Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
“It’s economy stupid”
یہ جملہ تو درحقیقت امریکی صدر بل کلنٹن کی صدارت کی دوسری مہم کا نعرہ تھا جب امریکی معیشت کی ترقی کے بل پر بِل کلنٹن دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔
لیکن تاریخ کا ایک سبق ہے جنگوں کی وجوہات میں معیشت (واحد وجہ نہیں)لیکن ایک اہم ترین کردار ضرور ادا کرتی ہے، تاریخ قبل از اسلام سے بھی جنگیں فاتحین کے لئے مال و دولت سونا اگلتی ہوئی زمینیں اور غلام و کنیزیں ایک اہم ترین کردار اور وجہ ہوتی تھیں۔ عربوں کی لڑائیاں بھی پانی و چراہ گاہوں پر ہوتی تھی۔
خلافت راشدہ کے دور میں بھی فتوحات سے حاصل شدہ مال غنیمت اتنا تھا کہ زکوٰة لینے والے کم پڑ گئے۔ یقیناً وہ جنگیں و جہاد اللہ کے لئے تھے لیکن اسکے معاشی فوائد بھی واضح طور پر سامنے تھے، اسی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اسوقت مجاہدین کے ساتھ شامل ہوتے تھے تاکہ مال غنیمت میں حصہ پاسکیں (قادسیہ کی جنگ میں ایرانی سپہ سالار بنوتعلب کے ایک عیسائی نوجوان کے ہاتھوں مارا گیا تھا)۔
برصغیر میں مسلمانوں کے باقائدہ حملے کی وجہ بھی مسلمانوں کے تجارتی قافلے کے ساتھ ڈاکوؤں یا سندھ کے حکمرانوں کی چھیڑ چھاڑ تھی۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہندوستان میں اسلام فاتحین کی بجائے تاجروں و صوفیوں ہی کے ذریعے پھیلتا (انڈونیشا و ملائشیا میں اسلام بغیر کسی جنگ کے پھیلا)۔
برصغیر کی تاریخ میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہی برٹش ایمپائر کی خشت اوّل تھی، اس سے پہلے پرتگیزیوں کے بھی تجارتی اڈّے ولندیزیوں کی نو آبادیاتی دور کی ابتداء بنے یہ الگ بات ہے کہ طاقتور انگریزوں نے انہیں محدود کردیا۔
آج پوری دنیا کے سمندروں میں مختلف امریکی بیڑے گشت کررہے ہیں تو انکی بھی اصل وجہ ہے کہ پوری دنیامیں امریکی تجارتی مفادات کاتحفظ کیا جاسکے۔ یقیناً تجارت کے ساتھ سیاست و دیگر مفادات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
۱۹ ویں صدی کے شروع میں چین کی برطانیہ سے تجارت زیادہ تر چینی مصنوعات جیسے ریشم، چائے اور چینی کے خوبصورت ظروف پر مشتمل تھی جو کہ برطانوی تاجروں کے لئے بے تحاشا فائدہ مند تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ چینی اپنا سامان تو چاندی کے بدلے بیچتے تھے لیکن برطانیہ سے کچھ نہیں خریدتے تھے، اس لیے برطانیہ سے بڑی مقدار میں چاندی چین چلی جاتی تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ودیگر تجارتی اداروں ہندوستانی افیون چین میں غیرقانونی طور اسمگل کے چین میں چاندی کے بدلے بیچنا شروع کردیا۔کرنا شروع کردیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ 1839ء تک صرف افیون کی تجارت چائے کی سال بھر کی تجارت کے برابر ہو گئی ۔
چینی حکمرانوں نے افیون کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کی کوشش کی اس کے نتیجے میں برطانیہ نے چین پر حملہ کردیا اور چین کے درمیان جنگ افیون شروع ہوئی جس میں چین نے شکست کھائی اور اسکے نتیجے میں ہانگ کانگ کو سو سال کے لئے برطانیہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا۔ چینی ۱۸۳۹ سے ۱۹۳۹ تک کے دور جب وہ برطانیہ، روس و جاپان کے محکوم رہے کو توہین کی صدی کہتے ہیں۔
چاہے سی پیک ہو یا ون بیلٹ ون روڈ کا معاملہ ہو چین اپنی تجارت کے بارے میں بڑی حدتک عدم تحفظ کا شکار ہے، چین تک سامان بالخصوص کی ترسیل کا راستہ آبنائے ملا کا سے با آسانی بند کیا جاسکتا ہے یہی معاملہ اسکی برآمدات کا ہے۔ بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے انڈمان اور نکوبار کے بحری و فضائی مستقروں کو متحرک کردیا ہے۔ لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ جو بھی ہو گا وہ امریکہ کی آشیرواد کے ساتھ ہی ہوگا۔
آبنائے ملا کا کے بند ہونے کے اثرات صرف چین ہی پر نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک انڈونیشیا ، ملائشیا، سنگاپور ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تجارت پر پڑے گا کہ وہ ایشیا سے یورپ و امریکہ کی سمندری ٹرانسپورٹ کا واحد تو نہیں لیکن اہم ترین راستہ ہے۔ چین کسی بھی قسم کے ناکہ بندی کی مزاحمت کرے گا جسکے نتیجے میں یہ راستہ جنگی زون قرار دیکر تمام جہازوں کی نقل وحمل کے لئے ممنوع ہو جائے گا۔ کورونا سے پہلے ہی متاثر کمزور معیشتوں کے لئے ایک کاری ضرب ہو سکتی ہے۔
گوادر پورٹ میں چین کی دلچسپی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اہم ترین تیل اور گیس کی سپلائی کم فاصلہ طے کرکے دشمنوں کی براہ راست پہنچ سے محفوظ راستہ ہے۔ یہی کچھ ون بیلٹ کا معاملہ ہے ۔ گوادر نہ صرف ہمارے لئے بلکہ چین کے لئے بھی زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
اس معاملے میں ہم چین کے مقابلے میں امریکی کے ایجنٹ تو مشکل ہی بنیں ۔ناممکن تو کچھ بھی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پالیسی ساز ہے اور جوابدہ کسی کو نہیں ہے اور اسے امریکی کھلونوں سے عشق ہے جو فی الوقت انکی دسترس میں نہیں ہیں۔لیکن وہ چین کے خلاف امریکہ کو “فرنٹ لائن” اتحادی کا لولی پاپ اس لئے نہیں دے سکتے کہ وہ پوزیشن پہلے ہی بھارت لے چکا ہے۔
اس وقت بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کے سر پر براہ راست ہاتھ رکھ دے۔ لیکن بھارت کی یہ خواہش ہم سے برعکس ہے ہم صرف امریکی کھلونے اور امداد لیکر خوش ہو جاتے ہیں بھارت کی خواہش براہ راست امریکی مداخلت کی ہوگی یعنی امریکی افواج چین کے خلاف جنگ میں کود جائیں۔جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں پر ایشیا پیسیفک کے سمندروں میں امریکی طیارہ بردار بیڑے کی موجودگی میں کوئی بھی حادثاتی جنگ ناممکن نہیں ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ چین نے بیک وقت کئی محاذ ایک ساتھ کھول لئے ہیں، ہانگ کانگ تو پہلے ہی اس کے زیر کنٹرول تھا اس پر اپنی گرفت مزید سخت کرنے کے ساتھ تائیوان اور ساؤتھ چین کے سمندروں میں متنازعہ جزائر جن پر جاپان فلپائین و دیگر ممالک کے دعوے ہیں پر بھی تھوڑی جارحانہ نظریں جما کر وہ خود کو کسی اتنی بڑی جنگ میں نہ پھنسا لے جس میں وہ خود کو سمیٹ نہ سکے۔
ابھی تک اس بات کے امکانات نہیں کہ ٹرمپ جس نے اپنا انتخاب اس وعدے پر جیتا تھا کہ وہ مشرق وسطی و افغانستان سے امریکی افواج واپس لائے گا، چند ماہ میں آنےوالے صدارتی انتخابات سے پہلے سفارتی سے بڑھ کر کوئی نیا محاذ کھولنا پسند کرے گا۔
لیکن چین کو ساؤتھ چین کے سمندروں میں درجہ حرارت کو معتدل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔موجودہ صورتحال میں چین کا اچانک ہی علاقائی طور جارحانہ رویہ یقین کریں کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں جب بھی سی پیک پر گفتگو ہوئی تھی تو اس فقیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور افیون جنگ کی یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔ اور خبر دار کیا تھا کہ چین جس طرح خطے میں اپنی معاشی مفادات کو بڑہا رہا ہے اسکا نتیجہ انکے تحفظ کے لئے چین فوجی طاقت کے استعمال میں نہیں جھجکے گا۔
اب اچانک اس کی عملی شکل سامنے آرہی ہے، ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی اس بات کی علامت ہے کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ ان کے لئے انتہائی اہم ہے اور اسکے تحفظ کے لئے چین کسی بھی فوجی اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔
یہ ہمارے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم مغرب کی غلامی سے نکلنے کے بعد چین سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔پہلے ہم نے امریکی اونٹ کو خیمے بُلایا تھا لیکن اسے بہتر چراہ گاہ نظر آگئی اور کہیں اور چلا گیا۔
“ہماری بھی کیسی قسمت ہے، امریکی اونٹ چھوڑ کر بھاگا، روسی ریچھ سے بچنے کے بعد چینی ڈریگون کی گود بیٹھ گئے”
بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کم از کم سمندروں میں چین اور امریکہ کا براہ راست تصادم ہو جائے۔ دوسری طرف اگر یہ معاملہ آگے بڑہتا ہے تو بھارت انڈیمان اور نکوبار کے اڈوں کے ذریعے باآسانی آبنائے ملاکہ کو بند کرسکتا ہے جو ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کے ساتھ گذرتی ہے اور چین کی تجارت اور مشرق وسطی سے تیل کی سپلائی کا مین راستہ ہے۔
اسی لئے چین سی پیک اور ون پیلٹ روڈ پر جو سرمایہ کاری کررہا ہے جس کا پھل آنے والے وقتوں میں ملے گا۔ گوادر پورٹ جزوی طور پر کار آمد ہو گئی ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی کے۔چونکہ گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک چین کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن جائے گی۔ اور وہ اس کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکی نیوی تو مشرق وسطی کے سمندروں میں بھی ہےلیکن خطے میں موجود ممالک شاید انہیں اپنی تیل و گیس کی تجارت میں رخنہ ڈالنے دینے کی اجازت نہ دیں ۔ کسی بھی صورت میں چین ایرانی تیل کاسب سے بڑا گاہک ہے جوکہ براہ راست پاکستان کی سرحد کے زمینی راستے سے بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ کیا مرحوم پاک ایران پائپ لائن کا منصوبہ پھر زندہ کیا جاسکتا ہے؟؟
ہمیں چین کی ایران میں دلچسپی کا فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین ایرانی حکومت کو پاکستان مخالف کارروائیوں سے روکنے کے کئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا۔اُمید ہے کہ اس کے فوائد بلوچستان میں بھی حاصل ہوں گے۔
چین کے لداخ میں حالیہ حالیہ اقدامات ہماری حمایت سے زیادہ اسکی تجارت اور معاشی مفادات کے بھارتی و امریکی دباؤ سے بڑی حدتک محفوظ راستوں کو یقینی بنا کر اپنے اہم ترین مفادات کے تحفظ کی کوشش ہے۔لیکن اسے بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں۔ شاید حالات و جغرافیہ کی مجبوری بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ چین کو نظر انداز کر کے امریکہ سے ہاتھ ملانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کوئی بڑا پالیسی یو ٹرن ہمیں چین سے براہ راست فوجی محاذ آرائی کی طرف لے جائے گا۔ جو ہم کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ بس، احیتاط یہ کرنی چاہئے کہ نئے اتحادیوں کے ساتھ برابر کا معاملہ رہے۔ اللہ کرے ہمارے فیصلہ ساز دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے درست فیصلے کرسکیں۔
