اردوکے بیشترادبی جرائدمدیران ِ کرام کی زندگی کے ساتھ ہی دم توڑدیتے ہیں۔اس سلسلے میں سب سے بڑانام وزیرآغاکے”اوراق“کا ہے،جومحترم وزیرآغاکے بیٹے افسانہ نگاراورنقادسلیم آغاقزلباش(جن کاچندماہ پہلے ہی انتقال ہواہے)کے حیات ہونے کے باوجودبند ہو گیا۔معروف شاعرشبنم رومانی کاخوبصورت جریدہ”اقدار“بھی ان کی حیات تک ہی جاری رہا۔صہبالکھنوی کے”افکار“کواحباب نے ان کے بعدبھی جاری رکھنے کی کوشش کی۔لیکن ایسانہ ہوسکا۔فہیم اعظمی کے جریدے کے ساتھ بھی ایساہی ہوا۔لیکن پاکستان میں اظہر جاوید کا ساٹھ سال سے جاری”تخلیق“ اسی آب وتاب کے ساتھ ان کے بیٹے سونان اظہرکی ادارت میں شائع ہورہاہے۔اپنے بے مثال نمبروں کی وجہ سے اردوادب کے تاریخ کایادگار”نقوش“ مدیرمحمدطفیل کے انتقال کے بعد بھی اسی شان سے جاویدطفیل شائع کرتے رہے۔لیکن کوشش کے باوجود جاویدطفیل ’نقوش‘ کے قرآن نمبرکی صرف چارجلدیں شائع کرسکے اورمحمدطفیل کایہ شاندارمنصوبہ ادھورا ہی رہ گیا۔ اب جاویدطفیل کے انتقال کے بعداس کی تکمیل کی امیدبھی نہیں ہے۔سترسال سے جاری”ادب لطیف“مدیراعلیٰ صدیقہ بیگم کے انتقال کے بعد بھی نئی انتظامیہ کے تحت زندہ ہے۔بھارت میں ”ذہن جدید“اپنے مدیرکی وفات کے بعدبندہوگیا۔شمس الرحمٰن فاروقی نے خرابی صحت کے باعث اپنامنفردرسالہ”شب خون“خصوصی ”چالیس سالہ نمبر“نکال کر خودہی بندکردیا۔لیکن ”نیاورق“ کوساجدرشیدکے صاحبزادے شاداب رشیدجاری رکھے ہوئے ہیں۔
اردوکے منفردشاعروافسانہ نگاراحمدندیم قاسمی نقوش اورسویراسمیت کئی ادبی جرائدکے مدیررہے۔انہوں نے 1962ء میں فنون جاری کیا۔ جس نے اردوادب کی کئی نسلوں کوپروان چڑھایا۔خوش قسمتی سے نصف صدی سے زائدسے جاری ’فنون“ قاسمی صاحب کے انتقال کوایک دہائی مکمل ہو نے کے باوجودزندہ ہے۔احمدندیم قاسمی کی جلائی ’فنون‘کی شمع کوان صاحبزادی ڈاکٹرناہیدقاسمی اورنواسے نیرحیات قاسمی روشن رکھے ہوئے ہیں۔پرچے کی اشاعت میں تاخیرہوجاتی ہے۔لیکن ناہیدقاسمی اورنیرحیات قاسمی نے اس کے معیارمیں کوئی کمی نہیں آنے دی۔دوسال قبل احمدندیم قاسمی کی پیدائش کے سوسال مکمل ہونے پردوجلدوں پرمشتمل فنون کابے مثال”احمدندیم قاسمی صدی نمبر“ شائع کیا تھا۔جواحمدندیم قاسمی کی حیات اورخدمات کامکمل احاطہ کرتاہے۔اس سال جب دنیاکروناوباکی زدمیں ہے۔”فنون“ کاشمارہ نمبرایک سو اکتالیس اسی آب وتاب سے شائع ہواہے۔جواس کی روایات میں شامل ہے۔بڑے سائز کے پانچ سوچھبیس صفحات پرمشتمل ”فنون 141“ کی قیمت ساڑھے چھ سوروپے بہت مناسب ہے۔
