کچھ عر صہ قبل اپنی فیملی کے ساتھ آؤ ٹنگ کے لئے پشا ور پہنچا تو وہاں کا ایک مقامی جگر ی دوست، جو بہت اچھے عہدے پر تھا، اپنی فیملی سمیت ہمیں چر سی کے تکے کھلا نے کے بعد کا ر خا نو با زار دکھا نے لے گیا۔عو رتیں جب کسی بازار میں خریداری کے لئے جائیں تو شو ہروں کے لئے یہ ایک صبر آزما اور حو صلہ شکن مر حلہ ہو تا ہے کیو نکہ عورتوں نے ہر دوکان میں داخل ہو نا ہو تا ہے اور وہاں پڑ ی ہو ئی ہر وہ چیز الٹ پلٹ کر دیکھنی ہو تی ہے جو انہوں نے نہیں خر ید نی ہوتی۔ایسا کرتے ہو ئے وہ قیمت بھی پو چھتی جاتی ہیں اور متعلقہ آئٹم پر بے ربط و بے نقط تبصرہ و تنقید بھی کر تی جا تی ہیں جب کہ دوکاندار بیچا رہ آنٹی، با جی کر تا ہوا کبھی کسی چیز کی خو بیاں گنوا رہا ہو تا ہے اور کبھی کسی شے کی نزا کتیں…اور پھر رسمی انداز سے مختلف دوکا نیں گھو منے کے بعد جب خوا تین کو اندازہ ہو جا تا ہے کہ انہوں نے کیا خر ید نا ہے تو بھا ئو تا ئو کا مسئلہ آڑے آجا تا ہے جو ہمہ تن گو ش ہو کر اس قدر با ریک بینی سے طے کیا جا تا ہے جیسے شملہ معا ہد ہ طے ہو رہا ہو تا ہم ہما ری بیگم ایسی نہیں ہیں، کم از کم اس دوسرے مر حلے یعنی قیمت کے سلسلے میں۔ ( واضح رہے کہ یہ جھوٹ میں اپنی بیگم کے خوف سے لکھ رہا ہوں) اگر (یہا ں”اگر” کا لفظ بہت اہم ہے کیو نکہ انہیں مشکل سے ہی کو ئی چیز پسند آتی ہے، خود میں انہیں بڑی مشکل سے پسند آیا تھا) انہیں کو ئی چیز پسند آ جا ئے تو قیمت پو چھ کر فوراًمجھے اشا رہ کر دیتی ہیں کہ ادا کر دیجئے۔
کارخانو با زار میں بھی ہما رے ساتھ یہی ہوا۔ خوا تین اور بچے تو دوکان کے اندر داخل ہو گئے اور میں دوکان کے با ہر کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ آپ بخو بی سمجھ سکتے ہیں کہ اس ”ادھر ادھر دیکھنے” سے میر ی کیا مراد ہے۔ اچا نک میں نے دیکھا کہ اس دوکاندار نے با ہر کی طر ف برآمدے میں بہت عمدہ ہینڈ بیگ رکھے ہو ئے ہیں ۔ بز عم خو یش، دانشور و شاعر ہو نے کے نا تے مجھے ہینڈ بیگ بہت پسند ہیں چنا نچہ وقت گزاری کے لئے میں انہیں دیکھنے میں مصروف ہو گیا اور چمڑ ے کا ایک ہینڈ بیگ مجھے بہت ہی اچھا لگا۔میں اسے ہینڈل سے پکڑ کر ابھی تول ہی رہا تھا کہ بیگم مع تمام پا رٹی کے باہر نکل آئیں……اور پھر عجلت کے باعث بے دھیا نی میں اس ہینڈ بیگ سمیت میں گھر والوں کے ساتھ ہو لیا۔ دراصل میں ہر وقت ایک ہینڈ بیگ اپنے ساتھ اپنے ہا تھ میں رکھتا ہوں اور یہ ایک طر ح سے میر ے وجود کا جزو لا ینفک بن چکا ہے مگر اس روز چو نکہ بیگم کے ساتھ شا پنگ پر جا نا تھا اس لئے گھر سے چلتے وقت اس کی ضرورت محسو س نہ ہو ئی اور میں لا شعوری طور پر اس نئے ہینڈ بیگ کو اپنا بیگ سمجھ کر ہا تھ میں اٹھا تے پھرا۔ ما لک کے علاوہ اس دوکان میں چار پا نچ ملا زم اور بھی تھے مگر ان میں سے بھی کسی نے با ور نہ کرا یا اور مجھ سے تو خیر اس صورت حال کا شعور ہی چھن چکاتھا۔ بیگم مختلف دوکا نوں سے چیز یں خر ید تی جا رہی تھیںاور ڈرا ئیور انہیںاٹھا اٹھا کر ڈگی بھرتا جا رہا تھا۔ بعد ازاں بھی میں یہی بر یف کیس ہا تھ میں پکڑ ے کم از کم دو بار پو ری پا رٹی سمیت اسی دوکان کے آگے سے گزرا ہوں گا مگر نہ دوکان والوں کو دھیان آیا نہ مجھے۔چا ر پا نچ گھنٹے کا رخا نو بازار میں گزارنے کے بعد ہم کار میں بیٹھے اور اسلام آباد واپس آگئے۔گھر آکر بیگم نے جب سا مان اندر رکھوایا تو اچا نک اس ہینڈ بیگ کو دیکھ کر بو لی!یہ آپ نے کب خر یدا ؟۔ اب چو نکہ میر ے ہوش ٹھکا نے آچکے تھے چنا نچہ میں نے اسے سا را ما جرا کہہ سنا یا۔ ہم دونوں سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ تو دوکاندار کے ساتھ بڑی زیا دتی ہو گئی ہے حا لا نکہ اس نے ہما رے ساتھ بہت ہی اچھا سلو ک کیا تھا مگر اب اس کی تلا فی کیسے کی جائے؟