“It’s economy stupid”
یہ جملہ تو درحقیقت امریکی صدر بل کلنٹن کی صدارت کی دوسری مہم کا نعرہ تھا جب امریکی معیشت کی ترقی کے بل پر بِل کلنٹن دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔
لیکن تاریخ کا ایک سبق ہے جنگوں کی وجوہات میں معیشت (واحد وجہ نہیں)لیکن ایک اہم ترین کردار ضرور ادا کرتی ہے، تاریخ قبل از اسلام سے بھی جنگیں فاتحین کے لئے مال و دولت سونا اگلتی ہوئی زمینیں اور غلام و کنیزیں ایک اہم ترین کردار اور وجہ ہوتی تھیں۔ عربوں کی لڑائیاں بھی پانی و چراہ گاہوں پر ہوتی تھی۔
خلافت راشدہ کے دور میں بھی فتوحات سے حاصل شدہ مال غنیمت اتنا تھا کہ زکوٰة لینے والے کم پڑ گئے۔ یقیناً وہ جنگیں و جہاد اللہ کے لئے تھے لیکن اسکے معاشی فوائد بھی واضح طور پر سامنے تھے، اسی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اسوقت مجاہدین کے ساتھ شامل ہوتے تھے تاکہ مال غنیمت میں حصہ پاسکیں (قادسیہ کی جنگ میں ایرانی سپہ سالار بنوتعلب کے ایک عیسائی نوجوان کے ہاتھوں مارا گیا تھا)۔
برصغیر میں مسلمانوں کے باقائدہ حملے کی وجہ بھی مسلمانوں کے تجارتی قافلے کے ساتھ ڈاکوؤں یا سندھ کے حکمرانوں کی چھیڑ چھاڑ تھی۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہندوستان میں اسلام فاتحین کی بجائے تاجروں و صوفیوں ہی کے ذریعے پھیلتا (انڈونیشا و ملائشیا میں اسلام بغیر کسی جنگ کے پھیلا)۔
برصغیر کی تاریخ میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہی برٹش ایمپائر کی خشت اوّل تھی، اس سے پہلے پرتگیزیوں کے بھی تجارتی اڈّے ولندیزیوں کی نو آبادیاتی دور کی ابتداء بنے یہ الگ بات ہے کہ طاقتور انگریزوں نے انہیں محدود کردیا۔
آج پوری دنیا کے سمندروں میں مختلف امریکی بیڑے گشت کررہے ہیں تو انکی بھی اصل وجہ ہے کہ پوری دنیامیں امریکی تجارتی مفادات کاتحفظ کیا جاسکے۔ یقیناً تجارت کے ساتھ سیاست و دیگر مفادات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
۱۹ ویں صدی کے شروع میں چین کی برطانیہ سے تجارت زیادہ تر چینی مصنوعات جیسے ریشم، چائے اور چینی کے خوبصورت ظروف پر مشتمل تھی جو کہ برطانوی تاجروں کے لئے بے تحاشا فائدہ مند تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ چینی اپنا سامان تو چاندی کے بدلے بیچتے تھے لیکن برطانیہ سے کچھ نہیں خریدتے تھے، اس لیے برطانیہ سے بڑی مقدار میں چاندی چین چلی جاتی تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ودیگر تجارتی اداروں ہندوستانی افیون چین میں غیرقانونی طور اسمگل کے چین میں چاندی کے بدلے بیچنا شروع کردیا۔کرنا شروع کردیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ 1839ء تک صرف افیون کی تجارت چائے کی سال بھر کی تجارت کے برابر ہو گئی ۔
چینی حکمرانوں نے افیون کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کی کوشش کی اس کے نتیجے میں برطانیہ نے چین پر حملہ کردیا اور چین کے درمیان جنگ افیون شروع ہوئی جس میں چین نے شکست کھائی اور اسکے نتیجے میں ہانگ کانگ کو سو سال کے لئے برطانیہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا۔ چینی ۱۸۳۹ سے ۱۹۳۹ تک کے دور جب وہ برطانیہ، روس و جاپان کے محکوم رہے کو توہین کی صدی کہتے ہیں۔
چاہے سی پیک ہو یا ون بیلٹ ون روڈ کا معاملہ ہو چین اپنی تجارت کے بارے میں بڑی حدتک عدم تحفظ کا شکار ہے، چین تک سامان بالخصوص کی ترسیل کا راستہ آبنائے ملا کا سے با آسانی بند کیا جاسکتا ہے یہی معاملہ اسکی برآمدات کا ہے۔ بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے انڈمان اور نکوبار کے بحری و فضائی مستقروں کو متحرک کردیا ہے۔ لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ جو بھی ہو گا وہ امریکہ کی آشیرواد کے ساتھ ہی ہوگا۔
آبنائے ملا کا کے بند ہونے کے اثرات صرف چین ہی پر نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک انڈونیشیا ، ملائشیا، سنگاپور ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تجارت پر پڑے گا کہ وہ ایشیا سے یورپ و امریکہ کی سمندری ٹرانسپورٹ کا واحد تو نہیں لیکن اہم ترین راستہ ہے۔ چین کسی بھی قسم کے ناکہ بندی کی مزاحمت کرے گا جسکے نتیجے میں یہ راستہ جنگی زون قرار دیکر تمام جہازوں کی نقل وحمل کے لئے ممنوع ہو جائے گا۔ کورونا سے پہلے ہی متاثر کمزور معیشتوں کے لئے ایک کاری ضرب ہو سکتی ہے۔
گوادر پورٹ میں چین کی دلچسپی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اہم ترین تیل اور گیس کی سپلائی کم فاصلہ طے کرکے دشمنوں کی براہ راست پہنچ سے محفوظ راستہ ہے۔ یہی کچھ ون بیلٹ کا معاملہ ہے ۔ گوادر نہ صرف ہمارے لئے بلکہ چین کے لئے بھی زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
اس معاملے میں ہم چین کے مقابلے میں امریکی کے ایجنٹ تو مشکل ہی بنیں ۔ناممکن تو کچھ بھی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پالیسی ساز ہے اور جوابدہ کسی کو نہیں ہے اور اسے امریکی کھلونوں سے عشق ہے جو فی الوقت انکی دسترس میں نہیں ہیں۔لیکن وہ چین کے خلاف امریکہ کو “فرنٹ لائن” اتحادی کا لولی پاپ اس لئے نہیں دے سکتے کہ وہ پوزیشن پہلے ہی بھارت لے چکا ہے۔
اس وقت بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کے سر پر براہ راست ہاتھ رکھ دے۔ لیکن بھارت کی یہ خواہش ہم سے برعکس ہے ہم صرف امریکی کھلونے اور امداد لیکر خوش ہو جاتے ہیں بھارت کی خواہش براہ راست امریکی مداخلت کی ہوگی یعنی امریکی افواج چین کے خلاف جنگ میں کود جائیں۔جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں پر ایشیا پیسیفک کے سمندروں میں امریکی طیارہ بردار بیڑے کی موجودگی میں کوئی بھی حادثاتی جنگ ناممکن نہیں ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ چین نے بیک وقت کئی محاذ ایک ساتھ کھول لئے ہیں، ہانگ کانگ تو پہلے ہی اس کے زیر کنٹرول تھا اس پر اپنی گرفت مزید سخت کرنے کے ساتھ تائیوان اور ساؤتھ چین کے سمندروں میں متنازعہ جزائر جن پر جاپان فلپائین و دیگر ممالک کے دعوے ہیں پر بھی تھوڑی جارحانہ نظریں جما کر وہ خود کو کسی اتنی بڑی جنگ میں نہ پھنسا لے جس میں وہ خود کو سمیٹ نہ سکے۔
ابھی تک اس بات کے امکانات نہیں کہ ٹرمپ جس نے اپنا انتخاب اس وعدے پر جیتا تھا کہ وہ مشرق وسطی و افغانستان سے امریکی افواج واپس لائے گا، چند ماہ میں آنےوالے صدارتی انتخابات سے پہلے سفارتی سے بڑھ کر کوئی نیا محاذ کھولنا پسند کرے گا۔
لیکن چین کو ساؤتھ چین کے سمندروں میں درجہ حرارت کو معتدل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔موجودہ صورتحال میں چین کا اچانک ہی علاقائی طور جارحانہ رویہ یقین کریں کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں جب بھی سی پیک پر گفتگو ہوئی تھی تو اس فقیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور افیون جنگ کی یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔ اور خبر دار کیا تھا کہ چین جس طرح خطے میں اپنی معاشی مفادات کو بڑہا رہا ہے اسکا نتیجہ انکے تحفظ کے لئے چین فوجی طاقت کے استعمال میں نہیں جھجکے گا۔
اب اچانک اس کی عملی شکل سامنے آرہی ہے، ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی اس بات کی علامت ہے کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ ان کے لئے انتہائی اہم ہے اور اسکے تحفظ کے لئے چین کسی بھی فوجی اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔
یہ ہمارے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم مغرب کی غلامی سے نکلنے کے بعد چین سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔پہلے ہم نے امریکی اونٹ کو خیمے بُلایا تھا لیکن اسے بہتر چراہ گاہ نظر آگئی اور کہیں اور چلا گیا۔
“ہماری بھی کیسی قسمت ہے، امریکی اونٹ چھوڑ کر بھاگا، روسی ریچھ سے بچنے کے بعد چینی ڈریگون کی گود بیٹھ گئے”
بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کم از کم سمندروں میں چین اور امریکہ کا براہ راست تصادم ہو جائے۔ دوسری طرف اگر یہ معاملہ آگے بڑہتا ہے تو بھارت انڈیمان اور نکوبار کے اڈوں کے ذریعے باآسانی آبنائے ملاکہ کو بند کرسکتا ہے جو ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کے ساتھ گذرتی ہے اور چین کی تجارت اور مشرق وسطی سے تیل کی سپلائی کا مین راستہ ہے۔
اسی لئے چین سی پیک اور ون پیلٹ روڈ پر جو سرمایہ کاری کررہا ہے جس کا پھل آنے والے وقتوں میں ملے گا۔ گوادر پورٹ جزوی طور پر کار آمد ہو گئی ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی کے۔چونکہ گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک چین کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن جائے گی۔ اور وہ اس کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکی نیوی تو مشرق وسطی کے سمندروں میں بھی ہےلیکن خطے میں موجود ممالک شاید انہیں اپنی تیل و گیس کی تجارت میں رخنہ ڈالنے دینے کی اجازت نہ دیں ۔ کسی بھی صورت میں چین ایرانی تیل کاسب سے بڑا گاہک ہے جوکہ براہ راست پاکستان کی سرحد کے زمینی راستے سے بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ کیا مرحوم پاک ایران پائپ لائن کا منصوبہ پھر زندہ کیا جاسکتا ہے؟؟
ہمیں چین کی ایران میں دلچسپی کا فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین ایرانی حکومت کو پاکستان مخالف کارروائیوں سے روکنے کے کئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا۔اُمید ہے کہ اس کے فوائد بلوچستان میں بھی حاصل ہوں گے۔
چین کے لداخ میں حالیہ حالیہ اقدامات ہماری حمایت سے زیادہ اسکی تجارت اور معاشی مفادات کے بھارتی و امریکی دباؤ سے بڑی حدتک محفوظ راستوں کو یقینی بنا کر اپنے اہم ترین مفادات کے تحفظ کی کوشش ہے۔لیکن اسے بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں۔ شاید حالات و جغرافیہ کی مجبوری بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ چین کو نظر انداز کر کے امریکہ سے ہاتھ ملانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کوئی بڑا پالیسی یو ٹرن ہمیں چین سے براہ راست فوجی محاذ آرائی کی طرف لے جائے گا۔ جو ہم کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ بس، احیتاط یہ کرنی چاہئے کہ نئے اتحادیوں کے ساتھ برابر کا معاملہ رہے۔ اللہ کرے ہمارے فیصلہ ساز دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے درست فیصلے کرسکیں۔
“It’s economy stupid”
یہ جملہ تو درحقیقت امریکی صدر بل کلنٹن کی صدارت کی دوسری مہم کا نعرہ تھا جب امریکی معیشت کی ترقی کے بل پر بِل کلنٹن دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔
لیکن تاریخ کا ایک سبق ہے جنگوں کی وجوہات میں معیشت (واحد وجہ نہیں)لیکن ایک اہم ترین کردار ضرور ادا کرتی ہے، تاریخ قبل از اسلام سے بھی جنگیں فاتحین کے لئے مال و دولت سونا اگلتی ہوئی زمینیں اور غلام و کنیزیں ایک اہم ترین کردار اور وجہ ہوتی تھیں۔ عربوں کی لڑائیاں بھی پانی و چراہ گاہوں پر ہوتی تھی۔
خلافت راشدہ کے دور میں بھی فتوحات سے حاصل شدہ مال غنیمت اتنا تھا کہ زکوٰة لینے والے کم پڑ گئے۔ یقیناً وہ جنگیں و جہاد اللہ کے لئے تھے لیکن اسکے معاشی فوائد بھی واضح طور پر سامنے تھے، اسی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اسوقت مجاہدین کے ساتھ شامل ہوتے تھے تاکہ مال غنیمت میں حصہ پاسکیں (قادسیہ کی جنگ میں ایرانی سپہ سالار بنوتعلب کے ایک عیسائی نوجوان کے ہاتھوں مارا گیا تھا)۔
برصغیر میں مسلمانوں کے باقائدہ حملے کی وجہ بھی مسلمانوں کے تجارتی قافلے کے ساتھ ڈاکوؤں یا سندھ کے حکمرانوں کی چھیڑ چھاڑ تھی۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہندوستان میں اسلام فاتحین کی بجائے تاجروں و صوفیوں ہی کے ذریعے پھیلتا (انڈونیشا و ملائشیا میں اسلام بغیر کسی جنگ کے پھیلا)۔
برصغیر کی تاریخ میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہی برٹش ایمپائر کی خشت اوّل تھی، اس سے پہلے پرتگیزیوں کے بھی تجارتی اڈّے ولندیزیوں کی نو آبادیاتی دور کی ابتداء بنے یہ الگ بات ہے کہ طاقتور انگریزوں نے انہیں محدود کردیا۔
آج پوری دنیا کے سمندروں میں مختلف امریکی بیڑے گشت کررہے ہیں تو انکی بھی اصل وجہ ہے کہ پوری دنیامیں امریکی تجارتی مفادات کاتحفظ کیا جاسکے۔ یقیناً تجارت کے ساتھ سیاست و دیگر مفادات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
۱۹ ویں صدی کے شروع میں چین کی برطانیہ سے تجارت زیادہ تر چینی مصنوعات جیسے ریشم، چائے اور چینی کے خوبصورت ظروف پر مشتمل تھی جو کہ برطانوی تاجروں کے لئے بے تحاشا فائدہ مند تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ چینی اپنا سامان تو چاندی کے بدلے بیچتے تھے لیکن برطانیہ سے کچھ نہیں خریدتے تھے، اس لیے برطانیہ سے بڑی مقدار میں چاندی چین چلی جاتی تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ودیگر تجارتی اداروں ہندوستانی افیون چین میں غیرقانونی طور اسمگل کے چین میں چاندی کے بدلے بیچنا شروع کردیا۔کرنا شروع کردیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ 1839ء تک صرف افیون کی تجارت چائے کی سال بھر کی تجارت کے برابر ہو گئی ۔
چینی حکمرانوں نے افیون کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کی کوشش کی اس کے نتیجے میں برطانیہ نے چین پر حملہ کردیا اور چین کے درمیان جنگ افیون شروع ہوئی جس میں چین نے شکست کھائی اور اسکے نتیجے میں ہانگ کانگ کو سو سال کے لئے برطانیہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا۔ چینی ۱۸۳۹ سے ۱۹۳۹ تک کے دور جب وہ برطانیہ، روس و جاپان کے محکوم رہے کو توہین کی صدی کہتے ہیں۔
چاہے سی پیک ہو یا ون بیلٹ ون روڈ کا معاملہ ہو چین اپنی تجارت کے بارے میں بڑی حدتک عدم تحفظ کا شکار ہے، چین تک سامان بالخصوص کی ترسیل کا راستہ آبنائے ملا کا سے با آسانی بند کیا جاسکتا ہے یہی معاملہ اسکی برآمدات کا ہے۔ بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے انڈمان اور نکوبار کے بحری و فضائی مستقروں کو متحرک کردیا ہے۔ لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ جو بھی ہو گا وہ امریکہ کی آشیرواد کے ساتھ ہی ہوگا۔
آبنائے ملا کا کے بند ہونے کے اثرات صرف چین ہی پر نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک انڈونیشیا ، ملائشیا، سنگاپور ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تجارت پر پڑے گا کہ وہ ایشیا سے یورپ و امریکہ کی سمندری ٹرانسپورٹ کا واحد تو نہیں لیکن اہم ترین راستہ ہے۔ چین کسی بھی قسم کے ناکہ بندی کی مزاحمت کرے گا جسکے نتیجے میں یہ راستہ جنگی زون قرار دیکر تمام جہازوں کی نقل وحمل کے لئے ممنوع ہو جائے گا۔ کورونا سے پہلے ہی متاثر کمزور معیشتوں کے لئے ایک کاری ضرب ہو سکتی ہے۔
گوادر پورٹ میں چین کی دلچسپی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اہم ترین تیل اور گیس کی سپلائی کم فاصلہ طے کرکے دشمنوں کی براہ راست پہنچ سے محفوظ راستہ ہے۔ یہی کچھ ون بیلٹ کا معاملہ ہے ۔ گوادر نہ صرف ہمارے لئے بلکہ چین کے لئے بھی زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
اس معاملے میں ہم چین کے مقابلے میں امریکی کے ایجنٹ تو مشکل ہی بنیں ۔ناممکن تو کچھ بھی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پالیسی ساز ہے اور جوابدہ کسی کو نہیں ہے اور اسے امریکی کھلونوں سے عشق ہے جو فی الوقت انکی دسترس میں نہیں ہیں۔لیکن وہ چین کے خلاف امریکہ کو “فرنٹ لائن” اتحادی کا لولی پاپ اس لئے نہیں دے سکتے کہ وہ پوزیشن پہلے ہی بھارت لے چکا ہے۔
