Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مصر اور اردن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو باخبر لوگوں کے لیے یہ اطلاع بے معنی تھی۔ کئی برسوں سے دونوں ممالک میں خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکا ہے ‘محض اعلان باقی ہے۔
فلسطینیوں کے دکھوں کی داستان کم ازکم ایک صدی پرمحیط ہے۔ جنگ عظیم اوّل میں ترک خلافت عثمانیہ نے مغربی ممالک کا جن کی مہار برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، ساتھ دینے کے بجائے جرمنی اور چند چھوٹے ممالک کے جنگی اتحادکے ہمرکاب ہوگیا۔خلافت عثمانیہ سے ناراض عربوں نے یہودیوں اور برطانوی حکومت کے اشتراک سے مشرق وسطیٰ سے ترکی کا بوریا بستر گھول کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جزیزہ نما عرب پر 1517سے 1917 تک ترکوں کی حکمرانی تھی۔ پورے چار سو سال کی ترک حکومت۔
عرب اتحادیوں سے برطانیہ نے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد پورے عرب کو ایک سلطنت طورپر تسلیم کرلیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سرزمین عرب کو برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ فلسطین برطانیہ کے ہاتھ لگا۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ نے مغربی ممالک میں آبادیہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرائے گا۔بلفور اعلامیہ جاری کیا گیا جسے لیگ آف نیشن نے بھی تسلیم کرلیا۔عرب ہی نہیں‘ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اگرچہ تحریک خلافت کے مخالف تھے لیکن فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادی کاری اور ان کے لیے علیحدہ وطن کے زبردست مخالف تھے۔
یورپ اور دیگر ممالک سے یہودیوں کی بڑی تعداد نے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی۔ فلسطینی مسلمانوں سے اونے پونے زمینیں ہتھیائی گئیں۔ ایسے ہی جیسے آج کل بھارت کشمیریوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے درپے ہے۔جہاں ضرورت پڑی تشدد اور ریاستی طاقت کا سہارا بھی لیاگیا۔ قیام پاکستان کے محض دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کرلیا۔اس منصوبے میں دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مشترکہ مذہبی مقامات کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا۔اگر اس منصوبے پر عمل ہوجاتا تو فلسطینی ریاست بھی معروض میں آچکی ہوتی۔عرب ممالک نے اس منصوبے کو کلی طور پر مسترد کردیا۔عرب عسکری گروہوں نے یہودیوں کو زبردستی اپنے علاقوں سے بے دخل کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کردیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔60لاکھ یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد یہودیوں کو ایک ریاست کا خواب پورا کرنے کا موقع دیا گیا۔
مئی 1948میں اسرائیل کے قیام کا رسمی اعلان کردیا گیا۔امریکہ نے اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔عرب ممالک اور نجی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ رفتہ رفتہ جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوگیا اور عرب پسپاہوتے گئے۔
1967ء میں فلسطین کے مسئلہ پر فیصلہ کن جنگ برپا ہوئی۔ندامت کا داغ مٹانے کی خاطر مصر، عراق، شام اور اردن نے مشترکہ طور پر اسرائیل سے معرکہ آرائی کی۔ چھ دونوں تک جی ہاں محض چھ دن تک جاری جنگ میں مصر کی فضائی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جنگ چھیڑنے میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا بنیادی کردار تھا جو اپنے آپ کو عرب دنیا کا سب سے طاقتور حکمران تصور کرتے تھے۔وہ عرب قومیت اور سوشلزم کا پرچارکرتے اور سوویت یونین کے طفیلی بن چکے تھے۔
اسرائیل نے جنگ میں فلسطین کے جو علاقے مصر اور اردن کے انتظام میں تھے پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ شام سے جولان کے پہاڑی علاقے، غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کاایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ مغربی بیت المقدس بھی قبضہ کرلیا۔
عربوں کی تاریخ میں اس سے بڑی ذلت آمیز شکست کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ایک طرف چار ممالک کی فوجیں اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی اسرائیلی ریاست نے ان کے ہزاروں فوجی قیدی بنالیے۔ جنگی جہاز، ٹینک اور توپیں سب کسی کام نہ آئیں۔ ندامت کا یہ داغ عرب حکمرانوں کی نفسیات کا ایک حصہ بن چکا ہے۔یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے جو آج تک ان کا تعاقب کرتاہے۔
پاکستانی فضائیہ کے ہوا بازوں نے بھی عرب ممالک کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کے تین لڑاجہازمارگرائے۔ اسرائیل اس کے بعد بھارت کااسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا۔ پاکستان کو گزند پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
مصر اور شام نے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی خاطر 1973ء میں اسرائیل کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑی۔ بیس دن تک جاری رہنے والی جنگ میں دونوں ممالک کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان کے اعصاب بھی شل ہوگئے۔ مصر جنگ وجدل سے تائب ہوگیا۔اس نے مفاہمت کی راہ اختیار کی۔1978ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنا مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرلیا۔یہ بھی طے پایا کہ غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔ عالم عرب میں مصر ہی وہ واحد ملک تھا جو فوجی طاقت رکھتا تھا اور اسرائیل کے قیام سے اسے چیلنج کرتارہا۔
مصر اسرائیل معاہدے پر عرب رائے عامہ کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ مصر کو غدار قراردیاگیا ۔ رفتہ رفتہ جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 1994میں اردن نے بھی امریکہ کی پشت پناہی سے اسرائیل کے سفارت تعلقات قائم کرلیے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کسی تیسرے ملک کی مدد نہ کرنے کی ضمانت دی ۔ چنانچہ فلسطینیوں کی مدد سے اردن بھی دستبردار ہوگیا۔
1993ء میں امریکہ کی سربراہی میں فلسطینیوں کے لیڈر یاسرعرفات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ریاست میری لینڈ کے سیاحتی مقام کیمپ ڈیوڈ میں معاہد ہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ جواب میں یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطین کے مقبوضہ علاقے یعنی غزہ اور ویسٹ بینک میں محدو د داخلی خودمختاری کے ساتھ فلسطینیوں کی حکومت قائم کردی گئی۔یہ بھی طے پایا کہ بتدریج اسرائیلی فورسز کا ان علاقوں سے انخلا ہوجائے گا۔بعد ازاں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی یروشلم پر کنٹرول کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت تھی۔
افسوس! جلد ہی یہ معاہد ہ تعطل کا شکار ہوگیااور متوقع پیش رفت رک گئی۔ بعدازاں اسرائیلی فورسز کے خلاف ان علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں نے انتفاضہ کے نام سے تحریک شروع کردی ۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بھی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اسرائیلی مظالم نے امن کی رائیں مزید مسدور کردیں۔
2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے رسمی طور پر پروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قراردیا۔عربوں ممالک کی آخر امید بھی ٹوٹ گئی۔ ان کی ہمت جواب دے گئی۔مال ودولت کے باوجود عرب ممالک کے اندر سفارتی یا عسکری استعداد نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں ۔ اسرائیل کی فوجی برتری، سفارتی مہارت اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں سے وہ بری طرح مرغوب ہیں۔ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ عزم ۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں کل کلاں باقی بھی کرلیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
عرب رائے عامہ نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ اب کرے گی۔ اظہار رائے کی آزادی انہیں دستیاب نہیں اختلاف رائے تو درکنار۔ عرب ممالک کے اندر حکمران طبقات کے خلاف لاوا پک چکاہے۔ آج نہیں تو کل جو پھٹے گا ضرور اسے محض ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔
مصر اور اردن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو باخبر لوگوں کے لیے یہ اطلاع بے معنی تھی۔ کئی برسوں سے دونوں ممالک میں خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکا ہے ‘محض اعلان باقی ہے۔
فلسطینیوں کے دکھوں کی داستان کم ازکم ایک صدی پرمحیط ہے۔ جنگ عظیم اوّل میں ترک خلافت عثمانیہ نے مغربی ممالک کا جن کی مہار برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، ساتھ دینے کے بجائے جرمنی اور چند چھوٹے ممالک کے جنگی اتحادکے ہمرکاب ہوگیا۔خلافت عثمانیہ سے ناراض عربوں نے یہودیوں اور برطانوی حکومت کے اشتراک سے مشرق وسطیٰ سے ترکی کا بوریا بستر گھول کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جزیزہ نما عرب پر 1517سے 1917 تک ترکوں کی حکمرانی تھی۔ پورے چار سو سال کی ترک حکومت۔
