دسمبر کا مہینہ میرے لئیے بہت تکلیف دہ اور انتہائی منحوس بھی ثابت ہوا ہے۔ 1971 کی وہ شام شام غریباں تھی جب وہ خبر مجھ پر بجلی بن کے گری۔ سیاسی طور پر ملک کا آدھا حصہ ملک چھوڑ گیا۔ ٹھیک ہے یہ ان کا انتخاب تھا۔ لیکن ان محب وطن پاکستانیوں کا کیا قصور تھا جنھیں بہاری قرار دے کر ان کی حب الوطنی کی تذلیل کی جاتی ہے۔
مغربی پاکستان والوں کا بھی کیا بگڑنا تھا؟ رو پیٹ کر انہیں چپ ہونا ہی تھا کیونکہ ان کا سب کچھ ان کے پاس ہی تھا۔ صرف ایک طبقہ ایسا تھا جس پر غم کا پہاڑ ٹوٹا تھا اور وہ تھے مشرقی پاکستان میں مقیم غیر بنگالی۔ وہ ملک ٹوٹ گیا تھا جن کو حاصل کرنے میں ان کے اور ان کے آ آباؤ اجداد کا لہو شامل تھا۔ جو ہندوستان میں اپنا گھر بار اور اپنے پرکھوں کی قبریں چھوڑ کر آئے تھے اور جنہوں نے مشرقی پاکستان کو صرف چوبیس برسوں میں اپنی دن رات محنت سے گل و گلزار بنا یا تھا۔
جب وقت نزع آیا اور انتخاب کا وقت آیا تو انہوں نے کیا فیصلہ کیا؟ ایک طرف صورت یہ تھی کہ پاکستان زندہ باد کی جگہ جوئے بنگلہ کا نعرہ لگا لیتے تو ان کا جنت نما گھر بھی موجود رہتا۔ نوکر چاکر بھی رہتے۔ کاروبار اور ملازمتیں بھی بحال رہتیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ذرا سے مبالغے نے سیاسی کیرئیر تباہ کر دیا
دوسری جانب وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر صورت اس سرزمین سے چلے جانا تھا۔ جیت کر یا ہار کر۔ مگر ان حرماں نصیب لوگوں نے جنھیں بہاری کہہ کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اپنے لئیے جہنم کا انتخاب کیا۔ وطن کی حرمت پر قربان ہو گئے۔ دس سے پندرہ لاکھ یہ وفادار پاکستانیوں نے اپنے باپ دادا کی لاج رکھی۔ انہوں نے حب الوطنی کی مثال قائم کی۔
پانچ سے دس لاکھ یہ سچے پاکستانی تہہ تیغ کر دئیے گئے۔ ان کی جائدادیں چھین کر گھر بار سے گھسیٹ کر کیمپوں میں ڈال دیا گیا جہاں یہ کیڑے مکوڑوں کی طرح آج پچاس برس بعد بھی حب الوطنی کی زندہ تصویر بنے بیٹھے ہیں ، بغیر کسی شناخت کے۔ ان سچے اور پکے پاکستانیوں کو “بہاری” کہہ کر ان کی تذلیل کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔
ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں لوگ یہ سمجھیں کہ کیمپوں نیں رہ جانے والے دراصل انڈیا کے علاقے بہار کے رہنے والے ہیں اور یہ بھارت اور بنگلہ دیش کا مسلۂ ہے۔
اے اللہ تو تو دیکھ رہا ہے ان کی بے تو قیری۔ آئے خدا تیری لاٹھی تو بے آواز ہوتی ہے۔ آخر کب تک تیری رحمت جوش میں آئے گی؟ کب ہم ان کو ان کا ملک دیں گے؟ کب ہم انہیں اس جہنم سے نکالیں گے ؟ کیا مسلمانوں میں اب کوئی محمد بن قاسم نہیں؟
اے اللہ !ان محصور اور مظلوم بندوں کی آہ کب تک تجھ تک پہنچے گی؟ کب تیرے عرش کا پایہ جوش میں آئے گا؟ یا اللہ اب تو ہی ان کا حامی و ناصر ہے۔ کوئی بھی ان کو کیمپ کے جہنم سے نہیں نکالے گا۔ کوئی بھی ان کو حب آلو وطنی کاصلہ نہیں دے گا۔ آئے اللہ اگر تو ان کو راحت نہیں دینا چاہتا۔ بنگلہ دیش یا پاکستان کسی کے دل میں رحم نہیں ڈالتا تو ایک کرم کردے۔ کوئی ایسی آفت نازل کردے کہ یہ تیرے حرماں نصیب بندے چشم زدن میں اس شقی القلب دنیا سے آزاد ہو جائیں۔ تاکہ حب الوطنی کا بھرم ہی قائم رہ جائے۔