اس وقت بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کے سر پر براہ راست ہاتھ رکھ دے۔ لیکن بھارت کی یہ خواہش ہم سے برعکس ہے ہم صرف امریکی کھلونے اور امداد لیکر خوش ہو جاتے ہیں بھارت کی خواہش براہ راست امریکی مداخلت کی ہوگی یعنی امریکی افواج چین کے خلاف جنگ میں کود جائیں۔جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں پر ایشیا پیسیفک کے سمندروں میں امریکی طیارہ بردار بیڑے کی موجودگی میں کوئی بھی حادثاتی جنگ ناممکن نہیں ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ چین نے بیک وقت کئی محاذ ایک ساتھ کھول لئے ہیں، ہانگ کانگ تو پہلے ہی اس کے زیر کنٹرول تھا اس پر اپنی گرفت مزید سخت کرنے کے ساتھ تائیوان اور ساؤتھ چین کے سمندروں میں متنازعہ جزائر جن پر جاپان فلپائین و دیگر ممالک کے دعوے ہیں پر بھی تھوڑی جارحانہ نظریں جما کر وہ خود کو کسی اتنی بڑی جنگ میں نہ پھنسا لے جس میں وہ خود کو سمیٹ نہ سکے۔
ابھی تک اس بات کے امکانات نہیں کہ ٹرمپ جس نے اپنا انتخاب اس وعدے پر جیتا تھا کہ وہ مشرق وسطی و افغانستان سے امریکی افواج واپس لائے گا، چند ماہ میں آنےوالے صدارتی انتخابات سے پہلے سفارتی سے بڑھ کر کوئی نیا محاذ کھولنا پسند کرے گا۔
لیکن چین کو ساؤتھ چین کے سمندروں میں درجہ حرارت کو معتدل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔موجودہ صورتحال میں چین کا اچانک ہی علاقائی طور جارحانہ رویہ یقین کریں کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں جب بھی سی پیک پر گفتگو ہوئی تھی تو اس فقیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور افیون جنگ کی یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔ اور خبر دار کیا تھا کہ چین جس طرح خطے میں اپنی معاشی مفادات کو بڑہا رہا ہے اسکا نتیجہ انکے تحفظ کے لئے چین فوجی طاقت کے استعمال میں نہیں جھجکے گا۔
اب اچانک اس کی عملی شکل سامنے آرہی ہے، ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی اس بات کی علامت ہے کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ ان کے لئے انتہائی اہم ہے اور اسکے تحفظ کے لئے چین کسی بھی فوجی اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔
یہ ہمارے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم مغرب کی غلامی سے نکلنے کے بعد چین سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔پہلے ہم نے امریکی اونٹ کو خیمے بُلایا تھا لیکن اسے بہتر چراہ گاہ نظر آگئی اور کہیں اور چلا گیا۔
“ہماری بھی کیسی قسمت ہے، امریکی اونٹ چھوڑ کر بھاگا، روسی ریچھ سے بچنے کے بعد چینی ڈریگون کی گود بیٹھ گئے”
بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کم از کم سمندروں میں چین اور امریکہ کا براہ راست تصادم ہو جائے۔ دوسری طرف اگر یہ معاملہ آگے بڑہتا ہے تو بھارت انڈیمان اور نکوبار کے اڈوں کے ذریعے باآسانی آبنائے ملاکہ کو بند کرسکتا ہے جو ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کے ساتھ گذرتی ہے اور چین کی تجارت اور مشرق وسطی سے تیل کی سپلائی کا مین راستہ ہے۔
اسی لئے چین سی پیک اور ون پیلٹ روڈ پر جو سرمایہ کاری کررہا ہے جس کا پھل آنے والے وقتوں میں ملے گا۔ گوادر پورٹ جزوی طور پر کار آمد ہو گئی ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی کے۔چونکہ گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک چین کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن جائے گی۔ اور وہ اس کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکی نیوی تو مشرق وسطی کے سمندروں میں بھی ہےلیکن خطے میں موجود ممالک شاید انہیں اپنی تیل و گیس کی تجارت میں رخنہ ڈالنے دینے کی اجازت نہ دیں ۔ کسی بھی صورت میں چین ایرانی تیل کاسب سے بڑا گاہک ہے جوکہ براہ راست پاکستان کی سرحد کے زمینی راستے سے بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ کیا مرحوم پاک ایران پائپ لائن کا منصوبہ پھر زندہ کیا جاسکتا ہے؟؟
ہمیں چین کی ایران میں دلچسپی کا فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین ایرانی حکومت کو پاکستان مخالف کارروائیوں سے روکنے کے کئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا۔اُمید ہے کہ اس کے فوائد بلوچستان میں بھی حاصل ہوں گے۔
چین کے لداخ میں حالیہ حالیہ اقدامات ہماری حمایت سے زیادہ اسکی تجارت اور معاشی مفادات کے بھارتی و امریکی دباؤ سے بڑی حدتک محفوظ راستوں کو یقینی بنا کر اپنے اہم ترین مفادات کے تحفظ کی کوشش ہے۔لیکن اسے بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں۔ شاید حالات و جغرافیہ کی مجبوری بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ چین کو نظر انداز کر کے امریکہ سے ہاتھ ملانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کوئی بڑا پالیسی یو ٹرن ہمیں چین سے براہ راست فوجی محاذ آرائی کی طرف لے جائے گا۔ جو ہم کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ بس، احیتاط یہ کرنی چاہئے کہ نئے اتحادیوں کے ساتھ برابر کا معاملہ رہے۔ اللہ کرے ہمارے فیصلہ ساز دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے درست فیصلے کرسکیں۔
