسلہ شروع کرنے کا کریڈٹ بھی یاسر نے اپنے سر پر سجا لیا ہے، اور آنے والے دنوں میں ان سوالات کے جوابات بھی سامنے آ جائیں گے کہ ایسے تجربات کس حد تک مالی منفعت کا باعث ہوسکتے ہیں، کیا دیگر فلمساز بھی یاسر اختر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سینما انڈسٹری کو نا سہی، فلم انڈسٹری کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے یا نہیں؟ جلد یہ پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جاے گا۔
یو کے میں بیٹھ کر آزاد بنانے کا خیال یاسر اختر کو آخر کیوں آگیا اس کا جواب تو یقینا” یہ ہے کہ اپنے ملک کی ثقافت کو ہمیشہ پروموٹ کرنے والے یاسر اب یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل اجاگر کرنے کے مشن پر ہیں۔ اور انہوں نے یو کے میں بیٹھ کر فلم آزاد کی شکل میں ایک اور چھکا مارا ہے ۔ کورونا کے باعث ہمارے فلمساز پریشان ہیں ، سینما انڈسٹری مایوس ہے ، ایسے میں آزاد کی ٹی وی لانچنگ کو اندھیرے میں روشنی کی پہلی کرن سمجھا جا سکتا ہے۔
یاسر نے گگن چوپڑا اور عمران علی اسد کو یو کے سے کاسٹ کرکے دیار غیر میں بھی نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کا مشن جاری رکھا ہوا ہے،فلم کے لیے بطور ہیروئن ان کو کوئی برٹش پاکستانی لڑکی بھی مل سکتی تھی ۔ مگر مرکزی کردار کیلئے انہوں نے پاکستان سے بلا کر مومل شیخ کا ہی انتخاب اس لئے کیا کیونکہ وہ اپنے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو بھی انٹرنیشنل ایکسپوژر دینا چاہتے ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے مشہور ٹی وی سیریل “جائیں کہاں ارمان ” کا بھی ری میک بنا رہے ہیں ، اسے فلم کی طرز پر منتقل کر رہے ہیں، یا ارمان کے مرکزی کردار کو نئے روپ میں سامنے لا کر کوئی ڈڑامہ پروڈیوس کرنے والے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے تفصیلات عنقریب جاری کرنے کا سرپرائز رکھ چھوڑا ہے
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ، میوزک ہو ، ڈرامہ یا اب فلم، یاسر کے فٹ اسٹیپس کو فالو کیا جاتا ہے ۔ وہ جو کام بھی کرتے ہیں وہ ایک برانڈ بن جاتا ہے۔ انہوں نے آزاد نامی اپنی اس پہلی فلم کو ٹی وی پر لانچ کرنے کی سوچ دی ہے، جو نئے پرڈیوسرز یہ تجربہ کرنا چاہیں تو ان کے لئے راہوں کا تعین یاسر نے بہرحال کر دیا ہے۔
یاسر اختر کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ وہ بطور چائلڈ اسٹار متعارف ہوئے اور پھر بطور سنگر ، ایکٹر، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر، اور اسکرپٹ رائٹر انھوں نے جو کام بھی کیا وہ بڑ ی جدت کے ساتھ کیا۔ پاکستان میں میوزک چینل چارٹس کے نام سے یاسر اختر نے ایک شو پیش کیا جس میں ندیم جعفری، فخر عالم اور کومل رضوی سمیت بہت سے بڑے سنگر متعارف ہوئے ۔ پھر جویریہ عباسی، ہمایوں سعید ، ندا یاسر ، زارا شیخ ، طوبیٰ صدیقی ، شمعون عباسی، اور ارمینا خان جیسے سپر اسٹارز کو لانچ کرنے کا سہرا بھی یاسر اختر کے سر جاتا ہے۔ ایریڈ زون میوزک بینڈ سے لے کر میوزک چینل چارٹس اور ٹپال سینما تک یاسر کا سی وی بھرا پڑا ہے۔
ڈراموں کی بات کی جائے تو “جائیں کہاں ارمان، سرد آگ اور لاحاصل ” “میرا گھر ایک ورل پول” جیسے سیریل ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ یو کے منتقل ہونے کے بعد بھی یاسر اختر نے اپنی رفتار کم نہیں ہونے دی، انھوں نے برٹش ایشین میڈیا انڈسٹری میں نا صرف بھرپور کام جاری رکھا بلکہ اپاچی انڈین، اسٹیریو نیشن، اور سہارا گروپس کے ساتھ بھی جوائنٹ وینچرزکیے۔ یاسر کے اپنے گائے ہوئے گیت ب لا تعداد گیت بھی آج تک زبان زدِ عام ہیں۔ وہ 2014 سے پاکستان قونصل خانے کے تعاون سے پاکستان پریڈ بھی کرتے آرہے ہیں ۔ یو کے میں رہتے ہوے ان کے گیتوں ۔ ” سنسنی” اور ” ٹیک اٹ ایزی” نے بھی خوب دھوم مچائی۔