عرب اتحادیوں سے برطانیہ نے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد پورے عرب کو ایک سلطنت طورپر تسلیم کرلیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سرزمین عرب کو برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ فلسطین برطانیہ کے ہاتھ لگا۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ نے مغربی ممالک میں آبادیہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرائے گا۔بلفور اعلامیہ جاری کیا گیا جسے لیگ آف نیشن نے بھی تسلیم کرلیا۔عرب ہی نہیں‘ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اگرچہ تحریک خلافت کے مخالف تھے لیکن فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادی کاری اور ان کے لیے علیحدہ وطن کے زبردست مخالف تھے۔
یورپ اور دیگر ممالک سے یہودیوں کی بڑی تعداد نے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی۔ فلسطینی مسلمانوں سے اونے پونے زمینیں ہتھیائی گئیں۔ ایسے ہی جیسے آج کل بھارت کشمیریوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے درپے ہے۔جہاں ضرورت پڑی تشدد اور ریاستی طاقت کا سہارا بھی لیاگیا۔ قیام پاکستان کے محض دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کرلیا۔اس منصوبے میں دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مشترکہ مذہبی مقامات کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا۔اگر اس منصوبے پر عمل ہوجاتا تو فلسطینی ریاست بھی معروض میں آچکی ہوتی۔عرب ممالک نے اس منصوبے کو کلی طور پر مسترد کردیا۔عرب عسکری گروہوں نے یہودیوں کو زبردستی اپنے علاقوں سے بے دخل کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کردیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔60لاکھ یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد یہودیوں کو ایک ریاست کا خواب پورا کرنے کا موقع دیا گیا۔
مئی 1948میں اسرائیل کے قیام کا رسمی اعلان کردیا گیا۔امریکہ نے اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔عرب ممالک اور نجی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ رفتہ رفتہ جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوگیا اور عرب پسپاہوتے گئے۔
1967ء میں فلسطین کے مسئلہ پر فیصلہ کن جنگ برپا ہوئی۔ندامت کا داغ مٹانے کی خاطر مصر، عراق، شام اور اردن نے مشترکہ طور پر اسرائیل سے معرکہ آرائی کی۔ چھ دونوں تک جی ہاں محض چھ دن تک جاری جنگ میں مصر کی فضائی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جنگ چھیڑنے میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا بنیادی کردار تھا جو اپنے آپ کو عرب دنیا کا سب سے طاقتور حکمران تصور کرتے تھے۔وہ عرب قومیت اور سوشلزم کا پرچارکرتے اور سوویت یونین کے طفیلی بن چکے تھے۔
اسرائیل نے جنگ میں فلسطین کے جو علاقے مصر اور اردن کے انتظام میں تھے پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ شام سے جولان کے پہاڑی علاقے، غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کاایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ مغربی بیت المقدس بھی قبضہ کرلیا۔
عربوں کی تاریخ میں اس سے بڑی ذلت آمیز شکست کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ایک طرف چار ممالک کی فوجیں اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی اسرائیلی ریاست نے ان کے ہزاروں فوجی قیدی بنالیے۔ جنگی جہاز، ٹینک اور توپیں سب کسی کام نہ آئیں۔ ندامت کا یہ داغ عرب حکمرانوں کی نفسیات کا ایک حصہ بن چکا ہے۔یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے جو آج تک ان کا تعاقب کرتاہے۔
پاکستانی فضائیہ کے ہوا بازوں نے بھی عرب ممالک کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کے تین لڑاجہازمارگرائے۔ اسرائیل اس کے بعد بھارت کااسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا۔ پاکستان کو گزند پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
مصر اور شام نے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی خاطر 1973ء میں اسرائیل کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑی۔ بیس دن تک جاری رہنے والی جنگ میں دونوں ممالک کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان کے اعصاب بھی شل ہوگئے۔ مصر جنگ وجدل سے تائب ہوگیا۔اس نے مفاہمت کی راہ اختیار کی۔1978ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنا مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرلیا۔یہ بھی طے پایا کہ غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔ عالم عرب میں مصر ہی وہ واحد ملک تھا جو فوجی طاقت رکھتا تھا اور اسرائیل کے قیام سے اسے چیلنج کرتارہا۔
مصر اسرائیل معاہدے پر عرب رائے عامہ کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ مصر کو غدار قراردیاگیا ۔ رفتہ رفتہ جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 1994میں اردن نے بھی امریکہ کی پشت پناہی سے اسرائیل کے سفارت تعلقات قائم کرلیے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کسی تیسرے ملک کی مدد نہ کرنے کی ضمانت دی ۔ چنانچہ فلسطینیوں کی مدد سے اردن بھی دستبردار ہوگیا۔
1993ء میں امریکہ کی سربراہی میں فلسطینیوں کے لیڈر یاسرعرفات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ریاست میری لینڈ کے سیاحتی مقام کیمپ ڈیوڈ میں معاہد ہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ جواب میں یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطین کے مقبوضہ علاقے یعنی غزہ اور ویسٹ بینک میں محدو د داخلی خودمختاری کے ساتھ فلسطینیوں کی حکومت قائم کردی گئی۔یہ بھی طے پایا کہ بتدریج اسرائیلی فورسز کا ان علاقوں سے انخلا ہوجائے گا۔بعد ازاں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی یروشلم پر کنٹرول کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت تھی۔
افسوس! جلد ہی یہ معاہد ہ تعطل کا شکار ہوگیااور متوقع پیش رفت رک گئی۔ بعدازاں اسرائیلی فورسز کے خلاف ان علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں نے انتفاضہ کے نام سے تحریک شروع کردی ۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بھی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اسرائیلی مظالم نے امن کی رائیں مزید مسدور کردیں۔
2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے رسمی طور پر پروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قراردیا۔عربوں ممالک کی آخر امید بھی ٹوٹ گئی۔ ان کی ہمت جواب دے گئی۔مال ودولت کے باوجود عرب ممالک کے اندر سفارتی یا عسکری استعداد نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں ۔ اسرائیل کی فوجی برتری، سفارتی مہارت اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں سے وہ بری طرح مرغوب ہیں۔ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ عزم ۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں کل کلاں باقی بھی کرلیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
عرب رائے عامہ نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ اب کرے گی۔ اظہار رائے کی آزادی انہیں دستیاب نہیں اختلاف رائے تو درکنار۔ عرب ممالک کے اندر حکمران طبقات کے خلاف لاوا پک چکاہے۔ آج نہیں تو کل جو پھٹے گا ضرور اسے محض ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔
مصر اور اردن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو باخبر لوگوں کے لیے یہ اطلاع بے معنی تھی۔ کئی برسوں سے دونوں ممالک میں خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکا ہے ‘محض اعلان باقی ہے۔
فلسطینیوں کے دکھوں کی داستان کم ازکم ایک صدی پرمحیط ہے۔ جنگ عظیم اوّل میں ترک خلافت عثمانیہ نے مغربی ممالک کا جن کی مہار برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، ساتھ دینے کے بجائے جرمنی اور چند چھوٹے ممالک کے جنگی اتحادکے ہمرکاب ہوگیا۔خلافت عثمانیہ سے ناراض عربوں نے یہودیوں اور برطانوی حکومت کے اشتراک سے مشرق وسطیٰ سے ترکی کا بوریا بستر گھول کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جزیزہ نما عرب پر 1517سے 1917 تک ترکوں کی حکمرانی تھی۔ پورے چار سو سال کی ترک حکومت۔
عرب اتحادیوں سے برطانیہ نے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد پورے عرب کو ایک سلطنت طورپر تسلیم کرلیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سرزمین عرب کو برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ فلسطین برطانیہ کے ہاتھ لگا۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ نے مغربی ممالک میں آبادیہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرائے گا۔بلفور اعلامیہ جاری کیا گیا جسے لیگ آف نیشن نے بھی تسلیم کرلیا۔عرب ہی نہیں‘ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اگرچہ تحریک خلافت کے مخالف تھے لیکن فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادی کاری اور ان کے لیے علیحدہ وطن کے زبردست مخالف تھے۔
یورپ اور دیگر ممالک سے یہودیوں کی بڑی تعداد نے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی۔ فلسطینی مسلمانوں سے اونے پونے زمینیں ہتھیائی گئیں۔ ایسے ہی جیسے آج کل بھارت کشمیریوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے درپے ہے۔جہاں ضرورت پڑی تشدد اور ریاستی طاقت کا سہارا بھی لیاگیا۔ قیام پاکستان کے محض دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کرلیا۔اس منصوبے میں دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مشترکہ مذہبی مقامات کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا۔اگر اس منصوبے پر عمل ہوجاتا تو فلسطینی ریاست بھی معروض میں آچکی ہوتی۔عرب ممالک نے اس منصوبے کو کلی طور پر مسترد کردیا۔عرب عسکری گروہوں نے یہودیوں کو زبردستی اپنے علاقوں سے بے دخل کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کردیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔60لاکھ یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد یہودیوں کو ایک ریاست کا خواب پورا کرنے کا موقع دیا گیا۔
مئی 1948میں اسرائیل کے قیام کا رسمی اعلان کردیا گیا۔امریکہ نے اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔عرب ممالک اور نجی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ رفتہ رفتہ جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوگیا اور عرب پسپاہوتے گئے۔
1967ء میں فلسطین کے مسئلہ پر فیصلہ کن جنگ برپا ہوئی۔ندامت کا داغ مٹانے کی خاطر مصر، عراق، شام اور اردن نے مشترکہ طور پر اسرائیل سے معرکہ آرائی کی۔ چھ دونوں تک جی ہاں محض چھ دن تک جاری جنگ میں مصر کی فضائی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جنگ چھیڑنے میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا بنیادی کردار تھا جو اپنے آپ کو عرب دنیا کا سب سے طاقتور حکمران تصور کرتے تھے۔وہ عرب قومیت اور سوشلزم کا پرچارکرتے اور سوویت یونین کے طفیلی بن چکے تھے۔
اسرائیل نے جنگ میں فلسطین کے جو علاقے مصر اور اردن کے انتظام میں تھے پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ شام سے جولان کے پہاڑی علاقے، غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کاایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ مغربی بیت المقدس بھی قبضہ کرلیا۔
عربوں کی تاریخ میں اس سے بڑی ذلت آمیز شکست کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ایک طرف چار ممالک کی فوجیں اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی اسرائیلی ریاست نے ان کے ہزاروں فوجی قیدی بنالیے۔ جنگی جہاز، ٹینک اور توپیں سب کسی کام نہ آئیں۔ ندامت کا یہ داغ عرب حکمرانوں کی نفسیات کا ایک حصہ بن چکا ہے۔یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے جو آج تک ان کا تعاقب کرتاہے۔
پاکستانی فضائیہ کے ہوا بازوں نے بھی عرب ممالک کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کے تین لڑاجہازمارگرائے۔ اسرائیل اس کے بعد بھارت کااسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا۔ پاکستان کو گزند پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
مصر اور شام نے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی خاطر 1973ء میں اسرائیل کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑی۔ بیس دن تک جاری رہنے والی جنگ میں دونوں ممالک کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان کے اعصاب بھی شل ہوگئے۔ مصر جنگ وجدل سے تائب ہوگیا۔اس نے مفاہمت کی راہ اختیار کی۔1978ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنا مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرلیا۔یہ بھی طے پایا کہ غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔ عالم عرب میں مصر ہی وہ واحد ملک تھا جو فوجی طاقت رکھتا تھا اور اسرائیل کے قیام سے اسے چیلنج کرتارہا۔
مصر اسرائیل معاہدے پر عرب رائے عامہ کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ مصر کو غدار قراردیاگیا ۔ رفتہ رفتہ جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 1994میں اردن نے بھی امریکہ کی پشت پناہی سے اسرائیل کے سفارت تعلقات قائم کرلیے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کسی تیسرے ملک کی مدد نہ کرنے کی ضمانت دی ۔ چنانچہ فلسطینیوں کی مدد سے اردن بھی دستبردار ہوگیا۔
1993ء میں امریکہ کی سربراہی میں فلسطینیوں کے لیڈر یاسرعرفات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ریاست میری لینڈ کے سیاحتی مقام کیمپ ڈیوڈ میں معاہد ہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ جواب میں یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطین کے مقبوضہ علاقے یعنی غزہ اور ویسٹ بینک میں محدو د داخلی خودمختاری کے ساتھ فلسطینیوں کی حکومت قائم کردی گئی۔یہ بھی طے پایا کہ بتدریج اسرائیلی فورسز کا ان علاقوں سے انخلا ہوجائے گا۔بعد ازاں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی یروشلم پر کنٹرول کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت تھی۔
افسوس! جلد ہی یہ معاہد ہ تعطل کا شکار ہوگیااور متوقع پیش رفت رک گئی۔ بعدازاں اسرائیلی فورسز کے خلاف ان علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں نے انتفاضہ کے نام سے تحریک شروع کردی ۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بھی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اسرائیلی مظالم نے امن کی رائیں مزید مسدور کردیں۔