”حرف ثانی“ کے عنوان سے نیرحیات قاسمی نے فکرانگیزاداریہ لکھاہے۔”سوالات کاطلوع ہونایقینا معلومات کوروشن کرنے کیلئے لازمی ہو تا ہے۔ورنہ تمام علم اورجوابات لاعلمی کے اندھیرے میں پنہاں رہتے ہیں۔سوالات‘ جوبسااوقات بحث ومباحثہ کوفروغ دیتے ہیں‘ ایک سائنسی عمل کی طرح کام کرتے ہیں۔کسی چیزکے حصول کی خاطراگرچندبنیادی عوامل کارفرمانہ ہوں تواس کاحصول یااس کی خواہش محض خوا ب بن کررہ جاتی ہے۔اس سب کچھ کی ابتداآخرہوتی کہاں ہے؟ یقیناکوئی نہ کوئی توسراہوگاکیونکہ کائنات میں اشیاء کی ترتیب ہی کائنات کے وجود کوبرقراررکھے ہوئے ہے۔اسی لیے یہ جاننادلچسپی سے خالی نہیں کہ وجودمیں آنے کے بعدانسان کی وہ کونسی چیزایسی ہے جوکاروبار زیست کاافتتاح کرتی ہے۔انسان کوخالق نے کئی حسیات سے لیس کیاہے مگروہ کیاہے جس کی غیرموجودگی تک یہ حسیات محض ایک زبان کی طرح ہیں جوالفاظ سے ناآشناہے اوراظہارسے عاری ہے۔بلاشبہ وہ سوچ اوراحساس کاخودکارنظام ہے جوخالق نے ان حسیات کوقابل عمل بنانے کے لیے وضع کیاہے اورتمام انسانی حسیات کواسی نظام سے منسلک کردیاہے۔“
اس ضخیم شمارے میں دس شعراء کی بارہ حمدونعت شامل ہیں۔حیات نظامی کی حمد’یااللہ‘ کے چنداشعارملاحظہ کریں۔
یہ جہاں لوح و قلم تیری عطا یااللہ میں نے قرطاس پہ لکھی یہ دعا یا اللہ
توہی ہے عرش ِ بریں، عرشِ اولیٰ یااللہ تیری دانائی و حکمت کی رسا یااللہ
غم دنیا سے اب گھبرا کے حیات تیرا بندہ تجھے دیتا ہے صدا یااللہ
امین راحت چغتائی کی نعت کے چنداشعار
کیا غرض کس کو نازِ گہر مل گیا اپنے آقاؐ کا ہم کو تو در مل گیا
ؒختم ہو کر رہے ہجر کے فاصلے لو مدینے میں راحت کو گھر مل گیا
خورشیدبیگ میلسوی،محمدانیس انصاری،سرورحسین نقشبندی،سلطان سکون،صفدرصدیق رضی،عارف شفیق،سمیع جمال اورگل بخشالوی کا خوبصو رت حمدیہ اورنعتیہ کلام بھی اس حصے میں شامل ہے۔
فنون کے اس شمارے میں ’احوال وطن‘ کے عنوان سے بحوالہ کشمیرتخلیقات کوجگہ دی گئی ہے۔جس میں احمدندیم قاسمی کی نظم ’کشمیر‘اسی عنوان سے جبارواصف کی طویل نظم،ڈاکٹرناہیدقاسمی کی ”سلگتے آنسوؤں کی پکار“ اورمحمدانیس انصاری کی نظم ”ضربِ عضب“ بھی خوب ہیں۔ڈاکٹر ریاض توحیدی کاافسانہ”سفیدخرگوش اورکالے دیو“ بھی اس حصے میں شامل ہے۔جس میں علامتی انداز میں کشمیرکی صورتحال کواجاگرکیاگیا ہے۔کسی ادبی جریدے میں کشمیرکاحصہ ایک اچھی کاوش ہے۔
”رفتگاں“کے ذکرمیں ڈاکٹرسلیم اخترمرحوم کے دوخطوط محترمہ ناہیدقاسمی کے نام،سیدمشکورحسین یاددکی دوغزلیں،صفدرسیال سلیم کی نظم”اچھالگاہے“سیدعارف کی دوغزلیں،پیراکرم دوخوبصورت نعتیں اورآپی یعنی والدہ مرحومہ کے نام نظم”چراغِ شبِ تار“آفتاب ضیاکی دو غزلیں شامل ہیں۔ابصارعبدالعلی مرحوم کے حوالے سے محمدشعیب مرزاکا”بچوں کاابصارعبدالعلی“ اورفہمیدہ ریاض کے لیے فرح کامران کی نظم سب ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔
حسب معمول ”فنون“ کا”مضامین اورمقالات“کاحصہ سب سے عمدہ اوروقیع ہے۔جس میں چودہ مصنفین کے اتنے ہی عمدہ مضامین موجود ہیں۔سینئرقلم کارمحمدارشادنے ”فیض کی ایک نظم“ پرقلم فرسائی کی ہے۔پیراکرم”ایک سوسولہ چاندکی راتیں اورگلزار“کے ساتھ حاضر ہیں۔ادبی جریدے انگارے کے مدیرپروفیسرعامرسہیل”آگ کادریا اورشعورکی رو:ایک مغالطے کاازالہ“ لے کرآئے ہیں۔انگارے کا ”سنچری نمبر“ادب کے ہرقاری کوپڑھناچاہیے۔ظفرسپل ’فنون‘ کے پرانے لکھاری ہیں۔قارئین فلسفہ اورتاریخ پران کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ظفرسپل”ڈیوڈہیوم،تاریخ فلسفہ مغرب قسط7“ ان کے مخصوص اندازکی عمدہ تحریرہے۔ان کی نئی کتاب”فلسفہ مغرب“حال ہی میں عکس پبلشرنے شائع کی ہے۔اس حصے میں ڈاکٹرسیدقاسم جلال،ڈاکٹر عرفان شاہ،توصیف بریلوی،راجہ ریاض الرحمٰن،یونس حسن،نبیل مشتاق،ناصرعلی وارثی،احسان قادراورڈاکٹرناہیدقاسمی کے عمدہ مضامین بھی قارئین کودعوتِ مطالعہ دیتے ہیں۔
محمدحامدسراج کاشماراردوکے بہترین افسانہ نگارمیں کیاجاتاہے۔جنہیں کینسرکاموذی مرض چھین لے گیا،خانقاہ سراجیہ کے اس مقیم کومرحوم لکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔”فنون 141“کااختصاص محمدحامدسراج کی خود نوشت”نقشِ سراج“ کی پہلی طویل قسط ہے۔حامدسراج مرحوم یہ خود نوشت مکمل کرچکے تھے یاادھوری ہی چھوڑگئے۔قارئین کے لیے یہ تحفہ خاص ہوگا۔مرحوم نے خودنوشت کی ابتداہی میں زندگی کی بے ثباتی کاکیاعمدگی سے ذکرکیاہے۔
”میں نے تم سے اپنے دکھ سکھ ہی نہیں مکمل زندگی بانٹناہے۔کیااپنی یادیں سمیٹنے اورانہیں ترتیب دینے کے لیے عمرمقررکرناممکن ہے۔کیایہ تصورباندھناکہ ابھی کچھ دن اورجی لیاجائے۔جب سانس کادورانیہ ہی نامعلوم ہے۔کہیں کوئی پیمانہ نہیں کہ عمرکی پیمائش ممکن ہو۔جس گھڑی عمرکی پیمائش مکمل ہوتی ہے اس لمحے ہم کہاں ہوتے ہیں۔آنکھیں موندلینے کے بعدکیاخبرہوگی ہم زمین پرکتناجی گئے۔کہنے والے کہیں گے اتنی عمرپاگئے اورہمیں کوئی سندیسہ نہ بھیجاجاسکے گا۔میں کئی برس سے اپنے ذہن کی تختی پریادوں کوتخیل کی دوات میں سوچ کاقلم ڈبوکرلکھنے کی کوشش میں ہوں۔یہ وہی دوات ہے جومیرے مدرسے کی شمالی سمت بان کی ٹوٹی چارپائی پربیٹھ کے قاری زرین نے مجھے تھمائی تھی۔دوات تھی اس میں سرخ رنگ کی پڑیاسے میں نے روشنائی انڈیلی تھی،سیاہ دانے دارروشنائی! قاری زرین نے اس میں کپڑے کی دوتین کترنیں ڈالیں اورمجھے مسجدکی ٹونٹی سے اتناپانی ڈالنے کوکہاجس سے کترن بھیگ جائیں اورروشنائی کے سیاہ دانے تحلیل ہوجائیں۔