اس عید پر یاسر فلمسازوں کی فہرست میں بھی شامل ہوگئے ہیں اور بطور پروڈیوسر اینڈ ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم “آزاد” پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوئی ہے۔ اگر چہ کورونا کی وبا ء کے باعث فلم سینما گھروں کی زینت نہیں ہے، لہٰذا اسے ٹی وی پر لانچ کیا گیا ہے، یو کے میں شوٹ ہونے والی اس فلم میں یاسر اختر کے علاوہ پروین اکبر، مومل شیخ ، گگن چوپڑا اور عمران علی اسد نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ لندن کی سخت سردیوں میں اس فلم کو مکمل طور پر لندن میں ہی شوٹ کیا گیا ہے، ملٹی نیشنل فلمز کے بینر تلے ، موشن کانٹینٹ گروپ اور یاسر کی کمپنی پگاسس کا یہ پہلا مشترکہ فلمی پروجیکٹ ہے، مگر بقول یاسر کے یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے اور بقر عید پر ریلیز کے لئے ان کی دوسری فلم بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، آزاد، میں جہاں ناظرین نئے چہروں کے جھرمٹ میں پروین اکبر جیسی کہنہ مشق اور مومل شیخ جیسی گلیمرس بیوٹی کوئن کو اپنی فنی زندگی کے بہترین اور اچھوتے کردار کرتا دیکھیں گے وہیں یاسر اختر خود بھی ایک چونکا دینے والے کردار میں جلوہ گر ہیں، یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ فلم میں یاسر کے مقبول ترین گیت “سائیاں ” کو بھی بطور ٹائٹل سانگ خوبصورتی سے عکسبند کیا گیا ہے۔فلم میں پروین اکبر مہرو کے روپ میں پاکستان سے اس وقت یوکے منتقل ہوتی دکھائی گئی ہیں جب ان کا دیور ان کے شوہر کو قتل کر دیتا ہے، وہاں رہتے ہوئے وہ اپنے دونوں بیٹوں، آزر اور آزاد (یاسر اختر) کی پرورش بڑی محنت سے کرتی ہیں،یہ دونوں مقامی طور پر بہت اچھے تعلقات کے حامل ہوتے ہیں، مومل شیخ ان کی پڑوسن یاسمین کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں، یاسمین اپنے باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس کی ماںنکولا نے اس سے کئی حقائق چھپا رکھے ہیں،فلم میں اصل موڑ تب آتا ہے، جب آزر کا کزن دلاور،(عمران علی اسد ) انٹری دیتا ہے،دلاور اس فیملی کے ہر معاملے میں مداخلت کرتا ہے، فلم آزاد میں ، ایکشن تھرل، ڈرامہ اور سسپنس سمیت مزاح کے پہلووں کو بھی انتہائی خوبی کے ساتھ ٹریٹ کیا گیا ہے،
یاسر اختر نے اپنی اہلیہ لبنی اختر کے ساتھ مل کر پگاسس پروڈکشنز کے بینر تلے بھی ملک میں اور ملک سے باہر متعدد کامیاب پروجیکٹس کئے ہیں، اور بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر لبنی ہر موڑ پر ان کے شانہ بشانہ رہی ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ اپنے پروجیکٹس کی اسکرپٹنگ میں، یاسر ہمیشہ خود بھی پیش پیش رہے ہیں، چنانچہ، آزاد کی اسکرپٹنگ میں مصنفہ رومی زاہد کو یاسر کی اس خاصیت سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملتا رہا، اسد محمد خان ، حمید کاشمیری ، سیما غزل اور زبیر عباسی جیسے رائٹرز کی صحبت میں یاسر نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا نچوڑ ناظرین کو آزاد میں نظر آے گا، فلم کا کیمرا ورک، حیات خان اور کریم آئزک کی صلاحیتوں کا عکاس ہے، ساونڈ ریکارڈنگ میں، زاہد طرفدار اور حرا تحسین کی کاوشوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا، ٹیم آزاد کو جہاں فلم کی ریلیز کی بے انتہا خوشی ہے، وہیں انہیں یہ ملال بھی ہے کہ اس کی ریلیز سے قبل کینسر سے لڑتے لڑتے اس کی مصنفہ رومی زاہد اس دار فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔
مضبوط اسکرپٹ، شاندار لوکیشنز، بہترین عکاسی اور دلوں کو چھو لینے والی کہانی سے سجی فلم آزاد کی ریلیز کے ساتھ ہی
ٹی وی پر فلموں کی ریلیز کا سلسلہ شروع کرنے کا کریڈٹ بھی یاسر نے اپنے سر پر سجا لیا ہے، اور آنے والے دنوں میں ان سوالات کے جوابات بھی سامنے آ جائیں گے کہ ایسے تجربات کس حد تک مالی منفعت کا باعث ہوسکتے ہیں، کیا دیگر فلمساز بھی یاسر اختر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سینما انڈسٹری کو نا سہی، فلم انڈسٹری کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے یا نہیں؟ جلد یہ پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جاے گا۔
یو کے میں بیٹھ کر آزاد بنانے کا خیال یاسر اختر کو آخر کیوں آگیا اس کا جواب تو یقینا” یہ ہے کہ اپنے ملک کی ثقافت کو ہمیشہ پروموٹ کرنے والے یاسر اب یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل اجاگر کرنے کے مشن پر ہیں۔ اور انہوں نے یو کے میں بیٹھ کر فلم آزاد کی شکل میں ایک اور چھکا مارا ہے ۔ کورونا کے باعث ہمارے فلمساز پریشان ہیں ، سینما انڈسٹری مایوس ہے ، ایسے میں آزاد کی ٹی وی لانچنگ کو اندھیرے میں روشنی کی پہلی کرن سمجھا جا سکتا ہے۔
یاسر نے گگن چوپڑا اور عمران علی اسد کو یو کے سے کاسٹ کرکے دیار غیر میں بھی نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کا مشن جاری رکھا ہوا ہے،فلم کے لیے بطور ہیروئن ان کو کوئی برٹش پاکستانی لڑکی بھی مل سکتی تھی ۔ مگر مرکزی کردار کیلئے انہوں نے پاکستان سے بلا کر مومل شیخ کا ہی انتخاب اس لئے کیا کیونکہ وہ اپنے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو بھی انٹرنیشنل ایکسپوژر دینا چاہتے ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے مشہور ٹی وی سیریل “جائیں کہاں ارمان ” کا بھی ری میک بنا رہے ہیں ، اسے فلم کی طرز پر منتقل کر رہے ہیں، یا ارمان کے مرکزی کردار کو نئے روپ میں سامنے لا کر کوئی ڈڑامہ پروڈیوس کرنے والے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے تفصیلات عنقریب جاری کرنے کا سرپرائز رکھ چھوڑا ہے
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ، میوزک ہو ، ڈرامہ یا اب فلم، یاسر کے فٹ اسٹیپس کو فالو کیا جاتا ہے ۔ وہ جو کام بھی کرتے ہیں وہ ایک برانڈ بن جاتا ہے۔ انہوں نے آزاد نامی اپنی اس پہلی فلم کو ٹی وی پر لانچ کرنے کی سوچ دی ہے، جو نئے پرڈیوسرز یہ تجربہ کرنا چاہیں تو ان کے لئے راہوں کا تعین یاسر نے بہرحال کر دیا ہے۔
یاسر اختر کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ وہ بطور چائلڈ اسٹار متعارف ہوئے اور پھر بطور سنگر ، ایکٹر، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر، اور اسکرپٹ رائٹر انھوں نے جو کام بھی کیا وہ بڑ ی جدت کے ساتھ کیا۔ پاکستان میں میوزک چینل چارٹس کے نام سے یاسر اختر نے ایک شو پیش کیا جس میں ندیم جعفری، فخر عالم اور کومل رضوی سمیت بہت سے بڑے سنگر متعارف ہوئے ۔ پھر جویریہ عباسی، ہمایوں سعید ، ندا یاسر ، زارا شیخ ، طوبیٰ صدیقی ، شمعون عباسی، اور ارمینا خان جیسے سپر اسٹارز کو لانچ کرنے کا سہرا بھی یاسر اختر کے سر جاتا ہے۔ ایریڈ زون میوزک بینڈ سے لے کر میوزک چینل چارٹس اور ٹپال سینما تک یاسر کا سی وی بھرا پڑا ہے۔
