Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اردو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہماری تہذیبی شناخت کا معتبر حوالہ اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔ اردو کا سرکاری سطح پر نفاذ ایک اہم آئینی تقاضا اور قومی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نفاذِ اردو کے مسئلے کو کسی حکومت نے سنجےدگی سے نہےں لےا۔ اربابِ علم و دانش نے اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے مسلسل خامہ فرسائی کی ہے۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی:
”ہمیں اردو کو بحیثیت قومی زبان جو درجہ دینا ہے اس میں اردو کی حیثیت ایک ایسی قومی زبان کی ہے جس میں مسلمانوں کا بیش تر علمی اور فکری سرمایہ محفوظ ہے، جس جس ملک میں اسلام پہنچا وہاں کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی مسائل میں قومی زبانوں کو ہی اہمیت دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لیے بھی قومی زبان کا درجہ ضروری ہے۔ اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لیے ان تمام حیثیتوں سے اردو کو اس کا مناسب حق دینا بہت ضروری ہے۔پاکستان کے باشندوں کے لیے اردو کی حیثیت قومی زبان کی ہے اس لیے اسے ذریعہ اظہار کا وسیلہ ہونا چاہیے۔جب ہم اردو کو قومی زبان کا درجہ دلانا چاہتے ہےں تو ہمارے نزدیک اردو کے لیے وہ مقام ہے جو بطور ذریعہ تعلیم اب تک انگریزی کو حاصل ہے۔ کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی معاملات میں انگریزی کی جگہ اردو کو حاصل ہونی چاہیے، لیکن اردو کو اس کا جایز حق اس وقت ملے گا جب ہماری ذہنیت بدلے گی، ہم نے نیا ملک تو حاصل کر لیا ہے لیکن تقریباً تین سو برس کی غلامی نے ذہنوں میں تقلید کا جو بیج بو دیا ہے وہ ابھی تک پھل لا رہا ہے۔ بعض لوگ اردو میں اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ معاشرتی زندگی میں ہر وہ آدمی جو انگریزی میں خط و کتابت نہیں کرتا اور شائستہ مجالس میں انگریزی بولنے سے گریز کرتا ہے۔ غیرمہذب سمجھا جاتا ہے۔ہم انگریزی کو یہاں ذریعہ تعلیم رکھنے کے مخالف ہیں لیکن انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں۔ کسی زبان کی تدریس اور بات ہے، لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنا لینا بالکل جدا چیز ہے۔۔اردو کو دفتری حیثیت دینے کے بھی ایسے ہی حیلے، بہانے تراشے جاتے ہیں۔ عدالتی زبان کے طور پر اردو مدتوں سے رائج ہے، صرف اسے اعلیٰ عدالتوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ دیہات میں پولیس اور دوسرے محکموں کا کاروبار اردو میں چلتا ہے۔ دفتری اصطلاحات کا مسئلہ ایک بڑی حد تک حل ہو چکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس تمام مواد سے کام لیا جائے اور سرکاری سطح پر دفتروں میں اردو زبان کو رائج کر دیا جائے۔“
اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری گماشتے اور جاگیردار طبقہ ہیں جن کے مفادات انگریزی سے وابستہ ہیں انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ انگریزی کی بالادستی کا خاتمہ ایک نئے دور کی تمہید بن جائے گا اور اردو کے نفاذ سے نچلے اور متوسط طبقے کو قومی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اقوامِ عالم اپنی زبان سے محبت کرتی ہیں اور زبان کو اپنی شناخت کا حوالہ سمجھتی ہیں۔
جن اقوام نے ایک طویل عرصے تک غلامی کے دکھ اٹھائے ہوں۔ غلامی سے آزادی کا سفر طے کرنے کے باوجود مذکورہ اقوام ذہنی غلامی کے طوق سے آزاد نہیں ہو پاتیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں قومی زبان کو اپنی بقاءکے لیے ایک مسلسل جنگ کا سامنا ہے، لوگ اپنی ہی زبان کے نفاذ سے گریزاں ہیں، اردو کو تعلیم کی زبان بنانے یا دفاتر اور کاروباری معاملات میں مرکزی حیثیت عطا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پاکستانی ہیں۔ پاکستان میں انگریزی، اشرافیہ کی زبان ہے۔ پاکستان میں برساتی کھمبیوں کی طرح انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامل اسکولوں کی افزائش ایک قومی المیہ ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے تمام تر وسایل مذکورہ اسکولوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ملک میں تعلیم کے حوالے سے دو میڈیم ہونے سے پاکستانی قوم آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن چکی ہے:
ڈاکٹر سید عبداللہ، تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں نفاذِ اردو کے داعی تھے:
”قومی زندگی کے باقی شعبوں میں مثلاً دفتروں میں، عدالتوں میں، کچہریوں میں، جلسوں میں، کانفرنسوں میں غرض ہر جگہ اردو کی ترویج لازمی ہے تاکہ قوم کی قومیت پہچانی جائے۔“
ڈاکٹر سید عبداللہ، نفاذِ اردو کے لیے ملک گیر اردو تدریس کانفرنسوں کے انعقاد، نصابات کی ازسرنو تشکیل اور انشاء یا دفتری زبان کا پرچہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبیاتی ذخیرے کو وسیع اور فراواں بنانے پر زور دیتے ہیں۔
اردو کے عملی نفاذ کے ضمن مےں بعض اصحاب، جدےد علوم و فنون کے حوالے سے اردو کی تنگ دامانی کا شکوہ کرتے ہےں اور اس حوالے سے اردو رسم الخط پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو رسم الخط اور صوتیات میں غیرمعمولی وسعت پائی جاتی ہے۔
اردو کے عملی نفاذ کے مخالفین، جدید سائنسی اصطلاحات کے اردو میں تراجم پر خاصی تنقید کرتے ہیں۔ اب یہ سوچ فرسودہ ہو چکی ہے کہ علوم و فنون کے حوالے سے مستعمل ہر اصطلاح کو مفرس و معرب سانچے میں ڈھال کر قوم پر مسلط کر دیا جائے۔ کمپیوٹر، موبایل فون اور اس طرح کے بے شمار الفاظ اپنے اصل نام کے ساتھ اردو میں رواج پا چکے ہیں۔ اصطلاح سازی کے عمل میں آسانیاں پیدا ہونے سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے۔
زندہ زبان کی بنیادی خاصےت ہی ےہی ہوتی ہے کہ اس کا دامن کشادہ ہوتا ہے اور علوم و فنون کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلےاں اور اصطلاحات اس کے قالب میں سماتی چلی جاتی ہیں، کوئی زبان بھی اس امر کا دعویٰ نہیں کر سکتی کہ دنیا کی تمام علمی و فنی اصطلاحیں، اس کے قالب میں ڈھل چکی ہیں۔ بقول آفتاب حسن:
”جس زبان کو بھی زندہ زبان ہونے کا دعویٰ ہے اس کو زندہ علوم کے ساتھ چلنا ہو گا اور ضرورت کے نئے الفاظ اور اصطلاحوں کو وضع کرتے جانا ہو گا۔ یہ سلسلہ جاری رہنا ہے۔ یہاں جمود سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو کے لیے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔ کہا صرف یہ جاتا ہے کہ اس میں تعلیمی، درسی، دفتری اور انتظامی ضروریات کی بیش تر اصطلاحیں موجود ہیں جو نہیں ہیں وہ بنتی اور بنائی جا رہی ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ےیاں جو اصطلاحیں تیار ہوئی ہیں ان میں سے بعض قابلِ قبول نہ ہوں، ہر ادارہ اس کے لیے تیار رہتا ہے کہ اگر اس کی غلطی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اپنی اصلاح کر لے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اب نظری مباحث میں پڑنے کے بجائے عملی قدم پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ منزلِ مقصود متعین ہے۔“