تختی،گاچی،نہر، شیشم کی گھنی قطار،مسجدمدرسہ،کھوہ،لنگرخانہ،ٹانچی،باباراج میر،رجب علی شاہ موذن! مجھے نصف صدی ترتیب دیناہے۔میری اس تحریر میں ممکن ہے قاری کوکوئی ترتیب نظرنہ آئے۔اسے معروف معنوں میں خودنوشت کانام نہیں دیاجاسکتا۔میں نے ابھی تلک کوئی ترتیب نہیں بنائی،یادوں کے ٹکڑے کسی کاغذکی کشتی میں سوارنہیں کیے،مبادایادداشت کی کھڑکیوں پرنسیان کی دستک تیزہوجائے توطوفان نوح میں یہ یادیں دریابرد ہونے سے بچ جائیں،جیسے’میا‘ لکھناشروع کی تھی۔ویسے ہی سفیدکاغذلے آیاہوں۔قطرہ قطرہ وہ سارے منظرجوذہن میں محفوظ ہیں ابھی دھندلائے نہیں۔انہیں سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔میرے ساتھ ہمیشہ یہ مشکل رہی ہے کہ جب بھی کوئی کام بہت سلیقے اورقرینے سے کرنے کی کوشش کروں وہ ادھورا رہ جاتاہے۔افسانہ بھی بس اچانک اترتاہے۔ایک ہی نشست میں لکھ ڈالوں تومکمل ہوجاتاہے،بعد میں نوک پلک سنوارلی۔جوافسانہ ادھورہ رہ جائے اس ادھورے پن کاعذاب میں بھی اٹھاتاہوں،میری تخلیق بھی۔“اس قلم دوات سے کتنے لوگ اب واقف ہیں۔لیکن محمدحامدسراج کی کتابت جیسی خوبصورت تحریرسے عیاں ہے کہ وہ اس کے عادی ہیں۔ہم قارئین کی دعاہے کہ مرحوم اس یادگارخودنوشت کومکمل کرگئے ہوں۔”یادداشتیں“ کے عنوان سے تین مزیدتحریریں ”حکایاتِ مہرووفا(ندیم خطوط) قسط 4“ بنام ڈاکٹرمظہرمحمودشیرانی،ڈاکٹرنگارسجادظہیرکا”نوح ناروی اورالٰہ آبادسے وابستہ کچھ یادیں“ اورفرح کامران کی یادیں ”تیرے جانے کی سوزخوانی“ بھی ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔
نظموں کودوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔”طویل نظمیں“ میں احمدندیم قاسمی کی ”یہاں سے وہاں تک“ محمدارشادکی ”احوال نامہ“ گلزارکی”تالاب میں پانی کم ہوتے ہوتے“ شاہنواززیدی کی”ابھی سے کیوں!“ اورفرح کامران کی نظم”مجھے توایساکوئی شاعری کاشوق نہ تھا“عمدہ نظمیں ہیں۔جبکہ دیگرنظموں میں انتیس شعراء کی پینتالیس منظومات کوجگہ دی گئی ہے۔ان میں احمدندیم قاسمی،امین راحت چغتائی،گلزار، نصیراحمدناصراورطالب انصاری کے بارے میں کچھ کہناسورج کوچراغ دکھانے جیساہوگا۔خالداقبال یاسر،احمدفقیہ،ناہیدقاسمی اورنیرحیات قاسمی کی نظمیں بھی بہت عمدہ ہیں۔
افسانے ”فنون“ کے ایک سوتیس صفحات پرمشتمل ہیں۔جس میں چھبیس افسانہ نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔احمدندیم قاسمی کا”کپاس کا پھول“ توقندِ مکررکالطف دیتاہے۔شہنازخانم عابدی کا”آنکھیں“ نجیب عمرکا”نورعلیٰ نور“،سیدسعیدنقوی کا”سائے کی تلاش“ نعیم بیگ کا ”طوفان کے بعد“آغاگل کا”ھلی“سبین علی کا”محاصرہ“اورمحمدجمیل اخترکا”گم شدہ شہرکی کہانی“اپنے موضوع اورٹریٹمنٹ کے اعتبارسے عمدہ ہیں۔نیرحیات قاسمی بھی”جھرجھری“ کے ساتھ شامل ہیں۔چارمائیکروفکشن یاافسانچے بھی شامل ہیں۔
