ہم شمعِ رسالت کے پروانے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاکِ پا کے ایک ایک ذرے سے بھی جو عشق رکھتے ہیں، اس کی بے قراری چہار عالم میں سرگرداں رکھتی ہے۔
یہی عشق پچھلے دنوں مجھے اس مقام پر لے گیا جہاں روایت کے مطابق گھوڑے کی اس نسل کی واحد نشانی موجود ہے، جس کی گردن پر خاتم الانبیاء کےانگوٹھے کا نشان ہے۔
پاکستان میں یہ اس نسل کا واحد گھوڑا ہے اور آپ اس کی گردن پر ایک گہرا نشان دیکھ سکتے ہیں۔
روایت ہے کہ کسی جہاد کے دوران، اس گھوڑے کے جد نے خود کو نبی آخرالزماں کے سامنے ازخود پیش کیا تھا اور آپ نے شفقت میں اس کی گردن پر اپنا انگوٹھا رکھ کر دبایا تھا جس کا نشان گھوڑے کی اس نسل کے لیے رہتی دنیا تک شرف و منزلت کا استعارہ بن گیا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس روایت میں کتنی صداقت ہے اور کیا واقعی یہ گھوڑا اسی نسل سے ہے یا نہیں۔ یہ تو اہلِ علم ہی بتاسکتے ہیں۔ البتہ گھوڑے کے خادم کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو اس نسل کا ایک گھوڑا سعودی شاہی خاندان سے تحفے میں ملا تھا۔ تب سے اس کی پاکستان میں نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ تاہم خادم کے مطابق، حیران کُن بات یہ ہے کہ اس نسل کے ہر گھوڑے میں یہ نشان نہیں آتا بلکہ کسی کسی میں نمودار ہوتا ہے اور فی الحال تصویر میں موجود گھوڑا اس نشان کا حامل پاکستان میں واحد ہے۔ خادم سے گھوڑے کے بارے میں میری گفتگو، پیج پر موجود ایک ویڈیو پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔
میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ یہ پوسٹ بدعقیدگی اور ضعف الاعتقادی کے زمرے میں آتی ہے۔ میرے لیے ان کی رائےمحترم ہے۔ لیکن ہم عشقِ رسول کے معاملے میں علامہ اقبال کے پیروکار ہیں جو کہیں کہیں پاسبانِ عقل کو معاملات عشق میں علیحدہ بھی کرنے کے قائل تھے۔
میں برسوں پہلے بادشاہی مسجد لاہور کے دروازے پر موجود نعلین پاک اور دیگر تبرکات کی زیارت کرنے بھی کشاں کشاں گیا تھا اور قلب و نظر کو منور کیا تھا۔ پھر ان آنکھوں کے بخت تب بھی کھلے تھے جب توپ کاپی میوزیم، استنبول، ترکی میں شاہِ دوعالم کے بچھونے، کلاہ، تلواروں، کرتے، مٹی کے پیالے اور نعلین پاک کی زیارت کی سعادت حاصل کی تھی۔ یہاں آپ کے موئے مبارک بھی دیکھے تھے تو دل کی جو کیفیت تھی اس کے بیان کی استعداد مجھ میں نہیں۔
تو دوستو ۔۔۔ یہ عجز تو بہرصورت حاصلِ زندگی ہے کہ ہم عاشقِ رسول ہیں، ہمیں اس بارے میں کچھ زیادہ سوچنا نہیں۔ بس عشق نبھائے جانا ہے۔
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام