قومی اسمبلی بھی کمال کی جگہ ہے جہاں پر ایسی ایسی بات ہوتی ہے جسے کئی دنوں تک میڈیا پر چلا کر کتنوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔ اپنے ایاز صادق کی تازہ تقریر کو ہی لے لیجئے کہ کانپتی ٹانگوں کا ذکر لے بیٹھے جو لگتا ہے کہ اب انہی کو لے بیٹھے گا۔ یہ تو خیر ہو فواد چودھری کی کہ انہوں نے بھی ٹانگ چلائی اور ایسی چلائی کہ سیدھی بم کو ہی رسید کر دی۔ اب توجہ ایک ہے اور مذموم بیانات دو دو! صاحبو ہم کس کی تردید اور کس کی تائید کریں۔ کسی کام کا چھوڑا ہی نہیں ان سیاستدانوں نے’ نگوڑے ماروں نے!
ایک وقت تھا کہ پاکستانی سیاست میں ٹانگیں کپکپاتی نہیں تھیں بلکہ ٹانگوں سے لپٹنے بلکہ بے تحاشا لپٹنے کا رواج تھا۔ ان سیاستدانوں نے ہر چیز کا ہی ستیاناس کیا ہے اور معیار یہاں تک گرا دیا ہے کہ ٹانگوں سے لپٹنے کے بجائے اب ٹانگیں کپکپانے تک معاملہ آ پہنچا ہے۔
بس اب تو یہی خیال آتا ہے کہ کیا بلندی تھی’ کیسی پستی ہے۔ ہمارے’ تمہارے بلکہ ہم سب کے جنرل مشرف جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھی انہوں نے ٹانگوں کو کپکپانے سے روک لیا تھا۔ پریشر بہت آیا مگر موصوف کے پایہ لغزش میں کپکپاہٹ تو دور کی بات ہے سرسراہٹ بھی پیدا نہیں ہوئی۔ عزیمت ایسی کہ فون آئے کہ بولو کس کے ساتھ ہو مگر مجال ہے کہ ٹانگوں میں جنبش بھی پیدا ہوئی ہو۔ چونکہ کپکپانے کا تو کمانڈر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا سو انہوں نے ٹانگوں سے لپٹنے کا فیصلہ کیا۔ بس پھر ایسے لپٹے کہ لپٹتے ہی چلے گئے۔ ہوش اس وقت آیا جب موصوف کا اقتدار ہی لپیٹا گیا۔
جب قومی وقار و عزیمت کے ایسے ایسے نابغہ روزگار نمونے ہمارے ہاں پائے جاتے رہے ہوں وہاں ایاز صادق کی ٹانگیں کپکپانے والی بات یاوہ گوئی اور ہرزہ سرائی کا ملغوبہ ہی قرار پائے گی۔ ایاز صادق کو کیا معلوم کہ قومی حمیت و وقار کی ٹانگ ہمیشہ اوپر ہی رکھی جاتی ہے۔ اس ٹانگ تلے سے گذر کر ہی جان چھوٹتی ہے۔ ایاز صادق کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اس طرح ٹانگ اڑاتے رہے تو پھر ایک دن ٹانگ دیئے جائیں گے۔ ان کی حیثیت ملکی وقار و سلامتی کے سامنے ٹانگ برابر بھی نہیں سو بہتر ہے کہ وہ اپنی ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھیں۔