لفظ اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے زندگی وابستہ ہے۔ ایک لفظ کے ایک سے زاید مفاہیم ہو سکتے ہیں اور ایک معنی کی ترسیل کے لیے بہت سے الفاظ ہو سکتے ہیں، لفظ اور معانی کا رشتہ زبان کی توسیع کا سبب بنتا ہے۔ اصوات کو محفوظ کرنے کے لیے رسم الخط کے حروف ڈھالے گئے۔ جس طرح کوئی زبان مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اسی طرح آوازوں کے تعین سے حروف سازی کا عمل آگے بڑھتا رہا۔
رسم الخط بنیادی طور پر مختلف آوازوں کی تحریری علامتوں کا ایک مربوط نظام ہے۔
اردو رسم الخط، عربی سے مستعار لیا گیا، عربی اور اردو کے رسم الخط میں فرق کے باعث یہ رسم الخط، اردو کی تمام ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہا۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری
”جب یہ رسم الخط ایران میں اپنایا گیا تو ایرانی زبان کے صوتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں کچھ اضافے کےے گئے پھر جب یہ ہندوستان پہنچا اور اردو زبان کے لیے اختیار کیا گیا تو اس کے حروف میں اس زبان کی ضروریات کے مطابق مزید اضافے ہوئے، پھر بھی اس میں بہت کچھ کمی رہ گئی ہے۔“
اردو کے بعض نام نہاد ماہرین لسانیات اور دانش ور کچھ عرصے سے اردو رسم الخط کو رومن رسم الخط میں ڈھالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مذکورہ بالا رویہ اردو دشمنی کا عکاس نظر آتا ہے، اس لیے اردو رسم الخط میں بہتری اور اصلاح کی گنجایش تو ہو سکتی ہے مگر اردو رسم الخط کو ترک کر دینے سے ہمارا بیش قدر علمی اور ادبی ذخیرہ ضایع ہو جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، یہ ہے:
”رومن میں ہر حرف جدا لکھا جاتا ہے اس میں نہ ارکان کی تقسیم کا لحاظ ہے، نہ حرکت اور سکون کا اہتمام۔ اگر پڑھنے والا کسی لفظ کا تلفظ نہیں جانتا یا اس نے نہیں سنا تو وہ جہاں چاہے لفظ کو توڑ کر رکنوں میں تقسیم کر دے۔ جس حرف کو چاہے، متحرک بولے اور جس کو چاہے ساکن، کیونکہ اس میں اوّل کو حروفِ علت ہی پانچ ہیں اور پھر اَسُروں کے لیے ایسے جُٹ کے جُٹ نظر آتے ہےں جن کے درمیان کوئی حرفِ علت ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے رومن کا پڑھنا بہت کچھ پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ اردو رسم الخط میں بعض حرف موصل ہوتے ہیں، بعض غیرموصل، جو حروف ملا کر لکھے جاتے ہیں ان میں بھی اور جو الگ الگ لکھے جاتے ہیں، ان میں بھی بعض متحرک ہوتے ہیں اور بعض ساکن، ان کو ملا کر لکھنے یا نہ لکھنے سے ان کی حرکت اور سکون کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں حرکت اور سکون کی علامات تو مقرر ہے لیکن ناکافی ہیں اور جو ہیں وہ بھی پابندی سے نہیں لگائی جاتیں۔“
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو رسم الخط کو ترک کرنے کی بجائے اس میں جامعیت پیدا کی جائے اور ایک معیاری رسم الخط وضع کر کے اس پر اصرار کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف اردو کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہو گی بلکہ دفتری اردو کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت ہو گی۔
نفاذِ اردو سے عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اردو میں عدالتی فیصلہ نویسی سے انصاف کے حصول میں آسانی ہو گی اور عام آدمی کی دشواریاں کم ہوں گی اور ملک کے طول و عروض میں قومی وحدت کا عمل مستحکم ہو گا۔
اردو نہ صرف ہماری قومی زبان ہے بلکہ ےہ واحد زبان ہے جو خیبرپختونخوا سے کراچی تک سبھی پاکستانی سمجھتے ہےں اور اسے بجا طور پر موثر رابطے کی زبان کے طور پر قبولیت حاصل ہے۔ اردو اس اعتبار سے دنیا کی ایک ایسی موثر زبان ہے جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحات کو جذب کرنے اور اپنے مزاج کے سانچے میں ڈھالنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ اس میں عدالتی، دفتری اور تدریسی زبان بننے کی غیرمعمولی صلاحیت اور استعداد پائی جاتی ہے۔ اردو میں الفاظ و تراکیب کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ اگر کسی اصطلاح کے لیے مناسب متبادل ترکیب وضع نہ کی جائے تو کسی دوسری زبان سے اخذ کیا جا سکتا ہے یا اس اصطلاح کو ترجمہ کیے بغیر اس کی اصل شکل میں مستعمل کیا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل پورے برصغیر کا مسلمان اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیتا تھا اور یہ امر ہر شبہے سے بالاتر تھا کہ آزادی کے بعد اردو ہی قومی اور سرکاری زبان ہو گی، برصغیر میں اردو کو شائستگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا دلایل سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے نفاذ کے ضمن میں نیک نیتی سے کام کیا جائے تو اردو کا عملی نفاذ نہ صرف ممکن ہے بلکہ کامیابی سے ہم کنار بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اردو کو اس کا جایز مقام نہ ملنے کے متعدد اسباب ہیں، جس میں سب سے بنیادی سبب غلامانہ سوچ ہے جس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قومی حمیت و غیرت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ازحد ضروری ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ اور انتظامیہ کے پاس قوت، اختیارات اور لامحدود وسایل تو ہیں مگر ان کی تربیت کے پس پردہ انگریزی موجود ہے اور یہ مراعات یافتہ طبقہ انگریزی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اردو زبان قومی وحدت اور یک جہتی کی علامت ہے۔ پاکستانی کے آئین میں اردو کے نفاذ کے ساتھ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے بھی خصوصی اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
قومی یک جہتی کے ضمن میں کسی زبان کے کردار کا جایزہ لینا مقصود ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ زبان ملک کے طول و عرض مےں ابلاغ کا فریضہ انجام دیتی ہوں، معاشرتی اور ثقافتی رابطوں میں اس کا کردار موثر ہو، علمی اور تعلیمی ضروریات پورا کرتی ہو اور دفتری ضرورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اردو بطورِ زبان مندرجہ بالا چاروں ضروریات کو کماحقہ، پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تحریکِ پاکستان میں اسلام کے بعد اردو کو ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے امتزاج کا نام ہے۔ ایک پاکستانی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں پر عبور حاصل کرے، اس لیے صرف اردو جاننے والا پورے پاکستان میں کسی بھی زبان بولنے والے فرد سے مکالمہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ صرف اور صرف اردو ہی سماجی اور ثقافتی رابطوں کی زبان قرار دی جا سکتی ہے۔
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اردو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہماری تہذیبی شناخت کا معتبر حوالہ اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔ اردو کا سرکاری سطح پر نفاذ ایک اہم آئینی تقاضا اور قومی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نفاذِ اردو کے مسئلے کو کسی حکومت نے سنجےدگی سے نہےں لےا۔ اربابِ علم و دانش نے اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے مسلسل خامہ فرسائی کی ہے۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی:
”ہمیں اردو کو بحیثیت قومی زبان جو درجہ دینا ہے اس میں اردو کی حیثیت ایک ایسی قومی زبان کی ہے جس میں مسلمانوں کا بیش تر علمی اور فکری سرمایہ محفوظ ہے، جس جس ملک میں اسلام پہنچا وہاں کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی مسائل میں قومی زبانوں کو ہی اہمیت دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لیے بھی قومی زبان کا درجہ ضروری ہے۔ اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لیے ان تمام حیثیتوں سے اردو کو اس کا مناسب حق دینا بہت ضروری ہے۔پاکستان کے باشندوں کے لیے اردو کی حیثیت قومی زبان کی ہے اس لیے اسے ذریعہ اظہار کا وسیلہ ہونا چاہیے۔جب ہم اردو کو قومی زبان کا درجہ دلانا چاہتے ہےں تو ہمارے نزدیک اردو کے لیے وہ مقام ہے جو بطور ذریعہ تعلیم اب تک انگریزی کو حاصل ہے۔ کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی معاملات میں انگریزی کی جگہ اردو کو حاصل ہونی چاہیے، لیکن اردو کو اس کا جایز حق اس وقت ملے گا جب ہماری ذہنیت بدلے گی، ہم نے نیا ملک تو حاصل کر لیا ہے لیکن تقریباً تین سو برس کی غلامی نے ذہنوں میں تقلید کا جو بیج بو دیا ہے وہ ابھی تک پھل لا رہا ہے۔ بعض لوگ اردو میں اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ معاشرتی زندگی میں ہر وہ آدمی جو انگریزی میں خط و کتابت نہیں کرتا اور شائستہ مجالس میں انگریزی بولنے سے گریز کرتا ہے۔ غیرمہذب سمجھا جاتا ہے۔ہم انگریزی کو یہاں ذریعہ تعلیم رکھنے کے مخالف ہیں لیکن انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں۔ کسی زبان کی تدریس اور بات ہے، لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنا لینا بالکل جدا چیز ہے۔۔اردو کو دفتری حیثیت دینے کے بھی ایسے ہی حیلے، بہانے تراشے جاتے ہیں۔ عدالتی زبان کے طور پر اردو مدتوں سے رائج ہے، صرف اسے اعلیٰ عدالتوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ دیہات میں پولیس اور دوسرے محکموں کا کاروبار اردو میں چلتا ہے۔ دفتری اصطلاحات کا مسئلہ ایک بڑی حد تک حل ہو چکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس تمام مواد سے کام لیا جائے اور سرکاری سطح پر دفتروں میں اردو زبان کو رائج کر دیا جائے۔“
اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری گماشتے اور جاگیردار طبقہ ہیں جن کے مفادات انگریزی سے وابستہ ہیں انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ انگریزی کی بالادستی کا خاتمہ ایک نئے دور کی تمہید بن جائے گا اور اردو کے نفاذ سے نچلے اور متوسط طبقے کو قومی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اقوامِ عالم اپنی زبان سے محبت کرتی ہیں اور زبان کو اپنی شناخت کا حوالہ سمجھتی ہیں۔
جن اقوام نے ایک طویل عرصے تک غلامی کے دکھ اٹھائے ہوں۔ غلامی سے آزادی کا سفر طے کرنے کے باوجود مذکورہ اقوام ذہنی غلامی کے طوق سے آزاد نہیں ہو پاتیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں قومی زبان کو اپنی بقاءکے لیے ایک مسلسل جنگ کا سامنا ہے، لوگ اپنی ہی زبان کے نفاذ سے گریزاں ہیں، اردو کو تعلیم کی زبان بنانے یا دفاتر اور کاروباری معاملات میں مرکزی حیثیت عطا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پاکستانی ہیں۔ پاکستان میں انگریزی، اشرافیہ کی زبان ہے۔ پاکستان میں برساتی کھمبیوں کی طرح انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامل اسکولوں کی افزائش ایک قومی المیہ ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے تمام تر وسایل مذکورہ اسکولوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ملک میں تعلیم کے حوالے سے دو میڈیم ہونے سے پاکستانی قوم آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن چکی ہے:
ڈاکٹر سید عبداللہ، تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں نفاذِ اردو کے داعی تھے:
”قومی زندگی کے باقی شعبوں میں مثلاً دفتروں میں، عدالتوں میں، کچہریوں میں، جلسوں میں، کانفرنسوں میں غرض ہر جگہ اردو کی ترویج لازمی ہے تاکہ قوم کی قومیت پہچانی جائے۔“
ڈاکٹر سید عبداللہ، نفاذِ اردو کے لیے ملک گیر اردو تدریس کانفرنسوں کے انعقاد، نصابات کی ازسرنو تشکیل اور انشاء یا دفتری زبان کا پرچہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبیاتی ذخیرے کو وسیع اور فراواں بنانے پر زور دیتے ہیں۔
اردو کے عملی نفاذ کے ضمن مےں بعض اصحاب، جدےد علوم و فنون کے حوالے سے اردو کی تنگ دامانی کا شکوہ کرتے ہےں اور اس حوالے سے اردو رسم الخط پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو رسم الخط اور صوتیات میں غیرمعمولی وسعت پائی جاتی ہے۔
اردو کے عملی نفاذ کے مخالفین، جدید سائنسی اصطلاحات کے اردو میں تراجم پر خاصی تنقید کرتے ہیں۔ اب یہ سوچ فرسودہ ہو چکی ہے کہ علوم و فنون کے حوالے سے مستعمل ہر اصطلاح کو مفرس و معرب سانچے میں ڈھال کر قوم پر مسلط کر دیا جائے۔ کمپیوٹر، موبایل فون اور اس طرح کے بے شمار الفاظ اپنے اصل نام کے ساتھ اردو میں رواج پا چکے ہیں۔ اصطلاح سازی کے عمل میں آسانیاں پیدا ہونے سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے۔
زندہ زبان کی بنیادی خاصےت ہی ےہی ہوتی ہے کہ اس کا دامن کشادہ ہوتا ہے اور علوم و فنون کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلےاں اور اصطلاحات اس کے قالب میں سماتی چلی جاتی ہیں، کوئی زبان بھی اس امر کا دعویٰ نہیں کر سکتی کہ دنیا کی تمام علمی و فنی اصطلاحیں، اس کے قالب میں ڈھل چکی ہیں۔ بقول آفتاب حسن:
”جس زبان کو بھی زندہ زبان ہونے کا دعویٰ ہے اس کو زندہ علوم کے ساتھ چلنا ہو گا اور ضرورت کے نئے الفاظ اور اصطلاحوں کو وضع کرتے جانا ہو گا۔ یہ سلسلہ جاری رہنا ہے۔ یہاں جمود سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو کے لیے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔ کہا صرف یہ جاتا ہے کہ اس میں تعلیمی، درسی، دفتری اور انتظامی ضروریات کی بیش تر اصطلاحیں موجود ہیں جو نہیں ہیں وہ بنتی اور بنائی جا رہی ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ےیاں جو اصطلاحیں تیار ہوئی ہیں ان میں سے بعض قابلِ قبول نہ ہوں، ہر ادارہ اس کے لیے تیار رہتا ہے کہ اگر اس کی غلطی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اپنی اصلاح کر لے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اب نظری مباحث میں پڑنے کے بجائے عملی قدم پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ منزلِ مقصود متعین ہے۔“
لفظ اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے زندگی وابستہ ہے۔ ایک لفظ کے ایک سے زاید مفاہیم ہو سکتے ہیں اور ایک معنی کی ترسیل کے لیے بہت سے الفاظ ہو سکتے ہیں، لفظ اور معانی کا رشتہ زبان کی توسیع کا سبب بنتا ہے۔ اصوات کو محفوظ کرنے کے لیے رسم الخط کے حروف ڈھالے گئے۔ جس طرح کوئی زبان مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اسی طرح آوازوں کے تعین سے حروف سازی کا عمل آگے بڑھتا رہا۔
رسم الخط بنیادی طور پر مختلف آوازوں کی تحریری علامتوں کا ایک مربوط نظام ہے۔
اردو رسم الخط، عربی سے مستعار لیا گیا، عربی اور اردو کے رسم الخط میں فرق کے باعث یہ رسم الخط، اردو کی تمام ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہا۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری
”جب یہ رسم الخط ایران میں اپنایا گیا تو ایرانی زبان کے صوتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں کچھ اضافے کےے گئے پھر جب یہ ہندوستان پہنچا اور اردو زبان کے لیے اختیار کیا گیا تو اس کے حروف میں اس زبان کی ضروریات کے مطابق مزید اضافے ہوئے، پھر بھی اس میں بہت کچھ کمی رہ گئی ہے۔“
اردو کے بعض نام نہاد ماہرین لسانیات اور دانش ور کچھ عرصے سے اردو رسم الخط کو رومن رسم الخط میں ڈھالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مذکورہ بالا رویہ اردو دشمنی کا عکاس نظر آتا ہے، اس لیے اردو رسم الخط میں بہتری اور اصلاح کی گنجایش تو ہو سکتی ہے مگر اردو رسم الخط کو ترک کر دینے سے ہمارا بیش قدر علمی اور ادبی ذخیرہ ضایع ہو جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، یہ ہے:
”رومن میں ہر حرف جدا لکھا جاتا ہے اس میں نہ ارکان کی تقسیم کا لحاظ ہے، نہ حرکت اور سکون کا اہتمام۔ اگر پڑھنے والا کسی لفظ کا تلفظ نہیں جانتا یا اس نے نہیں سنا تو وہ جہاں چاہے لفظ کو توڑ کر رکنوں میں تقسیم کر دے۔ جس حرف کو چاہے، متحرک بولے اور جس کو چاہے ساکن، کیونکہ اس میں اوّل کو حروفِ علت ہی پانچ ہیں اور پھر اَسُروں کے لیے ایسے جُٹ کے جُٹ نظر آتے ہےں جن کے درمیان کوئی حرفِ علت ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے رومن کا پڑھنا بہت کچھ پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ اردو رسم الخط میں بعض حرف موصل ہوتے ہیں، بعض غیرموصل، جو حروف ملا کر لکھے جاتے ہیں ان میں بھی اور جو الگ الگ لکھے جاتے ہیں، ان میں بھی بعض متحرک ہوتے ہیں اور بعض ساکن، ان کو ملا کر لکھنے یا نہ لکھنے سے ان کی حرکت اور سکون کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں حرکت اور سکون کی علامات تو مقرر ہے لیکن ناکافی ہیں اور جو ہیں وہ بھی پابندی سے نہیں لگائی جاتیں۔“
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو رسم الخط کو ترک کرنے کی بجائے اس میں جامعیت پیدا کی جائے اور ایک معیاری رسم الخط وضع کر کے اس پر اصرار کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف اردو کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہو گی بلکہ دفتری اردو کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت ہو گی۔
نفاذِ اردو سے عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اردو میں عدالتی فیصلہ نویسی سے انصاف کے حصول میں آسانی ہو گی اور عام آدمی کی دشواریاں کم ہوں گی اور ملک کے طول و عروض میں قومی وحدت کا عمل مستحکم ہو گا۔
اردو نہ صرف ہماری قومی زبان ہے بلکہ ےہ واحد زبان ہے جو خیبرپختونخوا سے کراچی تک سبھی پاکستانی سمجھتے ہےں اور اسے بجا طور پر موثر رابطے کی زبان کے طور پر قبولیت حاصل ہے۔ اردو اس اعتبار سے دنیا کی ایک ایسی موثر زبان ہے جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحات کو جذب کرنے اور اپنے مزاج کے سانچے میں ڈھالنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ اس میں عدالتی، دفتری اور تدریسی زبان بننے کی غیرمعمولی صلاحیت اور استعداد پائی جاتی ہے۔ اردو میں الفاظ و تراکیب کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ اگر کسی اصطلاح کے لیے مناسب متبادل ترکیب وضع نہ کی جائے تو کسی دوسری زبان سے اخذ کیا جا سکتا ہے یا اس اصطلاح کو ترجمہ کیے بغیر اس کی اصل شکل میں مستعمل کیا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل پورے برصغیر کا مسلمان اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیتا تھا اور یہ امر ہر شبہے سے بالاتر تھا کہ آزادی کے بعد اردو ہی قومی اور سرکاری زبان ہو گی، برصغیر میں اردو کو شائستگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا دلایل سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے نفاذ کے ضمن میں نیک نیتی سے کام کیا جائے تو اردو کا عملی نفاذ نہ صرف ممکن ہے بلکہ کامیابی سے ہم کنار بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اردو کو اس کا جایز مقام نہ ملنے کے متعدد اسباب ہیں، جس میں سب سے بنیادی سبب غلامانہ سوچ ہے جس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قومی حمیت و غیرت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ازحد ضروری ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ اور انتظامیہ کے پاس قوت، اختیارات اور لامحدود وسایل تو ہیں مگر ان کی تربیت کے پس پردہ انگریزی موجود ہے اور یہ مراعات یافتہ طبقہ انگریزی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اردو زبان قومی وحدت اور یک جہتی کی علامت ہے۔ پاکستانی کے آئین میں اردو کے نفاذ کے ساتھ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے بھی خصوصی اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
قومی یک جہتی کے ضمن میں کسی زبان کے کردار کا جایزہ لینا مقصود ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ زبان ملک کے طول و عرض مےں ابلاغ کا فریضہ انجام دیتی ہوں، معاشرتی اور ثقافتی رابطوں میں اس کا کردار موثر ہو، علمی اور تعلیمی ضروریات پورا کرتی ہو اور دفتری ضرورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اردو بطورِ زبان مندرجہ بالا چاروں ضروریات کو کماحقہ، پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تحریکِ پاکستان میں اسلام کے بعد اردو کو ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے امتزاج کا نام ہے۔ ایک پاکستانی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں پر عبور حاصل کرے، اس لیے صرف اردو جاننے والا پورے پاکستان میں کسی بھی زبان بولنے والے فرد سے مکالمہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ صرف اور صرف اردو ہی سماجی اور ثقافتی رابطوں کی زبان قرار دی جا سکتی ہے۔
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اردو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہماری تہذیبی شناخت کا معتبر حوالہ اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔ اردو کا سرکاری سطح پر نفاذ ایک اہم آئینی تقاضا اور قومی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نفاذِ اردو کے مسئلے کو کسی حکومت نے سنجےدگی سے نہےں لےا۔ اربابِ علم و دانش نے اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے مسلسل خامہ فرسائی کی ہے۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی:
”ہمیں اردو کو بحیثیت قومی زبان جو درجہ دینا ہے اس میں اردو کی حیثیت ایک ایسی قومی زبان کی ہے جس میں مسلمانوں کا بیش تر علمی اور فکری سرمایہ محفوظ ہے، جس جس ملک میں اسلام پہنچا وہاں کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی مسائل میں قومی زبانوں کو ہی اہمیت دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لیے بھی قومی زبان کا درجہ ضروری ہے۔ اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لیے ان تمام حیثیتوں سے اردو کو اس کا مناسب حق دینا بہت ضروری ہے۔پاکستان کے باشندوں کے لیے اردو کی حیثیت قومی زبان کی ہے اس لیے اسے ذریعہ اظہار کا وسیلہ ہونا چاہیے۔جب ہم اردو کو قومی زبان کا درجہ دلانا چاہتے ہےں تو ہمارے نزدیک اردو کے لیے وہ مقام ہے جو بطور ذریعہ تعلیم اب تک انگریزی کو حاصل ہے۔ کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی معاملات میں انگریزی کی جگہ اردو کو حاصل ہونی چاہیے، لیکن اردو کو اس کا جایز حق اس وقت ملے گا جب ہماری ذہنیت بدلے گی، ہم نے نیا ملک تو حاصل کر لیا ہے لیکن تقریباً تین سو برس کی غلامی نے ذہنوں میں تقلید کا جو بیج بو دیا ہے وہ ابھی تک پھل لا رہا ہے۔ بعض لوگ اردو میں اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ معاشرتی زندگی میں ہر وہ آدمی جو انگریزی میں خط و کتابت نہیں کرتا اور شائستہ مجالس میں انگریزی بولنے سے گریز کرتا ہے۔ غیرمہذب سمجھا جاتا ہے۔ہم انگریزی کو یہاں ذریعہ تعلیم رکھنے کے مخالف ہیں لیکن انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں۔ کسی زبان کی تدریس اور بات ہے، لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنا لینا بالکل جدا چیز ہے۔۔اردو کو دفتری حیثیت دینے کے بھی ایسے ہی حیلے، بہانے تراشے جاتے ہیں۔ عدالتی زبان کے طور پر اردو مدتوں سے رائج ہے، صرف اسے اعلیٰ عدالتوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ دیہات میں پولیس اور دوسرے محکموں کا کاروبار اردو میں چلتا ہے۔ دفتری اصطلاحات کا مسئلہ ایک بڑی حد تک حل ہو چکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس تمام مواد سے کام لیا جائے اور سرکاری سطح پر دفتروں میں اردو زبان کو رائج کر دیا جائے۔“
اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری گماشتے اور جاگیردار طبقہ ہیں جن کے مفادات انگریزی سے وابستہ ہیں انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ انگریزی کی بالادستی کا خاتمہ ایک نئے دور کی تمہید بن جائے گا اور اردو کے نفاذ سے نچلے اور متوسط طبقے کو قومی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اقوامِ عالم اپنی زبان سے محبت کرتی ہیں اور زبان کو اپنی شناخت کا حوالہ سمجھتی ہیں۔
جن اقوام نے ایک طویل عرصے تک غلامی کے دکھ اٹھائے ہوں۔ غلامی سے آزادی کا سفر طے کرنے کے باوجود مذکورہ اقوام ذہنی غلامی کے طوق سے آزاد نہیں ہو پاتیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں قومی زبان کو اپنی بقاءکے لیے ایک مسلسل جنگ کا سامنا ہے، لوگ اپنی ہی زبان کے نفاذ سے گریزاں ہیں، اردو کو تعلیم کی زبان بنانے یا دفاتر اور کاروباری معاملات میں مرکزی حیثیت عطا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پاکستانی ہیں۔ پاکستان میں انگریزی، اشرافیہ کی زبان ہے۔ پاکستان میں برساتی کھمبیوں کی طرح انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامل اسکولوں کی افزائش ایک قومی المیہ ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے تمام تر وسایل مذکورہ اسکولوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ملک میں تعلیم کے حوالے سے دو میڈیم ہونے سے پاکستانی قوم آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن چکی ہے:
ڈاکٹر سید عبداللہ، تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں نفاذِ اردو کے داعی تھے:
”قومی زندگی کے باقی شعبوں میں مثلاً دفتروں میں، عدالتوں میں، کچہریوں میں، جلسوں میں، کانفرنسوں میں غرض ہر جگہ اردو کی ترویج لازمی ہے تاکہ قوم کی قومیت پہچانی جائے۔“
ڈاکٹر سید عبداللہ، نفاذِ اردو کے لیے ملک گیر اردو تدریس کانفرنسوں کے انعقاد، نصابات کی ازسرنو تشکیل اور انشاء یا دفتری زبان کا پرچہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبیاتی ذخیرے کو وسیع اور فراواں بنانے پر زور دیتے ہیں۔
اردو کے عملی نفاذ کے ضمن مےں بعض اصحاب، جدےد علوم و فنون کے حوالے سے اردو کی تنگ دامانی کا شکوہ کرتے ہےں اور اس حوالے سے اردو رسم الخط پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو رسم الخط اور صوتیات میں غیرمعمولی وسعت پائی جاتی ہے۔
اردو کے عملی نفاذ کے مخالفین، جدید سائنسی اصطلاحات کے اردو میں تراجم پر خاصی تنقید کرتے ہیں۔ اب یہ سوچ فرسودہ ہو چکی ہے کہ علوم و فنون کے حوالے سے مستعمل ہر اصطلاح کو مفرس و معرب سانچے میں ڈھال کر قوم پر مسلط کر دیا جائے۔ کمپیوٹر، موبایل فون اور اس طرح کے بے شمار الفاظ اپنے اصل نام کے ساتھ اردو میں رواج پا چکے ہیں۔ اصطلاح سازی کے عمل میں آسانیاں پیدا ہونے سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے۔
زندہ زبان کی بنیادی خاصےت ہی ےہی ہوتی ہے کہ اس کا دامن کشادہ ہوتا ہے اور علوم و فنون کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلےاں اور اصطلاحات اس کے قالب میں سماتی چلی جاتی ہیں، کوئی زبان بھی اس امر کا دعویٰ نہیں کر سکتی کہ دنیا کی تمام علمی و فنی اصطلاحیں، اس کے قالب میں ڈھل چکی ہیں۔ بقول آفتاب حسن:
”جس زبان کو بھی زندہ زبان ہونے کا دعویٰ ہے اس کو زندہ علوم کے ساتھ چلنا ہو گا اور ضرورت کے نئے الفاظ اور اصطلاحوں کو وضع کرتے جانا ہو گا۔ یہ سلسلہ جاری رہنا ہے۔ یہاں جمود سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو کے لیے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔ کہا صرف یہ جاتا ہے کہ اس میں تعلیمی، درسی، دفتری اور انتظامی ضروریات کی بیش تر اصطلاحیں موجود ہیں جو نہیں ہیں وہ بنتی اور بنائی جا رہی ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ےیاں جو اصطلاحیں تیار ہوئی ہیں ان میں سے بعض قابلِ قبول نہ ہوں، ہر ادارہ اس کے لیے تیار رہتا ہے کہ اگر اس کی غلطی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اپنی اصلاح کر لے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اب نظری مباحث میں پڑنے کے بجائے عملی قدم پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ منزلِ مقصود متعین ہے۔“
