Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ADVERTISEMENT
اردو کے بہت سے نقادوں نے جدید مغربی تنقیدی تصورات کے بوجھ تلے دب کر کلاسیکی اردو شاعری کو گُل و بلبل کا فسانہ قرار دے کر یک قلم مسترد کر دیا اور کلاسیکی شعریات کے عظیم الشان خزانے سے صرفِ نظر کرتے ہوٸے کوٸلے کی کان میں گلشنِ بے خار تلاش کرتے رہے۔
مذکورہ تنقیدی رویہ تخلیق کاروں پر بھی اثر انداز ہوا جس کے نتیجے میں ایک عظیم الشان تہذیب اور اس سے جڑی ہوٸی بے مثال روایت سے رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا مگر کچھ تخلیق کار مستقل مزاجی سے اپنی تہذیبی اقدار کی بازیافت اور کھوٸے ہوٶں کی جستجو میں لگے رہے اور کلاسیکی شعری رویوں کی خوشبو سے معاصر ادب کے وجود کو مہکانے میں کامیاب رہے۔
ایسے ہی ایک شاعر احمد مشتاق ہیں۔ ناصر کاظمی کی طرح احمد مشتاق نے بھی کلاسیکی شعری روایت سے اپنا رشتہ استوار کر کے انفرادی تخلیقی تجربوں میں وسعت، گہراٸی اور گیراٸی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
احمد مشتاق کو میر تقی میر کی روایت کا شاعر قرار دیا جاتا ہے مگر احمد مشتاق روایتی یا کلاسیکی شاعری کی بازگشت بننے کی بجاٸے کلاسیکی شعری روایت کی توسیع بن کر سامنے آٸے۔
”اوراقِ خزانی“ ایک بڑے شاعر کے شعری سفر کی ڈھلتی ہوٸی شام کی کہانی ہے۔ دن کے اجالے کے مقابلے میں شام زیادہ رنگین، زیادہ بامعنی اور زیادہ پراسرار ہوتی ہے۔ پرندے پر سمیٹے ہوٸے آشیانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ڈوبتا سورج افق کے آخری کنارے پر نارنجی روشنیوں سے اس دن کی آخری نظم تخلیق کرتے ہوٸے ڈوب جاتا ہے۔ ”اوراقِ خزانی“ بھی احمد مشتاق کی شاعری کے سورج کی ڈوبتی ہوٸی روشنیوں کی کہانی ہے اس میں رنگِ ملال بھی ہے، راٸیگانی کا احساس بھی، کامرانی کی روشنی بھی اور جاودانی کی آس بھی۔ گلستانِ حیات میں موسموں کا تغیر و تبدل فطرت کی داستان سناتا ہے سبز پتوں سے زرد پتوں تک کے سفر کی کہانی احمد مشتاق کے شعری تجربے کی زینت بنی تو امید اور ناامیدی کے مابین ایک منفرد شعری تجربہ ظہور میں آیا۔
؎ تم نے دیکھے نہیں خزاں کے رنگ
بھول جاتے بہار کے انداز
یہاں خزاں کے حوالے سے ایک مثبت طرزِ فکر اور خزاں کے رنگوں میں پاٸے جانے والے تنوع کے پسِ پردہ جمالیات نے بہار کے رنگوں اور جوبَن کو مات دے دی ہے مگر خزاں بہرحال ایک ابدی حقیقت ہے۔ شاعر خزاں کے حوالے سے جڑے دکھ کو بھی رگِ جاں سے قریب تر محسوس کرتا ہے تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
؎ جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گٸیں
خزاں کے رنگوں کو جتنا بھی سراہیں وقت کا جبر بہرحال ایک زندہ حقیقت ہے۔ وقت وجود کو تہِ تیغ کرتا ہے تو شاعر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
؎ بجھ گٸی رونقِ بدن، اڑ گیا رنگِ پیرہن
جانِ امیدوارِ من، وقت بہت گزر گیا
ناصر کاظمی نے لفظ رفتگاں کو جس تسلسل سے استعمال کیا ہے اور جس طرح اس لفظ میں تہذیب کی قوت بھر دی ہے اس کے باعث یہ لفظ کھوٸے ہوٶں کی جستجو کا معتبر حوالہ بن گیا ہے بقول احمد مشتاق:
؎ رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گٸے قبریں پرانی ہو گٸیں
یا پھر وہ کہتے ہیں:
؎ اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوٸی کہیں کوٸی کہیں رہتا ہے
”اوراقِ خزانی“ میں احمد مشتاق کا ناسٹیلجیاٸی شعور دکھ کی ہلکی آنچ پر سلگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی کی طرح وہ بھی اداسی کی تخلیقی روشنی میں فطرت کے مظاہر کا نوحہ پیش کرتے ہیں:
؎ کوّے کہاں چلے گٸے، چڑیوں کو کیا ہوا
جو بولتے تھے شام و سَحر بولتے نہیں
امید کا سورج ناامیدی کے سمندر میں ڈوب تو جاتا ہے مگر فنا نہیں ہوتا اور ایک نٸی امید کی صورت میں صبحِ روشن کا اجالا پھر سے نمودار ہو جاتا ہے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی کوکھ سے امید کی ایک کرن ہمیشہ فروزاں رہتی ہے۔
؎ دل نہ میلا کرو، سوکھا نہیں سارا جنگل
ابھی اک جھنڈ سے پانی کی صدا آتی ہے
”اوراقِ خزانی“ کا شاعر راٸیگانی اور شکست و ریخت کے تجربے سے بھی گزرتا ہے۔ تلاشِ معاش میں ایک نٸی اور بہتر دنیا کی تلاش میں کامیابی کی سب سے بڑی قیمت تنہاٸی اور اداسی ہے۔ یہ ہجرت، یہ خود ساختہ جلاوطنی دن کے اختتام پر شاعر کے گوشوارے میں اداسی اور تنہاٸی کے سوا کچھ نہیں رہنے دیتی۔
؎ ہم گرے ہیں جو آ کے اتنی دور
کس نے پھینکا گھما کے اتنی دور
؎ لالہ و گل بھی اک تسلی ہے
کون آتا ہے جا کے اتنی دور
ریاست ہاٸے متحدہ امریکا میں ہجرت کے کٸی عشروں بعد احمد مشتاق پر راٸیگانی کے نٸے مفاہیم منکشف ہوٸے وہ کہتے ہیں:
؎ اس دہر کی کشادہ دری پر نہ جاٸیے
اندر قدم قدم پہ ہیں تالے پڑے ہوٸے
یا وہ کہتے ہیں:
؎ وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
راٸیگانی کا یہی احساس شاعر کے وجود کو ایک بے آباد گھر میں تبدیل کر دیتا ہے وہ کہتے ہیں:
؎ جانے کیوں چاند ٹھہر جاتا ہے چلتے چلتے
اور اس گھر پہ جو اک عمر سے آباد نہیں
”اوراقِ خزانی“ گو ڈھلتے ہوٸے سورج کا منظر نامہ پیش کرتا ہے مگر اس مجموعے کے الاٶ میں شاعر کا سماجی شعور بھی دہکتا ہوا دکھاٸی دیتا ہے ایسے اشعار میں شاعر کا استفہامیہ لہجہ سماج کے فرسودہ نظام پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
؎ ظالم تھے ماوراٸے حساب و کتاب کیا
ان پر نزولِ قہرِ خدا کیوں نہیں ہوا
؎ کوٸی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایہ نہیں رہنے دیتے
؎ پہلے بھر دیتے ہیں سامانِ دو عالم دل میں
پھر کسی شے کی تمنا نہیں رہنے دیتے
عالمگیریت کے تناظر میں احمد مشتاق کا سماجی شعور اذہان پر ایک فکر انگیز دستک ہے۔ مجموعی طور پر ”اوراقِ خزانی“ میں زندگی کی راٸیگانی کا دکھ بھی ہے اور امید کی جاودانی کا نغمہ بھی، اور شاید یہی امید اور ناامیدی کا داٸرہ ہی زندگی اور زندگی کی تفسیر ہے اور اس آفاقی داٸرے کا مرکز مثبت سوچ ہے بقول احمد مشتاق:
؎ موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جاٸے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