“It’s economy stupid”
یہ جملہ تو درحقیقت امریکی صدر بل کلنٹن کی صدارت کی دوسری مہم کا نعرہ تھا جب امریکی معیشت کی ترقی کے بل پر بِل کلنٹن دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔
لیکن تاریخ کا ایک سبق ہے جنگوں کی وجوہات میں معیشت (واحد وجہ نہیں)لیکن ایک اہم ترین کردار ضرور ادا کرتی ہے، تاریخ قبل از اسلام سے بھی جنگیں فاتحین کے لئے مال و دولت سونا اگلتی ہوئی زمینیں اور غلام و کنیزیں ایک اہم ترین کردار اور وجہ ہوتی تھیں۔ عربوں کی لڑائیاں بھی پانی و چراہ گاہوں پر ہوتی تھی۔
خلافت راشدہ کے دور میں بھی فتوحات سے حاصل شدہ مال غنیمت اتنا تھا کہ زکوٰة لینے والے کم پڑ گئے۔ یقیناً وہ جنگیں و جہاد اللہ کے لئے تھے لیکن اسکے معاشی فوائد بھی واضح طور پر سامنے تھے، اسی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اسوقت مجاہدین کے ساتھ شامل ہوتے تھے تاکہ مال غنیمت میں حصہ پاسکیں (قادسیہ کی جنگ میں ایرانی سپہ سالار بنوتعلب کے ایک عیسائی نوجوان کے ہاتھوں مارا گیا تھا)۔
برصغیر میں مسلمانوں کے باقائدہ حملے کی وجہ بھی مسلمانوں کے تجارتی قافلے کے ساتھ ڈاکوؤں یا سندھ کے حکمرانوں کی چھیڑ چھاڑ تھی۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہندوستان میں اسلام فاتحین کی بجائے تاجروں و صوفیوں ہی کے ذریعے پھیلتا (انڈونیشا و ملائشیا میں اسلام بغیر کسی جنگ کے پھیلا)۔
برصغیر کی تاریخ میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہی برٹش ایمپائر کی خشت اوّل تھی، اس سے پہلے پرتگیزیوں کے بھی تجارتی اڈّے ولندیزیوں کی نو آبادیاتی دور کی ابتداء بنے یہ الگ بات ہے کہ طاقتور انگریزوں نے انہیں محدود کردیا۔
آج پوری دنیا کے سمندروں میں مختلف امریکی بیڑے گشت کررہے ہیں تو انکی بھی اصل وجہ ہے کہ پوری دنیامیں امریکی تجارتی مفادات کاتحفظ کیا جاسکے۔ یقیناً تجارت کے ساتھ سیاست و دیگر مفادات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
۱۹ ویں صدی کے شروع میں چین کی برطانیہ سے تجارت زیادہ تر چینی مصنوعات جیسے ریشم، چائے اور چینی کے خوبصورت ظروف پر مشتمل تھی جو کہ برطانوی تاجروں کے لئے بے تحاشا فائدہ مند تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ چینی اپنا سامان تو چاندی کے بدلے بیچتے تھے لیکن برطانیہ سے کچھ نہیں خریدتے تھے، اس لیے برطانیہ سے بڑی مقدار میں چاندی چین چلی جاتی تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ودیگر تجارتی اداروں ہندوستانی افیون چین میں غیرقانونی طور اسمگل کے چین میں چاندی کے بدلے بیچنا شروع کردیا۔کرنا شروع کردیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ 1839ء تک صرف افیون کی تجارت چائے کی سال بھر کی تجارت کے برابر ہو گئی ۔
چینی حکمرانوں نے افیون کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کی کوشش کی اس کے نتیجے میں برطانیہ نے چین پر حملہ کردیا اور چین کے درمیان جنگ افیون شروع ہوئی جس میں چین نے شکست کھائی اور اسکے نتیجے میں ہانگ کانگ کو سو سال کے لئے برطانیہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا۔ چینی ۱۸۳۹ سے ۱۹۳۹ تک کے دور جب وہ برطانیہ، روس و جاپان کے محکوم رہے کو توہین کی صدی کہتے ہیں۔
چاہے سی پیک ہو یا ون بیلٹ ون روڈ کا معاملہ ہو چین اپنی تجارت کے بارے میں بڑی حدتک عدم تحفظ کا شکار ہے، چین تک سامان بالخصوص کی ترسیل کا راستہ آبنائے ملا کا سے با آسانی بند کیا جاسکتا ہے یہی معاملہ اسکی برآمدات کا ہے۔ بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے انڈمان اور نکوبار کے بحری و فضائی مستقروں کو متحرک کردیا ہے۔ لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ جو بھی ہو گا وہ امریکہ کی آشیرواد کے ساتھ ہی ہوگا۔
آبنائے ملا کا کے بند ہونے کے اثرات صرف چین ہی پر نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک انڈونیشیا ، ملائشیا، سنگاپور ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تجارت پر پڑے گا کہ وہ ایشیا سے یورپ و امریکہ کی سمندری ٹرانسپورٹ کا واحد تو نہیں لیکن اہم ترین راستہ ہے۔ چین کسی بھی قسم کے ناکہ بندی کی مزاحمت کرے گا جسکے نتیجے میں یہ راستہ جنگی زون قرار دیکر تمام جہازوں کی نقل وحمل کے لئے ممنوع ہو جائے گا۔ کورونا سے پہلے ہی متاثر کمزور معیشتوں کے لئے ایک کاری ضرب ہو سکتی ہے۔
گوادر پورٹ میں چین کی دلچسپی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اہم ترین تیل اور گیس کی سپلائی کم فاصلہ طے کرکے دشمنوں کی براہ راست پہنچ سے محفوظ راستہ ہے۔ یہی کچھ ون بیلٹ کا معاملہ ہے ۔ گوادر نہ صرف ہمارے لئے بلکہ چین کے لئے بھی زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
اس معاملے میں ہم چین کے مقابلے میں امریکی کے ایجنٹ تو مشکل ہی بنیں ۔ناممکن تو کچھ بھی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پالیسی ساز ہے اور جوابدہ کسی کو نہیں ہے اور اسے امریکی کھلونوں سے عشق ہے جو فی الوقت انکی دسترس میں نہیں ہیں۔لیکن وہ چین کے خلاف امریکہ کو “فرنٹ لائن” اتحادی کا لولی پاپ اس لئے نہیں دے سکتے کہ وہ پوزیشن پہلے ہی بھارت لے چکا ہے۔
