ملک کے ایک بڑے میڈیا ہائوس کے مالک میر شکیل الرحمن ان دنوں نیب کے شکنجے میں گرفتار ہیں۔ گرفتاری کی وجہ برسوں پرانا کوئی مقدمہ ہے۔ اتنا پرانا اتنا سال خوردہ کہ بہ قول کسے مقدمے کی مونچھیں تک سفید ہوگئی ہیں۔ اس گرفتاری کے خلاف ملک اور بیرون ملک سے مسلسل آوازیں اٹھ رہی ہیں، مطالبات ہورہے ہیں لیکن نیب کے ذمے داروں کے کانوں پر جوں تک رینگنے کا نام نہیں لے رہی۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس گرفتاری میں ’’اشارہ‘‘ کچھ اوپر کا بھی ہے۔ اوپر کا مطلب بالکل ہی اوپر نہیں، ذرا سا اوپر یعنی نیب کے اوپر۔ اور نیب کے اوپر کون ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اوپر سے اختلاف یا جھگڑا کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ اوپر کی یہ شکایت کہ اس میڈیا ہائوس نے اپنا وزن پچھلی حکومت اور پچھلے وزیراعظم کے پلڑے میں ڈال دیا اور موجودہ وزیراعظم کو ناک آئوٹ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چوں کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم بزعم خود پیغمبر تبدیلی ہیں اور عوام کی امیدوں میں تبدیلی کا نشان ہیں تو جو بھی اس تبدیلی کی راہ میں روڑے اٹکائے گا اسے وہ راستے سے ہٹادیں گے چاہے ہٹانے کے لیے انہیں کوئی بھی ادارہ استعمال کرنا پڑے۔
اب جہاں تک معاملہ نیب کا ہے، سبھی جانتے ہیں کہ یہ ادارہ ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کے اصول پر معاملہ کرتا رہا ہے۔ اگر کسی نے پچاس ارب کمائے ہیں تو بیس ارب رکھ کر بقایا رقم نیب کے حوالے کردے تو اسے شکنجہ نیب سے آزاد کیا جاسکتا ہے بلکہ ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ میر شکیل الرحمن کے معاملے میں یہ طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔ میر شکیل کے لیے اس مقدمے میں کچھ دے دلا کر خود کو رہا کرالینا کوئی ایسا دشوار تو نہ تھا۔ دو ہی صورتیں ممکن ہیں چوں کہ گرفتاری صحافتی نہیں، مالی اور زمینی معاملے میں بہ ظاہر ہوئی ہے تو میر شکیل نے کچھ دے دلا کر معاملے کو رفع دفع کرنے سے انکار کردیا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ چوں کہ گرفتاری کی وجوہ سیاسی ہیں، ظاہری صورت مقدمے کی قانونی بے ضابطگی بنائی گئی ہے تو ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کا اصول صورت حال پہ منطبق ہی نہیں ہوتا۔ چوں کہ ہمارے ملک میں سیاسی اختلافات پر قانونی مقدمے بنتے رہے ہیں اور گرفتاریاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً چودھری ظہور الٰہی مرحوم پر بھٹو صاحب نے بھینسوں کی چوری کا مقدمہ بنایا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں شیخ رشید پر بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کا مقدمہ قائم کرکے گرفتاری کی گئی۔ بعد میں حالات و واقعات نے بتایا کہ یہ مقدمے جعلی تھے اور خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد اور جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے والا معاملہ تھا۔ اس لیے ایک پرانے دھرانے معاملے میں میر شکیل کی گرفتاری اور ریمانڈ پر ریمانڈ دینا، ضمانت بھی منظور نہ ہونا، غمازی کرتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں جو نظر آرہا ہے یا جو دکھایا جارہا ہے۔ ہمیں وزیراعظم عمران خان سے کوئی پرخاش نہیں۔ وہ نیک نیتی سے ملک کو صحیح ڈگر پر ڈالنا چاہتے ہیں لیکن یہ جو اپنی شخصیت کا سحر خود آدمی پہ طاری ہوجائے اور وہ ہر حال میں خود کو نجات دہندہ سمجھنے لگ جائے اور یقینی کر بیٹھے کہ اس کی مخالفت کرنے والا ملک و قوم کا دشمن اور لائق گردن زدنی ہے۔ اس رویے نے ایوب، بھٹو، ضیا اور پرویز مشرف جیسے آمروں کو بُرے انجام سے دوچار کیا۔ اب اگر اسی راہ پر عمران خان چل پڑیں اور سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت کا رنگ دے کر انتقام پر اُتر آئیں تو یہ چیز ایسی ہے جس کا نتیجہ کسی صورت اچھا نہیں نکلے گا۔ میڈیا ایک مستقل حقیقت ہے اور حکومت آنی جانی شے ہے۔ کل کلاں کو اگر عمران خان کی حکومت جاتی ہے تو انہیں ایک بار پھر میر شکیل الرحمن کی ضرورت پڑے گی۔ جس طرح وقت آنے پر بھٹو کو پڑی، پرویز مشرف کو پڑی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور اختلافات کو دلائل اور حقائق کی پیش کش سے حل کیا جائے۔ اس میں اوچھے ہتھکنڈے اختیار نہ کرنے ہی میں دانش مندی ہے۔ رہی بات یہ کہ یہ نیب کی کارروائی ہے اور حکومت سے اس کا تعلق نہیں تو ظاہری طور پر بات یہی ہے لیکن حقیقت میں بھی کیا ایسا ہی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو نیب ان وزرا اور حکومتی مشیروں پر اپنا شکنجہ مضبوط کیوں نہیں کررہی جن کی مالی بے ضابطگیاں میڈیا میں بھی آچکی ہیں اور جس کی کوئی وضاحت بھی نہیں کی جاسکی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں سطح کے حقائق کچھ اور زیر سطح حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہاں دو جمع دو عموماً پانچ ہوتے ہیں۔ عوام بھی جان گئے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ بتایا جارہا ہے۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ گویا سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں۔ چپ اس لیے ہیں کہ جانتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ سیاست و حکومت کے موسم میں بھی کبھی راتیں بڑی ہوتی ہیں اور کبھی دن، اور یہ کہ اونٹ بھی ایک دن پہاڑ کے نیچے آکر رہتا ہے۔
ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت میں آکر اچھے بھلے آدمی کی عقل کیوں ماری جاتی ہے۔ اگر میر شکیل الرحمن پر مقدمہ بنانا اور انہیں گرفتار ہی کرنا تھا تو ہم سے مشورہ کیا جاتا تو ہم وہ نکات بتاسکتے تھے جن پر مقدمہ قائم کیا جاتا تو خاص و عام کے لیے قابل فہم بھی ہوتا اور حمایت میں کوئی آواز بھی نہ اُٹھتی۔ آپ نے یہ کیا احمقانہ مقدمہ بنایا ہے جو ایک عام آدمی کی عقل و سمجھ سے باہر ہے۔ ہاں جب کوئی منصب و عہدے پر آجاتا ہے اور اختیار و اقتدار گھر کی کنیز یا باندی بن جاتی ہے تو قدرت سب سے پہلے عقل کو معطل کردیتی ہے۔ جب معقولیت رخصت ہوتی ہے تو اس سے ایسے کام سرزد ہونے لگتے ہیں جو اسے تو بظاہر خوشنما لگتے ہیں لیکن دوسرے سر پیٹتے ہیں کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟
میر شکیل کو نیب نے جو فرصت کے لمحات مہیا کیے ہیں، انہیں بھی بہرحال سوچنا چاہیے کہ یہ نوبت آئی کیوں؟ جب نصیحت سننے اور سمجھنے کا وقت ہو اور آپ اس موقع کو ضائع کردیں تو اس کے نتائج سامنے آکر رہتے ہیں۔ یہ وقت ایسا نہیں کہ ہم انہیں کوئی بھلی بات بتائیں اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں کا کچا چٹھا کھولیں۔ اس لیے کہ ان پر بُرا وقت آیا ہوا ہے۔ نازو نعم میں پلنے والے شہزادوں کی زندگی گزارنے والے میڈیا امپائر کے مالک پر یہ کسمپرسی کا وقت ہے۔ متواتر نظر بندی اور گرفتاری، پھر اسی حالت میں سگے بڑے بھائی کا انتقال، میڈیا کے کارکنان کا وقت پر تنخواہوں کا نہ ملنا، پھر دوسری ذہنی پریشانیاں۔ ہمیں یقین ہے کہ مصیبت کا یہ وقت ٹل جائے گا اور قدرت انہیں ایک بار پھر اپنی اصلاح کی مہلت دے گی۔ اس لیے کہ میر شکیل کے بہت سے احسانات میڈیا پر ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے کالم نگاروں، صحافیوں اور اینکروں کے معاوضے میں اضافہ ہوا۔ یہ اور اس طرح کے کئی کام ہیں جن کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے۔ کیا شبہ ہے کہ ان کے چینل نے دوسرے چینلوں کی رجحان سازی کی۔ اور انہوں نے اس پیشے میں اس ہمت و جرأت کا مظاہرہ کیا، جس کا مظاہرہ ان کے والد ماجد نہ کرسکے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس مقدمے کی نوبت آنے ہی نہ دیتے۔ میر شکیل پر اگر یہ نوبت آئی اور وہ گرفتاری کی مصیبت کو بھگت رہے ہیں تو اسے بھی ان کی استقامت سے تعبیر کیا جائے گا۔ ورنہ معافی تلافی کرکے چھوٹ جانا ہماری سیاست میں کیا مشکل ہے۔