2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے رسمی طور پر پروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قراردیا۔عربوں ممالک کی آخر امید بھی ٹوٹ گئی۔ ان کی ہمت جواب دے گئی۔مال ودولت کے باوجود عرب ممالک کے اندر سفارتی یا عسکری استعداد نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں ۔ اسرائیل کی فوجی برتری، سفارتی مہارت اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں سے وہ بری طرح مرغوب ہیں۔ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ عزم ۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں کل کلاں باقی بھی کرلیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
عرب رائے عامہ نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ اب کرے گی۔ اظہار رائے کی آزادی انہیں دستیاب نہیں اختلاف رائے تو درکنار۔ عرب ممالک کے اندر حکمران طبقات کے خلاف لاوا پک چکاہے۔ آج نہیں تو کل جو پھٹے گا ضرور اسے محض ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔
مصر اور اردن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو باخبر لوگوں کے لیے یہ اطلاع بے معنی تھی۔ کئی برسوں سے دونوں ممالک میں خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکا ہے ‘محض اعلان باقی ہے۔
فلسطینیوں کے دکھوں کی داستان کم ازکم ایک صدی پرمحیط ہے۔ جنگ عظیم اوّل میں ترک خلافت عثمانیہ نے مغربی ممالک کا جن کی مہار برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، ساتھ دینے کے بجائے جرمنی اور چند چھوٹے ممالک کے جنگی اتحادکے ہمرکاب ہوگیا۔خلافت عثمانیہ سے ناراض عربوں نے یہودیوں اور برطانوی حکومت کے اشتراک سے مشرق وسطیٰ سے ترکی کا بوریا بستر گھول کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جزیزہ نما عرب پر 1517سے 1917 تک ترکوں کی حکمرانی تھی۔ پورے چار سو سال کی ترک حکومت۔
عرب اتحادیوں سے برطانیہ نے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد پورے عرب کو ایک سلطنت طورپر تسلیم کرلیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سرزمین عرب کو برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ فلسطین برطانیہ کے ہاتھ لگا۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ نے مغربی ممالک میں آبادیہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرائے گا۔بلفور اعلامیہ جاری کیا گیا جسے لیگ آف نیشن نے بھی تسلیم کرلیا۔عرب ہی نہیں‘ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اگرچہ تحریک خلافت کے مخالف تھے لیکن فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادی کاری اور ان کے لیے علیحدہ وطن کے زبردست مخالف تھے۔
یورپ اور دیگر ممالک سے یہودیوں کی بڑی تعداد نے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی۔ فلسطینی مسلمانوں سے اونے پونے زمینیں ہتھیائی گئیں۔ ایسے ہی جیسے آج کل بھارت کشمیریوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے درپے ہے۔جہاں ضرورت پڑی تشدد اور ریاستی طاقت کا سہارا بھی لیاگیا۔ قیام پاکستان کے محض دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کرلیا۔اس منصوبے میں دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مشترکہ مذہبی مقامات کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا۔اگر اس منصوبے پر عمل ہوجاتا تو فلسطینی ریاست بھی معروض میں آچکی ہوتی۔عرب ممالک نے اس منصوبے کو کلی طور پر مسترد کردیا۔عرب عسکری گروہوں نے یہودیوں کو زبردستی اپنے علاقوں سے بے دخل کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کردیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔60لاکھ یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد یہودیوں کو ایک ریاست کا خواب پورا کرنے کا موقع دیا گیا۔
مئی 1948میں اسرائیل کے قیام کا رسمی اعلان کردیا گیا۔امریکہ نے اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔عرب ممالک اور نجی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ رفتہ رفتہ جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوگیا اور عرب پسپاہوتے گئے۔
1967ء میں فلسطین کے مسئلہ پر فیصلہ کن جنگ برپا ہوئی۔ندامت کا داغ مٹانے کی خاطر مصر، عراق، شام اور اردن نے مشترکہ طور پر اسرائیل سے معرکہ آرائی کی۔ چھ دونوں تک جی ہاں محض چھ دن تک جاری جنگ میں مصر کی فضائی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جنگ چھیڑنے میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا بنیادی کردار تھا جو اپنے آپ کو عرب دنیا کا سب سے طاقتور حکمران تصور کرتے تھے۔وہ عرب قومیت اور سوشلزم کا پرچارکرتے اور سوویت یونین کے طفیلی بن چکے تھے۔
