Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی برسی هے۔ نصرت فتح علی خان کا اصل نام پرویز خان تھا اور وہ 13 اکتوبر 1948ءکو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں ایک بزرگ کے کہنے پر ان نام بدل کر نصرت رکھ دیا گیا تھا۔ موسیقی سے شغف ان کو ورثے میں ملا تھا۔ آپ کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کی ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول عام بنانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انہیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی ’علی مولا علی‘ انہں دنوں کی یادگار ہے۔ بعد میں انہوں نے لوک شاعری اور اپنے ہم عصر شعراء کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اس دور میں ’سن چرخے مٹھی مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا‘ اور ’سانسوں کی مالا میں سمروں میں پی کا نام‘ نے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو اپنی طرف راغب کیا اور یوں نصرت فتح علی خان کا حلقہ اثر وسیع تر ہو گیا۔
آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست‘ ریلیز ہوئی۔ اس مشہور قوالی کے منظر عام میں آنے سے پہلے وہ امریکہ میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن ’دم مست قلندر مست مست‘ کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی۔
بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ڈیڈ مین واکنگ‘ کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازعہ فلم ’بینڈٹ کوئین‘ کے لئے بھی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
نصرت فتح علی کے مقبول نغمات میں دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یاخوشی ہے تو کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے سرفہرست ہیں۔ نصرت فتح علی خان کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا بھر کے متعدد اعزازات بھی حاصل ہوئے تھے.
16 اگست 1997ءکو نصرت فتح علی خان لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔
آج شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی برسی هے۔ نصرت فتح علی خان کا اصل نام پرویز خان تھا اور وہ 13 اکتوبر 1948ءکو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں ایک بزرگ کے کہنے پر ان نام بدل کر نصرت رکھ دیا گیا تھا۔ موسیقی سے شغف ان کو ورثے میں ملا تھا۔ آپ کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کی ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول عام بنانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انہیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی ’علی مولا علی‘ انہں دنوں کی یادگار ہے۔ بعد میں انہوں نے لوک شاعری اور اپنے ہم عصر شعراء کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اس دور میں ’سن چرخے مٹھی مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا‘ اور ’سانسوں کی مالا میں سمروں میں پی کا نام‘ نے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو اپنی طرف راغب کیا اور یوں نصرت فتح علی خان کا حلقہ اثر وسیع تر ہو گیا۔
آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست‘ ریلیز ہوئی۔ اس مشہور قوالی کے منظر عام میں آنے سے پہلے وہ امریکہ میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن ’دم مست قلندر مست مست‘ کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی۔
بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ڈیڈ مین واکنگ‘ کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازعہ فلم ’بینڈٹ کوئین‘ کے لئے بھی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
نصرت فتح علی کے مقبول نغمات میں دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یاخوشی ہے تو کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے سرفہرست ہیں۔ نصرت فتح علی خان کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا بھر کے متعدد اعزازات بھی حاصل ہوئے تھے.
16 اگست 1997ءکو نصرت فتح علی خان لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔
آج شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی برسی هے۔ نصرت فتح علی خان کا اصل نام پرویز خان تھا اور وہ 13 اکتوبر 1948ءکو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں ایک بزرگ کے کہنے پر ان نام بدل کر نصرت رکھ دیا گیا تھا۔ موسیقی سے شغف ان کو ورثے میں ملا تھا۔ آپ کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کی ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول عام بنانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انہیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی ’علی مولا علی‘ انہں دنوں کی یادگار ہے۔ بعد میں انہوں نے لوک شاعری اور اپنے ہم عصر شعراء کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اس دور میں ’سن چرخے مٹھی مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا‘ اور ’سانسوں کی مالا میں سمروں میں پی کا نام‘ نے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو اپنی طرف راغب کیا اور یوں نصرت فتح علی خان کا حلقہ اثر وسیع تر ہو گیا۔
آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست‘ ریلیز ہوئی۔ اس مشہور قوالی کے منظر عام میں آنے سے پہلے وہ امریکہ میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن ’دم مست قلندر مست مست‘ کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی۔
بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ڈیڈ مین واکنگ‘ کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازعہ فلم ’بینڈٹ کوئین‘ کے لئے بھی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
نصرت فتح علی کے مقبول نغمات میں دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یاخوشی ہے تو کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے سرفہرست ہیں۔ نصرت فتح علی خان کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا بھر کے متعدد اعزازات بھی حاصل ہوئے تھے.
16 اگست 1997ءکو نصرت فتح علی خان لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔
آج شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی برسی هے۔ نصرت فتح علی خان کا اصل نام پرویز خان تھا اور وہ 13 اکتوبر 1948ءکو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں ایک بزرگ کے کہنے پر ان نام بدل کر نصرت رکھ دیا گیا تھا۔ موسیقی سے شغف ان کو ورثے میں ملا تھا۔ آپ کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کی ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول عام بنانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انہیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی ’علی مولا علی‘ انہں دنوں کی یادگار ہے۔ بعد میں انہوں نے لوک شاعری اور اپنے ہم عصر شعراء کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اس دور میں ’سن چرخے مٹھی مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا‘ اور ’سانسوں کی مالا میں سمروں میں پی کا نام‘ نے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو اپنی طرف راغب کیا اور یوں نصرت فتح علی خان کا حلقہ اثر وسیع تر ہو گیا۔
آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست‘ ریلیز ہوئی۔ اس مشہور قوالی کے منظر عام میں آنے سے پہلے وہ امریکہ میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن ’دم مست قلندر مست مست‘ کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی۔
بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ڈیڈ مین واکنگ‘ کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازعہ فلم ’بینڈٹ کوئین‘ کے لئے بھی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
نصرت فتح علی کے مقبول نغمات میں دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یاخوشی ہے تو کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے سرفہرست ہیں۔ نصرت فتح علی خان کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا بھر کے متعدد اعزازات بھی حاصل ہوئے تھے.
16 اگست 1997ءکو نصرت فتح علی خان لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