ڈراموں کی بات کی جائے تو “جائیں کہاں ارمان، سرد آگ اور لاحاصل ” “میرا گھر ایک ورل پول” جیسے سیریل ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ یو کے منتقل ہونے کے بعد بھی یاسر اختر نے اپنی رفتار کم نہیں ہونے دی، انھوں نے برٹش ایشین میڈیا انڈسٹری میں نا صرف بھرپور کام جاری رکھا بلکہ اپاچی انڈین، اسٹیریو نیشن، اور سہارا گروپس کے ساتھ بھی جوائنٹ وینچرزکیے۔ یاسر کے اپنے گائے ہوئے گیت ب لا تعداد گیت بھی آج تک زبان زدِ عام ہیں۔ وہ 2014 سے پاکستان قونصل خانے کے تعاون سے پاکستان پریڈ بھی کرتے آرہے ہیں ۔ یو کے میں رہتے ہوے ان کے گیتوں ۔ ” سنسنی” اور ” ٹیک اٹ ایزی” نے بھی خوب دھوم مچائی۔
اس عید پر یاسر فلمسازوں کی فہرست میں بھی شامل ہوگئے ہیں اور بطور پروڈیوسر اینڈ ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم “آزاد” پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوئی ہے۔ اگر چہ کورونا کی وبا ء کے باعث فلم سینما گھروں کی زینت نہیں ہے، لہٰذا اسے ٹی وی پر لانچ کیا گیا ہے، یو کے میں شوٹ ہونے والی اس فلم میں یاسر اختر کے علاوہ پروین اکبر، مومل شیخ ، گگن چوپڑا اور عمران علی اسد نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ لندن کی سخت سردیوں میں اس فلم کو مکمل طور پر لندن میں ہی شوٹ کیا گیا ہے، ملٹی نیشنل فلمز کے بینر تلے ، موشن کانٹینٹ گروپ اور یاسر کی کمپنی پگاسس کا یہ پہلا مشترکہ فلمی پروجیکٹ ہے، مگر بقول یاسر کے یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے اور بقر عید پر ریلیز کے لئے ان کی دوسری فلم بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، آزاد، میں جہاں ناظرین نئے چہروں کے جھرمٹ میں پروین اکبر جیسی کہنہ مشق اور مومل شیخ جیسی گلیمرس بیوٹی کوئن کو اپنی فنی زندگی کے بہترین اور اچھوتے کردار کرتا دیکھیں گے وہیں یاسر اختر خود بھی ایک چونکا دینے والے کردار میں جلوہ گر ہیں، یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ فلم میں یاسر کے مقبول ترین گیت “سائیاں ” کو بھی بطور ٹائٹل سانگ خوبصورتی سے عکسبند کیا گیا ہے۔فلم میں پروین اکبر مہرو کے روپ میں پاکستان سے اس وقت یوکے منتقل ہوتی دکھائی گئی ہیں جب ان کا دیور ان کے شوہر کو قتل کر دیتا ہے، وہاں رہتے ہوئے وہ اپنے دونوں بیٹوں، آزر اور آزاد (یاسر اختر) کی پرورش بڑی محنت سے کرتی ہیں،یہ دونوں مقامی طور پر بہت اچھے تعلقات کے حامل ہوتے ہیں، مومل شیخ ان کی پڑوسن یاسمین کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں، یاسمین اپنے باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس کی ماںنکولا نے اس سے کئی حقائق چھپا رکھے ہیں،فلم میں اصل موڑ تب آتا ہے، جب آزر کا کزن دلاور،(عمران علی اسد ) انٹری دیتا ہے،دلاور اس فیملی کے ہر معاملے میں مداخلت کرتا ہے، فلم آزاد میں ، ایکشن تھرل، ڈرامہ اور سسپنس سمیت مزاح کے پہلووں کو بھی انتہائی خوبی کے ساتھ ٹریٹ کیا گیا ہے،