اسرائیل نے جنگ میں فلسطین کے جو علاقے مصر اور اردن کے انتظام میں تھے پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ شام سے جولان کے پہاڑی علاقے، غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کاایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ مغربی بیت المقدس بھی قبضہ کرلیا۔
عربوں کی تاریخ میں اس سے بڑی ذلت آمیز شکست کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ایک طرف چار ممالک کی فوجیں اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی اسرائیلی ریاست نے ان کے ہزاروں فوجی قیدی بنالیے۔ جنگی جہاز، ٹینک اور توپیں سب کسی کام نہ آئیں۔ ندامت کا یہ داغ عرب حکمرانوں کی نفسیات کا ایک حصہ بن چکا ہے۔یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے جو آج تک ان کا تعاقب کرتاہے۔
پاکستانی فضائیہ کے ہوا بازوں نے بھی عرب ممالک کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کے تین لڑاجہازمارگرائے۔ اسرائیل اس کے بعد بھارت کااسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا۔ پاکستان کو گزند پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
مصر اور شام نے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی خاطر 1973ء میں اسرائیل کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑی۔ بیس دن تک جاری رہنے والی جنگ میں دونوں ممالک کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان کے اعصاب بھی شل ہوگئے۔ مصر جنگ وجدل سے تائب ہوگیا۔اس نے مفاہمت کی راہ اختیار کی۔1978ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنا مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرلیا۔یہ بھی طے پایا کہ غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔ عالم عرب میں مصر ہی وہ واحد ملک تھا جو فوجی طاقت رکھتا تھا اور اسرائیل کے قیام سے اسے چیلنج کرتارہا۔
مصر اسرائیل معاہدے پر عرب رائے عامہ کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ مصر کو غدار قراردیاگیا ۔ رفتہ رفتہ جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 1994میں اردن نے بھی امریکہ کی پشت پناہی سے اسرائیل کے سفارت تعلقات قائم کرلیے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کسی تیسرے ملک کی مدد نہ کرنے کی ضمانت دی ۔ چنانچہ فلسطینیوں کی مدد سے اردن بھی دستبردار ہوگیا۔
1993ء میں امریکہ کی سربراہی میں فلسطینیوں کے لیڈر یاسرعرفات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ریاست میری لینڈ کے سیاحتی مقام کیمپ ڈیوڈ میں معاہد ہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ جواب میں یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطین کے مقبوضہ علاقے یعنی غزہ اور ویسٹ بینک میں محدو د داخلی خودمختاری کے ساتھ فلسطینیوں کی حکومت قائم کردی گئی۔یہ بھی طے پایا کہ بتدریج اسرائیلی فورسز کا ان علاقوں سے انخلا ہوجائے گا۔بعد ازاں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی یروشلم پر کنٹرول کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت تھی۔
افسوس! جلد ہی یہ معاہد ہ تعطل کا شکار ہوگیااور متوقع پیش رفت رک گئی۔ بعدازاں اسرائیلی فورسز کے خلاف ان علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں نے انتفاضہ کے نام سے تحریک شروع کردی ۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بھی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اسرائیلی مظالم نے امن کی رائیں مزید مسدور کردیں۔
2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے رسمی طور پر پروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قراردیا۔عربوں ممالک کی آخر امید بھی ٹوٹ گئی۔ ان کی ہمت جواب دے گئی۔مال ودولت کے باوجود عرب ممالک کے اندر سفارتی یا عسکری استعداد نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں ۔ اسرائیل کی فوجی برتری، سفارتی مہارت اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں سے وہ بری طرح مرغوب ہیں۔ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ عزم ۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں کل کلاں باقی بھی کرلیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
عرب رائے عامہ نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ اب کرے گی۔ اظہار رائے کی آزادی انہیں دستیاب نہیں اختلاف رائے تو درکنار۔ عرب ممالک کے اندر حکمران طبقات کے خلاف لاوا پک چکاہے۔ آج نہیں تو کل جو پھٹے گا ضرور اسے محض ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