***
اردو کے بہت سے نقادوں نے جدید مغربی تنقیدی تصورات کے بوجھ تلے دب کر کلاسیکی اردو شاعری کو گُل و بلبل کا فسانہ قرار دے کر یک قلم مسترد کر دیا اور کلاسیکی شعریات کے عظیم الشان خزانے سے صرفِ نظر کرتے ہوٸے کوٸلے کی کان میں گلشنِ بے خار تلاش کرتے رہے۔
مذکورہ تنقیدی رویہ تخلیق کاروں پر بھی اثر انداز ہوا جس کے نتیجے میں ایک عظیم الشان تہذیب اور اس سے جڑی ہوٸی بے مثال روایت سے رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا مگر کچھ تخلیق کار مستقل مزاجی سے اپنی تہذیبی اقدار کی بازیافت اور کھوٸے ہوٶں کی جستجو میں لگے رہے اور کلاسیکی شعری رویوں کی خوشبو سے معاصر ادب کے وجود کو مہکانے میں کامیاب رہے۔
ایسے ہی ایک شاعر احمد مشتاق ہیں۔ ناصر کاظمی کی طرح احمد مشتاق نے بھی کلاسیکی شعری روایت سے اپنا رشتہ استوار کر کے انفرادی تخلیقی تجربوں میں وسعت، گہراٸی اور گیراٸی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
احمد مشتاق کو میر تقی میر کی روایت کا شاعر قرار دیا جاتا ہے مگر احمد مشتاق روایتی یا کلاسیکی شاعری کی بازگشت بننے کی بجاٸے کلاسیکی شعری روایت کی توسیع بن کر سامنے آٸے۔
”اوراقِ خزانی“ ایک بڑے شاعر کے شعری سفر کی ڈھلتی ہوٸی شام کی کہانی ہے۔ دن کے اجالے کے مقابلے میں شام زیادہ رنگین، زیادہ بامعنی اور زیادہ پراسرار ہوتی ہے۔ پرندے پر سمیٹے ہوٸے آشیانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ڈوبتا سورج افق کے آخری کنارے پر نارنجی روشنیوں سے اس دن کی آخری نظم تخلیق کرتے ہوٸے ڈوب جاتا ہے۔ ”اوراقِ خزانی“ بھی احمد مشتاق کی شاعری کے سورج کی ڈوبتی ہوٸی روشنیوں کی کہانی ہے اس میں رنگِ ملال بھی ہے، راٸیگانی کا احساس بھی، کامرانی کی روشنی بھی اور جاودانی کی آس بھی۔ گلستانِ حیات میں موسموں کا تغیر و تبدل فطرت کی داستان سناتا ہے سبز پتوں سے زرد پتوں تک کے سفر کی کہانی احمد مشتاق کے شعری تجربے کی زینت بنی تو امید اور ناامیدی کے مابین ایک منفرد شعری تجربہ ظہور میں آیا۔
؎ تم نے دیکھے نہیں خزاں کے رنگ
بھول جاتے بہار کے انداز
یہاں خزاں کے حوالے سے ایک مثبت طرزِ فکر اور خزاں کے رنگوں میں پاٸے جانے والے تنوع کے پسِ پردہ جمالیات نے بہار کے رنگوں اور جوبَن کو مات دے دی ہے مگر خزاں بہرحال ایک ابدی حقیقت ہے۔ شاعر خزاں کے حوالے سے جڑے دکھ کو بھی رگِ جاں سے قریب تر محسوس کرتا ہے تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
؎ جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گٸیں
خزاں کے رنگوں کو جتنا بھی سراہیں وقت کا جبر بہرحال ایک زندہ حقیقت ہے۔ وقت وجود کو تہِ تیغ کرتا ہے تو شاعر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
؎ بجھ گٸی رونقِ بدن، اڑ گیا رنگِ پیرہن
جانِ امیدوارِ من، وقت بہت گزر گیا
ناصر کاظمی نے لفظ رفتگاں کو جس تسلسل سے استعمال کیا ہے اور جس طرح اس لفظ میں تہذیب کی قوت بھر دی ہے اس کے باعث یہ لفظ کھوٸے ہوٶں کی جستجو کا معتبر حوالہ بن گیا ہے بقول احمد مشتاق:
