بلاوجہ کی تنقید اور خاص طور پر سطحی و عامیانہ انداز میں تنقید و تبصرے سے مجھے نہ صرف مولانا مودودیؒ کی کتب اور جماعت کے ذمہ داران نے محفوظ رکھا بلکہ گھر کے ماحول اور تربیت نے بھی یہی کچھ سکھایا کہ تنقید بھی شائستگی کے ساتھ کی جائے-
زیتون کی گرافٹنگ اور نئے پودوں کی کاشت پر کام سرکاری سرپرستی میں اور نجی سطح پر کئی سالوں سے ہورہا تھا لیکن بدقسمتی سے مسلم لیگ ن کا فوکس پنجاب ہی رہا ہے، جس کی وجہ سے پوٹوہار کے علاوہ ملک کے کسی اور علاقے کو وادیِ زیتون قرار دے کر مسلم لیگ کے ادوار حکومت میں وفاقی حکومت نے پیسے خرچ نہیں کیئے اور بڑی زیادتی کی-
عمران خان کی حکومت سے نئی نسل اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بے پناہ توقعات تھیں اور اب بھی ہیں-
مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ بعض اہم ترین معاملات میں بھی خان صاحب اور ان کی ٹیم کا وژن اور ہوم ورک بہتر نہیں ہوتا، اس لیے نتائج بھی اچھے نہیں نکلتے۔ زیتون کے معاملے میں بھی ایسا ہی نظر آرہا ہے-
بلین ٹری سونامی منصوبے کے بارے میں بلند آہنگ دعوے کیے جاتے ہیں- کیا قوم کی یہ بتایا جائے گا کہ
1-بلین ٹری سونامی کے تحت زیتون کے کتنے درخت گذشتہ سات سالوں میں خیبر پختون خوا کی حکومت نے لگائے؟
2- جنگلی زیتون کی گرافٹنگ کے مفید اور سستے کام کی انہیں خبر کیوں نہیں تھی؟
( خیر اس سے تو پوری قوم ہی بے خبر تھی)
3- 2019 میں ملک امین اسلم صاحب نے دعوی کیا کہ حکومت صوبائی حکومتوں کے تعاون سے زیتون کے پانچ کروڑ درخت لگائے گی۔
ملک میں سرکاری و نجی نرسریوں میں سالانہ چند لاکھ پودے تیار کرنے کی گنجائش ہے۔ ایک عام آدمی خود سوچ سکتا ہے کہ اس طرح کے دعووں کی حقیقت کیا ہے؟
4- گذشتہ ڈھائی سالوں میں؟ملک کے مختلف علاقوں میں زیتون کی کتنی نرسریاں قائم کی گئ ہیں؟
5- صرف بلوچستان میں سولہ ہزار کسان زیتون کے پودوں کے لیئے درخواست دیئے بیٹھے ہیں- کیا ان کے لیئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس کوئ اچھی خبر ہے؟
6- بلین ٹری سونامی منصوبے کو محکمہ زراعت و باغبانی کے ساتھ باقاعدہ منسلک کیوں نہیں کیا جاتا؟
7- بڑی تعداد میں زیتون کے پودوں کے حصول کے لیئے ٹشو کلچر کے امکانات پر کیا ہوم ورک اور تحقیق کی گئ؟
اس شعبے کے ملکی و غیر ملکی ماہرین سے کتنا استفادہ کیا گیا؟
خان صاحب کے چاہنے والوں کو راقم کی باتیں یقینی طور پر پسند نہیں آئیں گی اور نہ ہی میاں صاحب کے عقیدت مندوں کو، لیکن انہیں میری تنقید میں ملک کے ایک عام آدمی اور سماجی کارکن کا دکھ اور بے چینی ضرور نظر آنی چاہیئے-
پاکستان زیتون کے پانچ کروڑ درخت لگا کر اور اتنے ہی درختوں کی گرافٹنگ کے ذریعہ اگلے کئی سو سال تک کھربوں روپے کما سکتا ہے لیکن ۔۔۔
بقول فیض!
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں