حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک معروف اور جانثار صحابی تھے۔ ان کا اصل نام عویمر بن عامر ابن مالک الانصاری ہے اور کنیت ابو الدرداء ہے۔ان کی بیٹی کی نسبت سے ان کا کنیت ابو الدرداء ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ یا لڑکی جس کے دانت ٹوٹ چکے ہوں۔ آپ قبیلہ خزرج کے خاندان عید بن کعب سے ہیں اور مدینہ میں مقیم تھے۔ آپ انصار کے ایک صحابی، زاہد اور مشہور صوفی بزرگ تھے ۔ ان کو یہ شرف حاصل تھاکہ وہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان پانچ خوش نصیب صحابہ میں سے ایک تھے جو قرآن کریم کی آیتوں کو جمع کرنے کا کام کرتے تھے۔
حضرت ابو الدرداء کی ذہانت اور علم و حکمت پر اللہ تعالی کی خاص دین تھی۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا ہے کہ “عویمر میری امت کا حکیم (عقلمند) آدمی ہے”۔ اور کیونکہ ان کی باتیں ، حکمت و دانائی سے بھرپور تھیں اس لئے ان کے بارے میں صحابہ کہا کرتے تھے کہ ہم علم اور عمل کے لئے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے تھے۔
حضرت ابو الدرداء کو بہترین علماء میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے دور میں ملک شام کے عالم، فقیہ اور قاضی تھے۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اسلامی خلافت کے دار الحکومت مدینہ منورہ میں عدلیہ سنبھالی تھی۔ اور عثمان رضی للّٰہ عنہ کے عہد خلافت میں امیر معاویہ نے حضرت عثمان کی منظوری سے ان کو دمشق کا قاضی مقرر کیا۔
آنحضرت کی وفات کے بعد ابو الدرداء ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جو پورے قرآن کے حافظ بنے تھے۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم حفظ کیا تھا۔ وہ لوگوں کو قرآن کریم کا صحیح تلفظ اور درست مخارج پڑھنا سکھاتے تھے۔ علم کے طلب گاروں کو شرعی مسائل بتاتے تھے اور بچوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بھی سکھاتے تھے۔ ان سے روایت کردہ ۷۹ احادیث کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔
احد کی جنگ میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اسلام کی سربلندی کے لئے بڑی بہادری کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا تھا- وہ گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں آئے تھے۔ ان کی بہادری کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہترین شاہسوار قرار دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “عویمر کس قدر اچھے سوار ہیں”۔ احد کی جنگ کے علاوہ حضرت ابو الدرداء نے اسلامی ریاست کے متعدد غزوات اور فتوحات کا مشاہدہ کیا اور ان میں ان کا بڑا کردار تھا۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے پوری زندگی نہایت سادگی سے گزار دی تھی۔ وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تجارت کیا کرتے تھے۔ وہ بہت ہی دولتمند تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ عبادت کے ذوق اور گناہ کے ڈر سے تجارت کو ترک کر دیا۔ اور یادِ الہی میں مصروف ہو گئے اور اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر دیا۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ مشرک تھے اوراپنے گھر میں وہ ایک بت کی پوجا کرتے تھے۔ ایک دن گھر کے مالکان نے ان کے گھر داخل ہو کر ان کا بت توڑ دیا تھا۔ پھر حضرت ابو الدرداء نے بت کی باقیات جمع کرنا شروع کر دی تھی۔ اور اس وقت بت سے بات کر رہے تھے کہ “کیا تو اپنا دفاع نہیں کر سکتا؟!” تو ان کی اہلیہ ام الدرداء نے بت کے بجائے ان کا جواب دیا، کہ “اگر اس بت سے کوئی فائدہ ہے تو یہ سب سے پہلے اپنے خود کو فائدہ پہنچائے گا”۔
اس کے بعد حضرت ابو الدرداء نے غسل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ۔ اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ “ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ابو الدرداء اسلام قبول کریں گے”۔
حضرت ابو الدرداء کی ایک عمدہ سیرت تھی۔ انہوں نے ساری زندگی ایک زاہد کی حیثیت سے گزاری تھی۔ انہیں کبھی بھی دولت اور عیش وآرام کا مزہ نہیں آیا تھا۔ اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خلیفہ یزید بن معاویہ نے حضرت ابو الدرداء کی بیٹی سے شادی کے لئے پیش کش کی تھی۔ لیکن حضرت ابو الدرداء نے انکار کر دیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے ایک غریب آدمی سے اپنی بیٹی کی منگنی کروائی ۔ لوگوں کو جب یہ خبر ملی تو ابو الدرداء نے کہا کہ “آپ لوگ کیا سوچتے ہیں؟! میں نے سوچا تھا کہ میری بیٹی خلیفہ معاویہ سے شادی کرنے کے بعد کیا سوچے گی جب وہ دیکھے گی کہ اس کے سر پر تاج رکھے گئے ہیں اور جب ان مکانوں میں زندگی گزارے گی جہاں ہر چیز چمک رہی ہے۔
اس دن اس کا دین کہاں ہوگا؟!” حضرت ابو الدرداء کا مطلب یہ ہے کہ دولت اور شاہی ماحول ان کی بیٹی کے مذہب پر اثر ڈالیں گے اور وہ اپنا مذہب بھول جائے گی۔
ابو الدرداء ۷۲ سال کی عمر میں سن ۳۲ ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں فوت ہوئے اور ان کو دمشق میں دفن کیا گیا