اس وقت بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کے سر پر براہ راست ہاتھ رکھ دے۔ لیکن بھارت کی یہ خواہش ہم سے برعکس ہے ہم صرف امریکی کھلونے اور امداد لیکر خوش ہو جاتے ہیں بھارت کی خواہش براہ راست امریکی مداخلت کی ہوگی یعنی امریکی افواج چین کے خلاف جنگ میں کود جائیں۔جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں پر ایشیا پیسیفک کے سمندروں میں امریکی طیارہ بردار بیڑے کی موجودگی میں کوئی بھی حادثاتی جنگ ناممکن نہیں ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ چین نے بیک وقت کئی محاذ ایک ساتھ کھول لئے ہیں، ہانگ کانگ تو پہلے ہی اس کے زیر کنٹرول تھا اس پر اپنی گرفت مزید سخت کرنے کے ساتھ تائیوان اور ساؤتھ چین کے سمندروں میں متنازعہ جزائر جن پر جاپان فلپائین و دیگر ممالک کے دعوے ہیں پر بھی تھوڑی جارحانہ نظریں جما کر وہ خود کو کسی اتنی بڑی جنگ میں نہ پھنسا لے جس میں وہ خود کو سمیٹ نہ سکے۔
ابھی تک اس بات کے امکانات نہیں کہ ٹرمپ جس نے اپنا انتخاب اس وعدے پر جیتا تھا کہ وہ مشرق وسطی و افغانستان سے امریکی افواج واپس لائے گا، چند ماہ میں آنےوالے صدارتی انتخابات سے پہلے سفارتی سے بڑھ کر کوئی نیا محاذ کھولنا پسند کرے گا۔
لیکن چین کو ساؤتھ چین کے سمندروں میں درجہ حرارت کو معتدل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔موجودہ صورتحال میں چین کا اچانک ہی علاقائی طور جارحانہ رویہ یقین کریں کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں جب بھی سی پیک پر گفتگو ہوئی تھی تو اس فقیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور افیون جنگ کی یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔ اور خبر دار کیا تھا کہ چین جس طرح خطے میں اپنی معاشی مفادات کو بڑہا رہا ہے اسکا نتیجہ انکے تحفظ کے لئے چین فوجی طاقت کے استعمال میں نہیں جھجکے گا۔
اب اچانک اس کی عملی شکل سامنے آرہی ہے، ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی اس بات کی علامت ہے کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ ان کے لئے انتہائی اہم ہے اور اسکے تحفظ کے لئے چین کسی بھی فوجی اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔
یہ ہمارے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم مغرب کی غلامی سے نکلنے کے بعد چین سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔پہلے ہم نے امریکی اونٹ کو خیمے بُلایا تھا لیکن اسے بہتر چراہ گاہ نظر آگئی اور کہیں اور چلا گیا۔
“ہماری بھی کیسی قسمت ہے، امریکی اونٹ چھوڑ کر بھاگا، روسی ریچھ سے بچنے کے بعد چینی ڈریگون کی گود بیٹھ گئے”
بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کم از کم سمندروں میں چین اور امریکہ کا براہ راست تصادم ہو جائے۔ دوسری طرف اگر یہ معاملہ آگے بڑہتا ہے تو بھارت انڈیمان اور نکوبار کے اڈوں کے ذریعے باآسانی آبنائے ملاکہ کو بند کرسکتا ہے جو ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کے ساتھ گذرتی ہے اور چین کی تجارت اور مشرق وسطی سے تیل کی سپلائی کا مین راستہ ہے۔
اسی لئے چین سی پیک اور ون پیلٹ روڈ پر جو سرمایہ کاری کررہا ہے جس کا پھل آنے والے وقتوں میں ملے گا۔ گوادر پورٹ جزوی طور پر کار آمد ہو گئی ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی کے۔چونکہ گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک چین کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن جائے گی۔ اور وہ اس کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکی نیوی تو مشرق وسطی کے سمندروں میں بھی ہےلیکن خطے میں موجود ممالک شاید انہیں اپنی تیل و گیس کی تجارت میں رخنہ ڈالنے دینے کی اجازت نہ دیں ۔ کسی بھی صورت میں چین ایرانی تیل کاسب سے بڑا گاہک ہے جوکہ براہ راست پاکستان کی سرحد کے زمینی راستے سے بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ کیا مرحوم پاک ایران پائپ لائن کا منصوبہ پھر زندہ کیا جاسکتا ہے؟؟
ہمیں چین کی ایران میں دلچسپی کا فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین ایرانی حکومت کو پاکستان مخالف کارروائیوں سے روکنے کے کئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا۔اُمید ہے کہ اس کے فوائد بلوچستان میں بھی حاصل ہوں گے۔
چین کے لداخ میں حالیہ حالیہ اقدامات ہماری حمایت سے زیادہ اسکی تجارت اور معاشی مفادات کے بھارتی و امریکی دباؤ سے بڑی حدتک محفوظ راستوں کو یقینی بنا کر اپنے اہم ترین مفادات کے تحفظ کی کوشش ہے۔لیکن اسے بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں۔ شاید حالات و جغرافیہ کی مجبوری بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ چین کو نظر انداز کر کے امریکہ سے ہاتھ ملانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کوئی بڑا پالیسی یو ٹرن ہمیں چین سے براہ راست فوجی محاذ آرائی کی طرف لے جائے گا۔ جو ہم کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ بس، احیتاط یہ کرنی چاہئے کہ نئے اتحادیوں کے ساتھ برابر کا معاملہ رہے۔ اللہ کرے ہمارے فیصلہ ساز دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے درست فیصلے کرسکیں۔