؎ رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گٸے قبریں پرانی ہو گٸیں
یا پھر وہ کہتے ہیں:
؎ اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوٸی کہیں کوٸی کہیں رہتا ہے
”اوراقِ خزانی“ میں احمد مشتاق کا ناسٹیلجیاٸی شعور دکھ کی ہلکی آنچ پر سلگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی کی طرح وہ بھی اداسی کی تخلیقی روشنی میں فطرت کے مظاہر کا نوحہ پیش کرتے ہیں:
؎ کوّے کہاں چلے گٸے، چڑیوں کو کیا ہوا
جو بولتے تھے شام و سَحر بولتے نہیں
امید کا سورج ناامیدی کے سمندر میں ڈوب تو جاتا ہے مگر فنا نہیں ہوتا اور ایک نٸی امید کی صورت میں صبحِ روشن کا اجالا پھر سے نمودار ہو جاتا ہے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی کوکھ سے امید کی ایک کرن ہمیشہ فروزاں رہتی ہے۔
؎ دل نہ میلا کرو، سوکھا نہیں سارا جنگل
ابھی اک جھنڈ سے پانی کی صدا آتی ہے
”اوراقِ خزانی“ کا شاعر راٸیگانی اور شکست و ریخت کے تجربے سے بھی گزرتا ہے۔ تلاشِ معاش میں ایک نٸی اور بہتر دنیا کی تلاش میں کامیابی کی سب سے بڑی قیمت تنہاٸی اور اداسی ہے۔ یہ ہجرت، یہ خود ساختہ جلاوطنی دن کے اختتام پر شاعر کے گوشوارے میں اداسی اور تنہاٸی کے سوا کچھ نہیں رہنے دیتی۔
؎ ہم گرے ہیں جو آ کے اتنی دور
کس نے پھینکا گھما کے اتنی دور
؎ لالہ و گل بھی اک تسلی ہے
کون آتا ہے جا کے اتنی دور
ریاست ہاٸے متحدہ امریکا میں ہجرت کے کٸی عشروں بعد احمد مشتاق پر راٸیگانی کے نٸے مفاہیم منکشف ہوٸے وہ کہتے ہیں:
؎ اس دہر کی کشادہ دری پر نہ جاٸیے
اندر قدم قدم پہ ہیں تالے پڑے ہوٸے
یا وہ کہتے ہیں:
؎ وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
راٸیگانی کا یہی احساس شاعر کے وجود کو ایک بے آباد گھر میں تبدیل کر دیتا ہے وہ کہتے ہیں:
؎ جانے کیوں چاند ٹھہر جاتا ہے چلتے چلتے
اور اس گھر پہ جو اک عمر سے آباد نہیں
”اوراقِ خزانی“ گو ڈھلتے ہوٸے سورج کا منظر نامہ پیش کرتا ہے مگر اس مجموعے کے الاٶ میں شاعر کا سماجی شعور بھی دہکتا ہوا دکھاٸی دیتا ہے ایسے اشعار میں شاعر کا استفہامیہ لہجہ سماج کے فرسودہ نظام پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
؎ ظالم تھے ماوراٸے حساب و کتاب کیا
ان پر نزولِ قہرِ خدا کیوں نہیں ہوا
؎ کوٸی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایہ نہیں رہنے دیتے
؎ پہلے بھر دیتے ہیں سامانِ دو عالم دل میں
پھر کسی شے کی تمنا نہیں رہنے دیتے
عالمگیریت کے تناظر میں احمد مشتاق کا سماجی شعور اذہان پر ایک فکر انگیز دستک ہے۔ مجموعی طور پر ”اوراقِ خزانی“ میں زندگی کی راٸیگانی کا دکھ بھی ہے اور امید کی جاودانی کا نغمہ بھی، اور شاید یہی امید اور ناامیدی کا داٸرہ ہی زندگی اور زندگی کی تفسیر ہے اور اس آفاقی داٸرے کا مرکز مثبت سوچ ہے بقول احمد مشتاق:
؎ موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جاٸے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
***