لفظ اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے زندگی وابستہ ہے۔ ایک لفظ کے ایک سے زاید مفاہیم ہو سکتے ہیں اور ایک معنی کی ترسیل کے لیے بہت سے الفاظ ہو سکتے ہیں، لفظ اور معانی کا رشتہ زبان کی توسیع کا سبب بنتا ہے۔ اصوات کو محفوظ کرنے کے لیے رسم الخط کے حروف ڈھالے گئے۔ جس طرح کوئی زبان مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اسی طرح آوازوں کے تعین سے حروف سازی کا عمل آگے بڑھتا رہا۔
رسم الخط بنیادی طور پر مختلف آوازوں کی تحریری علامتوں کا ایک مربوط نظام ہے۔
اردو رسم الخط، عربی سے مستعار لیا گیا، عربی اور اردو کے رسم الخط میں فرق کے باعث یہ رسم الخط، اردو کی تمام ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہا۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری
”جب یہ رسم الخط ایران میں اپنایا گیا تو ایرانی زبان کے صوتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں کچھ اضافے کےے گئے پھر جب یہ ہندوستان پہنچا اور اردو زبان کے لیے اختیار کیا گیا تو اس کے حروف میں اس زبان کی ضروریات کے مطابق مزید اضافے ہوئے، پھر بھی اس میں بہت کچھ کمی رہ گئی ہے۔“
اردو کے بعض نام نہاد ماہرین لسانیات اور دانش ور کچھ عرصے سے اردو رسم الخط کو رومن رسم الخط میں ڈھالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مذکورہ بالا رویہ اردو دشمنی کا عکاس نظر آتا ہے، اس لیے اردو رسم الخط میں بہتری اور اصلاح کی گنجایش تو ہو سکتی ہے مگر اردو رسم الخط کو ترک کر دینے سے ہمارا بیش قدر علمی اور ادبی ذخیرہ ضایع ہو جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، یہ ہے:
”رومن میں ہر حرف جدا لکھا جاتا ہے اس میں نہ ارکان کی تقسیم کا لحاظ ہے، نہ حرکت اور سکون کا اہتمام۔ اگر پڑھنے والا کسی لفظ کا تلفظ نہیں جانتا یا اس نے نہیں سنا تو وہ جہاں چاہے لفظ کو توڑ کر رکنوں میں تقسیم کر دے۔ جس حرف کو چاہے، متحرک بولے اور جس کو چاہے ساکن، کیونکہ اس میں اوّل کو حروفِ علت ہی پانچ ہیں اور پھر اَسُروں کے لیے ایسے جُٹ کے جُٹ نظر آتے ہےں جن کے درمیان کوئی حرفِ علت ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے رومن کا پڑھنا بہت کچھ پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ اردو رسم الخط میں بعض حرف موصل ہوتے ہیں، بعض غیرموصل، جو حروف ملا کر لکھے جاتے ہیں ان میں بھی اور جو الگ الگ لکھے جاتے ہیں، ان میں بھی بعض متحرک ہوتے ہیں اور بعض ساکن، ان کو ملا کر لکھنے یا نہ لکھنے سے ان کی حرکت اور سکون کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں حرکت اور سکون کی علامات تو مقرر ہے لیکن ناکافی ہیں اور جو ہیں وہ بھی پابندی سے نہیں لگائی جاتیں۔“
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو رسم الخط کو ترک کرنے کی بجائے اس میں جامعیت پیدا کی جائے اور ایک معیاری رسم الخط وضع کر کے اس پر اصرار کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف اردو کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہو گی بلکہ دفتری اردو کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت ہو گی۔
نفاذِ اردو سے عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اردو میں عدالتی فیصلہ نویسی سے انصاف کے حصول میں آسانی ہو گی اور عام آدمی کی دشواریاں کم ہوں گی اور ملک کے طول و عروض میں قومی وحدت کا عمل مستحکم ہو گا۔
اردو نہ صرف ہماری قومی زبان ہے بلکہ ےہ واحد زبان ہے جو خیبرپختونخوا سے کراچی تک سبھی پاکستانی سمجھتے ہےں اور اسے بجا طور پر موثر رابطے کی زبان کے طور پر قبولیت حاصل ہے۔ اردو اس اعتبار سے دنیا کی ایک ایسی موثر زبان ہے جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحات کو جذب کرنے اور اپنے مزاج کے سانچے میں ڈھالنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ اس میں عدالتی، دفتری اور تدریسی زبان بننے کی غیرمعمولی صلاحیت اور استعداد پائی جاتی ہے۔ اردو میں الفاظ و تراکیب کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ اگر کسی اصطلاح کے لیے مناسب متبادل ترکیب وضع نہ کی جائے تو کسی دوسری زبان سے اخذ کیا جا سکتا ہے یا اس اصطلاح کو ترجمہ کیے بغیر اس کی اصل شکل میں مستعمل کیا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل پورے برصغیر کا مسلمان اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیتا تھا اور یہ امر ہر شبہے سے بالاتر تھا کہ آزادی کے بعد اردو ہی قومی اور سرکاری زبان ہو گی، برصغیر میں اردو کو شائستگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا دلایل سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے نفاذ کے ضمن میں نیک نیتی سے کام کیا جائے تو اردو کا عملی نفاذ نہ صرف ممکن ہے بلکہ کامیابی سے ہم کنار بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اردو کو اس کا جایز مقام نہ ملنے کے متعدد اسباب ہیں، جس میں سب سے بنیادی سبب غلامانہ سوچ ہے جس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قومی حمیت و غیرت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ازحد ضروری ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ اور انتظامیہ کے پاس قوت، اختیارات اور لامحدود وسایل تو ہیں مگر ان کی تربیت کے پس پردہ انگریزی موجود ہے اور یہ مراعات یافتہ طبقہ انگریزی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اردو زبان قومی وحدت اور یک جہتی کی علامت ہے۔ پاکستانی کے آئین میں اردو کے نفاذ کے ساتھ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے بھی خصوصی اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
قومی یک جہتی کے ضمن میں کسی زبان کے کردار کا جایزہ لینا مقصود ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ زبان ملک کے طول و عرض مےں ابلاغ کا فریضہ انجام دیتی ہوں، معاشرتی اور ثقافتی رابطوں میں اس کا کردار موثر ہو، علمی اور تعلیمی ضروریات پورا کرتی ہو اور دفتری ضرورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اردو بطورِ زبان مندرجہ بالا چاروں ضروریات کو کماحقہ، پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تحریکِ پاکستان میں اسلام کے بعد اردو کو ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے امتزاج کا نام ہے۔ ایک پاکستانی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں پر عبور حاصل کرے، اس لیے صرف اردو جاننے والا پورے پاکستان میں کسی بھی زبان بولنے والے فرد سے مکالمہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ صرف اور صرف اردو ہی سماجی اور ثقافتی رابطوں کی زبان قرار دی جا سکتی ہے۔
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اردو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہماری تہذیبی شناخت کا معتبر حوالہ اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔ اردو کا سرکاری سطح پر نفاذ ایک اہم آئینی تقاضا اور قومی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نفاذِ اردو کے مسئلے کو کسی حکومت نے سنجےدگی سے نہےں لےا۔ اربابِ علم و دانش نے اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے مسلسل خامہ فرسائی کی ہے۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی:
”ہمیں اردو کو بحیثیت قومی زبان جو درجہ دینا ہے اس میں اردو کی حیثیت ایک ایسی قومی زبان کی ہے جس میں مسلمانوں کا بیش تر علمی اور فکری سرمایہ محفوظ ہے، جس جس ملک میں اسلام پہنچا وہاں کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی مسائل میں قومی زبانوں کو ہی اہمیت دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لیے بھی قومی زبان کا درجہ ضروری ہے۔ اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لیے ان تمام حیثیتوں سے اردو کو اس کا مناسب حق دینا بہت ضروری ہے۔پاکستان کے باشندوں کے لیے اردو کی حیثیت قومی زبان کی ہے اس لیے اسے ذریعہ اظہار کا وسیلہ ہونا چاہیے۔جب ہم اردو کو قومی زبان کا درجہ دلانا چاہتے ہےں تو ہمارے نزدیک اردو کے لیے وہ مقام ہے جو بطور ذریعہ تعلیم اب تک انگریزی کو حاصل ہے۔ کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی معاملات میں انگریزی کی جگہ اردو کو حاصل ہونی چاہیے، لیکن اردو کو اس کا جایز حق اس وقت ملے گا جب ہماری ذہنیت بدلے گی، ہم نے نیا ملک تو حاصل کر لیا ہے لیکن تقریباً تین سو برس کی غلامی نے ذہنوں میں تقلید کا جو بیج بو دیا ہے وہ ابھی تک پھل لا رہا ہے۔ بعض لوگ اردو میں اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ معاشرتی زندگی میں ہر وہ آدمی جو انگریزی میں خط و کتابت نہیں کرتا اور شائستہ مجالس میں انگریزی بولنے سے گریز کرتا ہے۔ غیرمہذب سمجھا جاتا ہے۔ہم انگریزی کو یہاں ذریعہ تعلیم رکھنے کے مخالف ہیں لیکن انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں۔ کسی زبان کی تدریس اور بات ہے، لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنا لینا بالکل جدا چیز ہے۔۔اردو کو دفتری حیثیت دینے کے بھی ایسے ہی حیلے، بہانے تراشے جاتے ہیں۔ عدالتی زبان کے طور پر اردو مدتوں سے رائج ہے، صرف اسے اعلیٰ عدالتوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ دیہات میں پولیس اور دوسرے محکموں کا کاروبار اردو میں چلتا ہے۔ دفتری اصطلاحات کا مسئلہ ایک بڑی حد تک حل ہو چکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس تمام مواد سے کام لیا جائے اور سرکاری سطح پر دفتروں میں اردو زبان کو رائج کر دیا جائے۔“
اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری گماشتے اور جاگیردار طبقہ ہیں جن کے مفادات انگریزی سے وابستہ ہیں انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ انگریزی کی بالادستی کا خاتمہ ایک نئے دور کی تمہید بن جائے گا اور اردو کے نفاذ سے نچلے اور متوسط طبقے کو قومی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اقوامِ عالم اپنی زبان سے محبت کرتی ہیں اور زبان کو اپنی شناخت کا حوالہ سمجھتی ہیں۔
جن اقوام نے ایک طویل عرصے تک غلامی کے دکھ اٹھائے ہوں۔ غلامی سے آزادی کا سفر طے کرنے کے باوجود مذکورہ اقوام ذہنی غلامی کے طوق سے آزاد نہیں ہو پاتیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں قومی زبان کو اپنی بقاءکے لیے ایک مسلسل جنگ کا سامنا ہے، لوگ اپنی ہی زبان کے نفاذ سے گریزاں ہیں، اردو کو تعلیم کی زبان بنانے یا دفاتر اور کاروباری معاملات میں مرکزی حیثیت عطا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پاکستانی ہیں۔ پاکستان میں انگریزی، اشرافیہ کی زبان ہے۔ پاکستان میں برساتی کھمبیوں کی طرح انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامل اسکولوں کی افزائش ایک قومی المیہ ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے تمام تر وسایل مذکورہ اسکولوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ملک میں تعلیم کے حوالے سے دو میڈیم ہونے سے پاکستانی قوم آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن چکی ہے:
ڈاکٹر سید عبداللہ، تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں نفاذِ اردو کے داعی تھے:
”قومی زندگی کے باقی شعبوں میں مثلاً دفتروں میں، عدالتوں میں، کچہریوں میں، جلسوں میں، کانفرنسوں میں غرض ہر جگہ اردو کی ترویج لازمی ہے تاکہ قوم کی قومیت پہچانی جائے۔“
ڈاکٹر سید عبداللہ، نفاذِ اردو کے لیے ملک گیر اردو تدریس کانفرنسوں کے انعقاد، نصابات کی ازسرنو تشکیل اور انشاء یا دفتری زبان کا پرچہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبیاتی ذخیرے کو وسیع اور فراواں بنانے پر زور دیتے ہیں۔
اردو کے عملی نفاذ کے ضمن مےں بعض اصحاب، جدےد علوم و فنون کے حوالے سے اردو کی تنگ دامانی کا شکوہ کرتے ہےں اور اس حوالے سے اردو رسم الخط پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو رسم الخط اور صوتیات میں غیرمعمولی وسعت پائی جاتی ہے۔
اردو کے عملی نفاذ کے مخالفین، جدید سائنسی اصطلاحات کے اردو میں تراجم پر خاصی تنقید کرتے ہیں۔ اب یہ سوچ فرسودہ ہو چکی ہے کہ علوم و فنون کے حوالے سے مستعمل ہر اصطلاح کو مفرس و معرب سانچے میں ڈھال کر قوم پر مسلط کر دیا جائے۔ کمپیوٹر، موبایل فون اور اس طرح کے بے شمار الفاظ اپنے اصل نام کے ساتھ اردو میں رواج پا چکے ہیں۔ اصطلاح سازی کے عمل میں آسانیاں پیدا ہونے سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے۔
زندہ زبان کی بنیادی خاصےت ہی ےہی ہوتی ہے کہ اس کا دامن کشادہ ہوتا ہے اور علوم و فنون کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلےاں اور اصطلاحات اس کے قالب میں سماتی چلی جاتی ہیں، کوئی زبان بھی اس امر کا دعویٰ نہیں کر سکتی کہ دنیا کی تمام علمی و فنی اصطلاحیں، اس کے قالب میں ڈھل چکی ہیں۔ بقول آفتاب حسن:
”جس زبان کو بھی زندہ زبان ہونے کا دعویٰ ہے اس کو زندہ علوم کے ساتھ چلنا ہو گا اور ضرورت کے نئے الفاظ اور اصطلاحوں کو وضع کرتے جانا ہو گا۔ یہ سلسلہ جاری رہنا ہے۔ یہاں جمود سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو کے لیے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔ کہا صرف یہ جاتا ہے کہ اس میں تعلیمی، درسی، دفتری اور انتظامی ضروریات کی بیش تر اصطلاحیں موجود ہیں جو نہیں ہیں وہ بنتی اور بنائی جا رہی ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ےیاں جو اصطلاحیں تیار ہوئی ہیں ان میں سے بعض قابلِ قبول نہ ہوں، ہر ادارہ اس کے لیے تیار رہتا ہے کہ اگر اس کی غلطی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اپنی اصلاح کر لے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اب نظری مباحث میں پڑنے کے بجائے عملی قدم پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ منزلِ مقصود متعین ہے۔“