یاسر اختر نے اپنی اہلیہ لبنی اختر کے ساتھ مل کر پگاسس پروڈکشنز کے بینر تلے بھی ملک میں اور ملک سے باہر متعدد کامیاب پروجیکٹس کئے ہیں، اور بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر لبنی ہر موڑ پر ان کے شانہ بشانہ رہی ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ اپنے پروجیکٹس کی اسکرپٹنگ میں، یاسر ہمیشہ خود بھی پیش پیش رہے ہیں، چنانچہ، آزاد کی اسکرپٹنگ میں مصنفہ رومی زاہد کو یاسر کی اس خاصیت سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملتا رہا، اسد محمد خان ، حمید کاشمیری ، سیما غزل اور زبیر عباسی جیسے رائٹرز کی صحبت میں یاسر نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا نچوڑ ناظرین کو آزاد میں نظر آے گا، فلم کا کیمرا ورک، حیات خان اور کریم آئزک کی صلاحیتوں کا عکاس ہے، ساونڈ ریکارڈنگ میں، زاہد طرفدار اور حرا تحسین کی کاوشوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا، ٹیم آزاد کو جہاں فلم کی ریلیز کی بے انتہا خوشی ہے، وہیں انہیں یہ ملال بھی ہے کہ اس کی ریلیز سے قبل کینسر سے لڑتے لڑتے اس کی مصنفہ رومی زاہد اس دار فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔
مضبوط اسکرپٹ، شاندار لوکیشنز، بہترین عکاسی اور دلوں کو چھو لینے والی کہانی سے سجی فلم آزاد کی ریلیز کے ساتھ ہی
ٹی وی پر فلموں کی ریلیز کا سلسلہ شروع کرنے کا کریڈٹ بھی یاسر نے اپنے سر پر سجا لیا ہے، اور آنے والے دنوں میں ان سوالات کے جوابات بھی سامنے آ جائیں گے کہ ایسے تجربات کس حد تک مالی منفعت کا باعث ہوسکتے ہیں، کیا دیگر فلمساز بھی یاسر اختر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سینما انڈسٹری کو نا سہی، فلم انڈسٹری کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے یا نہیں؟ جلد یہ پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جاے گا۔
یو کے میں بیٹھ کر آزاد بنانے کا خیال یاسر اختر کو آخر کیوں آگیا اس کا جواب تو یقینا” یہ ہے کہ اپنے ملک کی ثقافت کو ہمیشہ پروموٹ کرنے والے یاسر اب یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل اجاگر کرنے کے مشن پر ہیں۔ اور انہوں نے یو کے میں بیٹھ کر فلم آزاد کی شکل میں ایک اور چھکا مارا ہے ۔ کورونا کے باعث ہمارے فلمساز پریشان ہیں ، سینما انڈسٹری مایوس ہے ، ایسے میں آزاد کی ٹی وی لانچنگ کو اندھیرے میں روشنی کی پہلی کرن سمجھا جا سکتا ہے۔
یاسر نے گگن چوپڑا اور عمران علی اسد کو یو کے سے کاسٹ کرکے دیار غیر میں بھی نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کا مشن جاری رکھا ہوا ہے،فلم کے لیے بطور ہیروئن ان کو کوئی برٹش پاکستانی لڑکی بھی مل سکتی تھی ۔ مگر مرکزی کردار کیلئے انہوں نے پاکستان سے بلا کر مومل شیخ کا ہی انتخاب اس لئے کیا کیونکہ وہ اپنے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو بھی انٹرنیشنل ایکسپوژر دینا چاہتے ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے مشہور ٹی وی سیریل “جائیں کہاں ارمان ” کا بھی ری میک بنا رہے ہیں ، اسے فلم کی طرز پر منتقل کر رہے ہیں، یا ارمان کے مرکزی کردار کو نئے روپ میں سامنے لا کر کوئی ڈڑامہ پروڈیوس کرنے والے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے تفصیلات عنقریب جاری کرنے کا سرپرائز رکھ چھوڑا ہے
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ، میوزک ہو ، ڈرامہ یا اب فلم، یاسر کے فٹ اسٹیپس کو فالو کیا جاتا ہے ۔ وہ جو کام بھی کرتے ہیں وہ ایک برانڈ بن جاتا ہے۔ انہوں نے آزاد نامی اپنی اس پہلی فلم کو ٹی وی پر لانچ کرنے کی سوچ دی ہے، جو نئے پرڈیوسرز یہ تجربہ کرنا چاہیں تو ان کے لئے راہوں کا تعین یاسر نے بہرحال کر دیا ہے۔