غزل کے حصے میں اسی شعراء کی چوراسی غزلیں دی گئی ہیں۔جس میں آصف ثاقب،امین راحت چغتائی،صابرظفر،جلیل عالی،عامرسہیل اور عبداللہ جاوید کی غزلیں بہترین ہیں۔
”فن اورفنکار“ کے عنوان سے جوحصہ ترتیب دیاگیاہے۔اس میں ڈاکٹرامجدطفیل نے ڈاکٹرقاسم جلال کی تصنیف”تنسیخ وترویج“ کاجائزہ لیاہے۔خورشیدبیگ میلسوی نے”ڈاکٹرمختارظفرکانگارش کدہ“کے عنوان سے وسیب کے تنقیدی خزانہ کامحاکمہ کیاہے۔اعجازبابوخان نے ڈاکٹرفیروزعالم کی خودنوشت ”ہواکے دوش پر“پرعمدہ تبصرہ کرتے ہوئے اسے صبرواستقامت کی داستان قراردیاہے۔عبدالخالق نجمی نے قرۃ العین حیدرکے افسانے”میری گلی میں ایک پردیسی“ کاتجزیہ کیاہے۔ڈاکٹرحسین احمدپراچہ نے لالہ صحرائی کی نئی کتاب”منزل کے قریب“ کواعلیٰ نثرنگاری کانمونہ قراردیاہے۔کتاب میں عالمی ادب کے معروف افسانوں اورسفرناموں کے تراجم پیش کیے گئے ہیں۔یہ تحریر بانوے نیوزسے لی گئی ہے۔ڈاکٹر ناہید قاسمی کی ”منزل کے قریب“ کی تقریب پذیرائی میں پیش کی گئی تحریر”لالہ صحرائی اور منزل کے قریب پرایک نظر“ بھی اس حصے میں شامل ہے۔
”فنونِ لطیفہ“ کے تحت نفیسہ قاسمی کاسلسلہ وارمضمون”رنگ سنگ،سنگی تعمیرات“کی ساتویں قسط شامل ہے۔اس کی سابقہ اقساط میں زمانہ ما قبل ازتاریخ کے پتھرکے زمانے کے دوقدیم ترین ادوارقدیم عہدِ سنگی اوروسطی عہدِ سنگی کے طویل دورانیے سے تعارف کرایاگیا۔یہ انتہائی معلوماتی تحریرہے۔جس کالطف مکمل کتاب کی صورت میں زیادہ آئے گا۔راؤمنظرحیات نے”بحرِ موسیقی کے نایاب موتی“میں چندبڑے فنکاروں سے قارئین کامتعارف کرایاہے۔انجم جاوید نے فرانس میں پیداہونے والے پاکستانی مصورنجم الحسن کامختصرتعارف پیش کیاہے۔ تراجم میں اقتدارجاوید سوڈانی شاعری کے تراجم کی پہلی قسط لے کرآئے ہیں۔لینگسٹن کی نظم کاترجمہ ناصرگوندل نے کیاہے۔جگن ناتھ چنیوٹی کے ہندی افسانے کاترجمہ حنیف باوانے کیاہے۔ڈاکٹرسیدقاسم جلال نے اسلم قریشی کے سرائیکی اوررسول میمن نے ننگرچناکے سندھی افسانے کاترجمہ کیاہے۔ محمودظفراقبال ہاشمی کا”اک گھربناناچاہیے“ اورکنیزنورعلی کا”خوشبو“ کے انشائیے بہت عمدہ اوردلچسپ ہیں۔ معروف افسانہ نگار،شاعر اورمدیرمکالمہ مبین مرزاکے دومضامین ”عہدِ حاضر اورفنون لطیفہ“ اور”کیاشاعری ختم ہوجائے گی؟“ نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔
مجموعی طور پر”فنون141“ بہترین تحریروں سے مزین ہے۔اس عمدہ شمارے کی اشاعت اوراحمدندیم قاسمی کی جلانی شمع روشن رکھنے پرناہید قاسمی اورنیرحیات قاسمی قارئین کی تحسین کے حقدارہیں۔