ADVERTISEMENT
1985 کے انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ عزیزآباد بلاک 8 میں مین روڈ پر واقعہ مکان فیڈرل بی ایریا میں جماعت اسلامی کے امیدواروں مظفر احمد ہاشمی اور اخلاق احمد ( مرحومین) کا مرکزی انتخابی دفتر قرار پایا تھا- یہ مکان ہماری فیملی نے کچھ ہی دن قبل خالی کیا تھا اور اگلی گلی میں منتقل ہوئ تھی- لیکن ابھی چابی مالک مکان کے حوالے نہیں کی گئ تھی۔ اس دور میں پوسٹر لگانے یا بینر لگانے کے لیئے کسی کمپنی کی خدمات حاصل نہیں کی جاتی تھیں-
کارکنان راتوں کو دیر سے نکلتے۔ لئ کا ڈبہ، چاکنگ کے لیئے رنگ اور برش اور بینر لگانے کے لیئے سیڑھی ساتھ ہوتی!
دن کے اوقات میں حلقے کے مرد، عورتیں اور نوجوان بلکہ بچے بھی ووٹر کارڈ گھر گھر تقسیم کرتے- ہر روز ہی کہیں نہ کہیں کارنر میٹنگ وغیرہ ہوا کرتی تھی ۔۔
رات جب جائزے کے لیئے سب لوگ جمع ہوتے تو ہم جیسوں کی ایک ہی فرمائش ہوا کرتی کہ چائے منگوائ جائے!
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں چائے کا کپ کتنے میں ملتا ہوگا؟
وہ بہرحال آج کے مقابلے میں سستا دور تھا۔
ہمارے حلقے کے ناظم خاموشی سے اپنے گھر جاتے اور ایک بڑے سے تھرماس میں چائے بنواکر لے آتے ۔۔۔
ان کی اس حرکت پر حیرت بھی ہوتی اور کبھی کبھی غصہ بھی آتا کہ بلاوجہ گھر والوں کو زحمت دیتے ہیں ۔۔
لیکن وہ عجیب مزاج کے آدمی تھے ۔۔۔ انجینئر تھے اور ایک نجی کمپنی میں بہت بڑے عہدے پر فائز تھے ۔۔۔
کہا کرتے کہ الیکشن فنڈ امانت ہے ۔۔۔ اسے ہوٹل کی چائے پر کیسے خرچ کردیں!
متحدہ کے غیر معمولی غلبے کے دوران بھی حلقے کے ناظم رہے اور سخت سے سخت حالات میں بھی ہمت و جرات اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے-
90 کی دہائی میں ایک بار جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب کے متاثرین کے لیئے فنڈ جمع کرنے کا اعلان کیا-
عید کا موقع تھا- ناظم صاحب نے فرمایا کہ جناح گراونڈ میں سیلاب فنڈ جمع کیا جائے گا-
ذرا سوچیئے کہ وہ میدان جہاں الطاف حسین اور متحدہ کی پوری قیادت نماز عید ادا کرتی تھی اور ظاہر ہے کہ ہزاروں کا مجمع ہوا کرتا تھا ۔۔ وہاں نماز سے قبل جماعت اسلامی کے بینر کے ساتھ دس بارہ لوگ سیلاب فنڈ جمع کریں گے ۔۔۔ تصور ہی عجیب تھا
کچھ لوگوں نے مخالفت بھی کی لیکن فیصلہ تبدیل نہیں ہوا!
ان کی قیادت اور ان کی ذاتی سوزوکی کیری میں جب ہم لوگ جناح گراونڈ پہنچے تو نہ صرف متحدہ کے اسلحہ بردار کارکن بلکہ عام لوگ بھی آنکھیں پھاڑے ان احمقوں کو دیکھنے لگے جو اپنی موت کو دعوت دیتے ہوئے وہاں چلے آئے تھے- پلاسٹک کی ایک فولڈ ہوجانے والی ٹیبل ہمارے ساتھ تھی- ناظم صاحب نے اعلان کرنا شروع کیا ” بنگلہ دیش کے سیلاب زدگان کی مدد کیجئے- اپنے پریشان حال مسلمان بھائ بہنوں کی مدد کیجئے” تو لوگوں نے ناقابل یقین انداز سے پیسے دینا شروع کردیئے!
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ ہی دیر میں متحدہ کے لڑکوں نے آکر بہت سختی سے بات کی اور کہا کہ تم لوگ تو پاگل ہو ۔۔۔ الطاف بھائ نے دیکھ لیا تو تمہارا جو حشر ہوگا وہ الگ بات ہے، ہماری شامت آجائے گی ۔۔۔
اس وقت تک کئی ہزار روپے جمع ہوچکے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ناظم حلقہ بڑے قد کے کوئی لحیم شہیم آدمی ہوں، وہ مناسب قد کے دبلے پتلے آدمی ہیں۔
ان کی اہلیہ نے محلے کے کئ بچوں اور بچیوں کو بغیر کسی معاوضے کے قرآن پاک پڑھایا۔
اس وقت ان کے بچے چھوٹے تھے اور ایک بچہ حفظ کررہا تھا لیکن وہ نہ صرف گھر کی تمام تر ذمہ داریوں کو نبھاتیں بلکہ جماعت اسلامی کی دعوتی سرگرمیوں کو بھی پورا وقت دیا کرتی تھیں۔
سچ یہ ہے کہ ان کا گھرانہ اس علاقے کا ایک آئیڈیل گھرانہ تھا!
مجھے ان سے وابستہ درجنوں واقعات یاد ہیں جو چراغوں کی مانند ہیں ۔۔ روشنی دینے اور حوصلہ بڑھانے والے واقعات, ان صاحب کا نام ہے سعید احمد کریمی ۔۔۔ اسماء باجی کے شوہر ۔۔۔سابقہ ناظمہ صوبہ محترمہ حامدہ عقیل کے بھائ ، انجینئر حافظ مزمل کے والد محترم ۔۔۔ اسامہ اسماعیل مراد صاحب کے ہم زلف ۔۔۔
ان دنوں کورونا میں مبتلا ہیں اور گلشن اقبال میں وبائی امراض کے سرکاری ہسپتال کے آئ سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہیں۔ دور حاضر میں ان کے جیسے عظمت کے مینار معاشرے میں بہت ہی کم نظر آتے ہیں
براہ کرم ہمارے ناظم صاحب “سعید کریمی” کو اپنی خصوصی دعاوں میں ضرور یاد رکھیں
اللہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے، آمین