لفظ اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے زندگی وابستہ ہے۔ ایک لفظ کے ایک سے زاید مفاہیم ہو سکتے ہیں اور ایک معنی کی ترسیل کے لیے بہت سے الفاظ ہو سکتے ہیں، لفظ اور معانی کا رشتہ زبان کی توسیع کا سبب بنتا ہے۔ اصوات کو محفوظ کرنے کے لیے رسم الخط کے حروف ڈھالے گئے۔ جس طرح کوئی زبان مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اسی طرح آوازوں کے تعین سے حروف سازی کا عمل آگے بڑھتا رہا۔
رسم الخط بنیادی طور پر مختلف آوازوں کی تحریری علامتوں کا ایک مربوط نظام ہے۔
اردو رسم الخط، عربی سے مستعار لیا گیا، عربی اور اردو کے رسم الخط میں فرق کے باعث یہ رسم الخط، اردو کی تمام ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہا۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری
”جب یہ رسم الخط ایران میں اپنایا گیا تو ایرانی زبان کے صوتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں کچھ اضافے کےے گئے پھر جب یہ ہندوستان پہنچا اور اردو زبان کے لیے اختیار کیا گیا تو اس کے حروف میں اس زبان کی ضروریات کے مطابق مزید اضافے ہوئے، پھر بھی اس میں بہت کچھ کمی رہ گئی ہے۔“
اردو کے بعض نام نہاد ماہرین لسانیات اور دانش ور کچھ عرصے سے اردو رسم الخط کو رومن رسم الخط میں ڈھالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مذکورہ بالا رویہ اردو دشمنی کا عکاس نظر آتا ہے، اس لیے اردو رسم الخط میں بہتری اور اصلاح کی گنجایش تو ہو سکتی ہے مگر اردو رسم الخط کو ترک کر دینے سے ہمارا بیش قدر علمی اور ادبی ذخیرہ ضایع ہو جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، یہ ہے:
”رومن میں ہر حرف جدا لکھا جاتا ہے اس میں نہ ارکان کی تقسیم کا لحاظ ہے، نہ حرکت اور سکون کا اہتمام۔ اگر پڑھنے والا کسی لفظ کا تلفظ نہیں جانتا یا اس نے نہیں سنا تو وہ جہاں چاہے لفظ کو توڑ کر رکنوں میں تقسیم کر دے۔ جس حرف کو چاہے، متحرک بولے اور جس کو چاہے ساکن، کیونکہ اس میں اوّل کو حروفِ علت ہی پانچ ہیں اور پھر اَسُروں کے لیے ایسے جُٹ کے جُٹ نظر آتے ہےں جن کے درمیان کوئی حرفِ علت ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے رومن کا پڑھنا بہت کچھ پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ اردو رسم الخط میں بعض حرف موصل ہوتے ہیں، بعض غیرموصل، جو حروف ملا کر لکھے جاتے ہیں ان میں بھی اور جو الگ الگ لکھے جاتے ہیں، ان میں بھی بعض متحرک ہوتے ہیں اور بعض ساکن، ان کو ملا کر لکھنے یا نہ لکھنے سے ان کی حرکت اور سکون کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں حرکت اور سکون کی علامات تو مقرر ہے لیکن ناکافی ہیں اور جو ہیں وہ بھی پابندی سے نہیں لگائی جاتیں۔“
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو رسم الخط کو ترک کرنے کی بجائے اس میں جامعیت پیدا کی جائے اور ایک معیاری رسم الخط وضع کر کے اس پر اصرار کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف اردو کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہو گی بلکہ دفتری اردو کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت ہو گی۔
نفاذِ اردو سے عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اردو میں عدالتی فیصلہ نویسی سے انصاف کے حصول میں آسانی ہو گی اور عام آدمی کی دشواریاں کم ہوں گی اور ملک کے طول و عروض میں قومی وحدت کا عمل مستحکم ہو گا۔
اردو نہ صرف ہماری قومی زبان ہے بلکہ ےہ واحد زبان ہے جو خیبرپختونخوا سے کراچی تک سبھی پاکستانی سمجھتے ہےں اور اسے بجا طور پر موثر رابطے کی زبان کے طور پر قبولیت حاصل ہے۔ اردو اس اعتبار سے دنیا کی ایک ایسی موثر زبان ہے جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحات کو جذب کرنے اور اپنے مزاج کے سانچے میں ڈھالنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ اس میں عدالتی، دفتری اور تدریسی زبان بننے کی غیرمعمولی صلاحیت اور استعداد پائی جاتی ہے۔ اردو میں الفاظ و تراکیب کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ اگر کسی اصطلاح کے لیے مناسب متبادل ترکیب وضع نہ کی جائے تو کسی دوسری زبان سے اخذ کیا جا سکتا ہے یا اس اصطلاح کو ترجمہ کیے بغیر اس کی اصل شکل میں مستعمل کیا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل پورے برصغیر کا مسلمان اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیتا تھا اور یہ امر ہر شبہے سے بالاتر تھا کہ آزادی کے بعد اردو ہی قومی اور سرکاری زبان ہو گی، برصغیر میں اردو کو شائستگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا دلایل سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے نفاذ کے ضمن میں نیک نیتی سے کام کیا جائے تو اردو کا عملی نفاذ نہ صرف ممکن ہے بلکہ کامیابی سے ہم کنار بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اردو کو اس کا جایز مقام نہ ملنے کے متعدد اسباب ہیں، جس میں سب سے بنیادی سبب غلامانہ سوچ ہے جس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قومی حمیت و غیرت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ازحد ضروری ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ اور انتظامیہ کے پاس قوت، اختیارات اور لامحدود وسایل تو ہیں مگر ان کی تربیت کے پس پردہ انگریزی موجود ہے اور یہ مراعات یافتہ طبقہ انگریزی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اردو زبان قومی وحدت اور یک جہتی کی علامت ہے۔ پاکستانی کے آئین میں اردو کے نفاذ کے ساتھ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے بھی خصوصی اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
قومی یک جہتی کے ضمن میں کسی زبان کے کردار کا جایزہ لینا مقصود ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ زبان ملک کے طول و عرض مےں ابلاغ کا فریضہ انجام دیتی ہوں، معاشرتی اور ثقافتی رابطوں میں اس کا کردار موثر ہو، علمی اور تعلیمی ضروریات پورا کرتی ہو اور دفتری ضرورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اردو بطورِ زبان مندرجہ بالا چاروں ضروریات کو کماحقہ، پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تحریکِ پاکستان میں اسلام کے بعد اردو کو ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے امتزاج کا نام ہے۔ ایک پاکستانی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں پر عبور حاصل کرے، اس لیے صرف اردو جاننے والا پورے پاکستان میں کسی بھی زبان بولنے والے فرد سے مکالمہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ صرف اور صرف اردو ہی سماجی اور ثقافتی رابطوں کی زبان قرار دی جا سکتی ہے۔