پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ، ممتاز دانش ور او محقق ہیں۔ پاکستان کے ساتھ محبت کا خصوصی تعلق رکھتے ہیں۔ دو برس قبل پاکستان تشریف لائے اور یونس ایمرے ترک کلچرل سنٹر قائم کیا۔ ان کے قیام پاکستان کے دوران ترک تعلقات کو جو ہمیشہ سے غیر معمولی گیرائی اور گہرائی رکھتے ہیں، ایک نئی توانائی ملی۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر صاحب نے اپنی سالگرہ منائی ،اس موقع پر انھوں نے ایک دل گداز نظم کہی جو صرف ان کی اپنی کہانی بیان نہیں کرتی بلکہ ہر صاحب دل کے تجربے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی یہ نظم ازراہ محبت”آوازہ” کو عطا کی جو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
************************
آج پھر میری سالگرہ آپہنچی ہے کہیں سے
ایک دن اور کٹ گیا ہے میری زندگی سے
ایک سبز پتا اور سوکھ کر گر پڑا عمر کے پیڑ سے
ایک دن اور بڑھ گیا جدائی کی مہلت میں
ایک بوجھ اور لادا گیا میرے لاچار کندھے پہ
ایک اور پھول ٹوٹا امیدوں کی شاخ سے
ایک رات اور بیت گئی گنتی کی راتوں سے
ایک اور شمع بجھ گئی دل کی تاریکیوں سے
آج پھر میری سالگرہ آپہنچی ہے کہیں سے
پھر لٹادیے میں نے اپنی جوانی کے خزانے
پھر ایک سفید لکیر چمکی میرے بکھرے بالوں میں
ایک محزون شکن کا اضافہ ہوا ماتھے کی بنجر زمین پہ
خم ہوئی میری کمر ایک ناپید ظلم سے
اور جھک گیا میرا سر پھر ایک نامعلوم غم سے
آج پھر میری سالگرہ آپہنچی ہے کہیں سے
نجانے کون سی سالگرہ تھی
میری ناتمام حسرتوں کی
یہ کون سی سالگرہ ہے
میری پہلی یا آخری خطاؤں کی
اور یہ کون سی سالگرہ ہوگی
جو چراغ میں نے جلایا تھا
اچانک بجھادیا گیا
اپنی ان کہی مغموم آہوں کے دم سے
آج پھر میری سالگرہ آپہنچی ہے کہیں سے
مجھے نہیں تھا انتظار مگر
پھر بھی کہیں سے آگئی ہے۔
{خلیل طوقار خلیل}