(2)
کہاں پشاور اور کہاں اسلا م آباد۔اچا نک بیگم کچھ سوچ کر بو لیں، ٹھہر ئیے! میں بل دیکھتی ہوں اگر اس پر دوکاندار کا فون درج ہے تو فون کر کے اس بیگ کی قیمت پو چھ لیتے ہیں اور اسے آن لا ئن پے منٹ کر دیتے ہیں ۔ یہ کہہ کر اس نے پرس کھو لا تو اس میں سے رسیدنکل آئی۔ میں نے فوراً فون ملا یا اور ندا مت بھر ے لہجے میں سا را قصہ سنا کر ابھی قیمت پو چھی ہی تھی کہ آگے سے حاجی امین صا حب فر ما نے لگے !دیکھیں! آپ ایک مشہور ومعروف شا عر اور ہما رے ملک کا قیمتی سر ما یہ ہیں۔ ہم نے آپ کو پہچان لیا تھا اور اندر سی سی کیمر ے پر دیکھ رہے تھے کہ آپ مختلف بیگوں کا با ریک بینی سے جا ئزہ لے رہے ہیں اور پھر جب آپ ایک بیگ اٹھا کر چل پڑ ے تو دل خوش ہو گیا کہ اتنے بڑ ے آدمی کے ہا تھ میں ہماری دوکان کا بیگ ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہے گا۔ قیمت شیمت کو چھوڑو، بس یہ ہما ری طرف سے آپ کے لئے تحفہ ء درویش ہے۔ قیمت لینی ہو تی تو اسی وقت آپ کو روک کر لے لیتے ۔ میں نے مز ید تھو ڑی سی کو شش کی مگر خان صاحب نے ایک نہ سنی اور بو لے ہم خا ندا نی لوگ ہیں اور آپ ایک شر یف آدمی ۔ ہمیں پتہ تھا کہ آپ دانستہ نہیں بلکہ شاعر انہ بے خیا لی میں غلطی سے اسے سا تھ لے جا رہے ہیں……میں حا جی امین گل آف کا رخا نو بازار کی اس گفتگو سے بے حد متا ثر ہوا اور دوہرا تہرا شکر یہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔
تھو ڑی دیر کے بعد میں نے اپنا ٹہور ٹہکابنا نے اور حا جی امین گل جیسے خا ندانی لو گوں کی عظمت اجا گر کر نے کے لئے اپنے اسی پشا وری دوست کو فون کر کے حا جی صا حب کی گفتگو دہرا ئی تو وہ دھا ڑ یں مار مار کر قہقہے لگا نے لگا اور تھو ڑی دیر بعد جب اس کی ہنسی رکی اور سا نس بحا ل ہوا تو بو لا! کو ئی ما ہر نفسیات کتنا ہی قا بل کیوں نہ ہو، ایک گو نگے کا نفسیا تی تجز یہ نہیں کر سکتا۔ حا جی امین گل میرا پرا نا واقف ہے اور ہمیشہ قا ئدے کی بجا ئے فا ئد ے کی با ت کر تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آدمی تو ایک پیسے کا نہیں مگر اس کے پاس پیسہ بہت ہے ۔ میر ے اور آپ جیسے لوگ 8 کے ہند سے کی طر ح ہو تے ہیں۔ کا غذ سید ھا دیکھیں یا الٹا وہ 8 ہی رہتے ہیں لیکن حا جی امین گل جیسے لوگ 6 کے ہند سے کی طر ح ہو تے ہیں ، جنہیں الٹا دیکھیں تو9 بن جا تے ہیں یعنی پھر بھی فا ئدے میں ہی رہتے ہیں…اُس نے اُسی وقت مجھ سے اس بیگ کے ساڑھے پانچ ہزار روپے دھرا لیے تھے، یہ کہہ کر کہ وہ دیکھو، تمہارا دوست قیمت ادا کئے بغیر چپکے سے ہما را بیگ اٹھا کر لے جا رہا ہے……لیکن میں نے تمہیں اس لئے نہیں بتا یا کہ تم پر میرا بھی تو کو ئی حق بنتا تھا۔ آخر تم میرے شہر میں آئے تھے چنانچہ اب اس بیگ کو میر ی طر ف سے گفٹ سمجھو، خُفیہ گفٹ۔
(ڈاکٹر انعام الحق جا وید کی زیر تر تیب کتاب سے ایک تحر یر)