یہ دھرا عذاب ہی تو ہے کہ لکھنے و بات کرنے پر عزت کا خطرہ ہوتو ہو کہ زیادہ تر گالی بریگیڈ سوشل میڈیا کے پردے تلے بڑی حدتک نامعلوم ہی ہوتا ہے جن سے شاید زندگی بھر کبھی واسطہ بھی نہ پڑے اور دور کی گالی کسے لگتی ہے ؟
پر ہمارے بھی تو دوست احباب اس طوفان میں بہ چُکے ہیں ان دوستیوں و محبتوں سے جدائی کسی صورت میں منظور نہیں۔کچھ بھی ہو اس طوفان کے گذرنے کا انتظار کرنے ہی میں عافیت لگتی ہے، وقت ہمیں یا انہیں کسی نہ کسی کو سبق سکھا ہی دیگا۔کہ رائے تو رائے ہے وحی تو نہیں وقت کے ساتھ کیا پتہ ہم ہی غلط ثابت ہو جائیں۔اس لئے ان وقتی معاملات پر محبتوں و تعلقات کو داؤ پر لگانا حماقت ہے۔
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
یہ بھی دیکھئے:
اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ہونے والا واقعہ افسوسناک ہی سہی۔ لیکن کیا سیاستدانوں و اراکین پارلیمنٹ کاردعمل غلط تھا؟
سیاستدان ہو یا کوئی اور ہرشخص کو اس کی ذاتی زندگی کسی بھی ہراسگی کے بغیر گذارنے کا حق ہے۔ کسی سیاستدان کے سیاسی فیصلوں پر اعتراض کرنے کا بہتر طریقہ اسے آئندہ انتخابات میں اُٹھا کر تاریخ کے کچرے دان پھینک دیا جائے۔ نہ کہ انہیں اور ان کے بچّوں کو شوشل میڈیا اور سڑکوں پر نشانہ بنایا جائے۔
کئی سالوں سے ایک سیاسی جماعت کے دوستوں نے یہ وطیرہ بنایا ہوا ہے کہ اس کے کارکنان و حامیان اپنے مخالفین کو سیاسی محاذ پر ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی نجی زندگی کو بھی دوبھر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جو یقیناً ناقابل قبول ہے۔
گالی دینا و تشدد کرنا دونوں ناقابل دفاع ہیں۔ تشدد زیادہ بڑا جُرم ہے۔لیکن ہر معاشرے کی اپنی اقدار ہوتی ہیں یہاں گالی کا جواب تھپّڑ سے دینا غیرت مندی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
شجر کاری: اشجار بلاشُبہ زمین کا زیور ہیں
عمران خان: جب صدر ممنون نے عمران خان سے وزارت عظمی کا حلف لیا
شہباز شریف: ذمہ داری اور چلینجز
مزے کی بات ہے یہاں پر حضرت کو اینٹ کا جواب پتھر سے مل گیا تو ہمارے یہ دوست بزرگ کی “مظلومیت” کا پر چار کررہے ہیں۔
لیکن اگر وہ حضرات ان اینٹوں کی بارش میں خاموشی سے گذر جاتے تو ہمارے یہی دوست اسی ویڈیو کو بڑے فخر کے ساتھ لوٹا کریسی کے خلاف “ عوامی ردعمل” کے نام پھیلا رہے ہوتے۔
جب ہونا یہی ہے تو اچھا ہے ایک تو حضرت بزرگ مظلوم بنانا ہی بہتر ہے کہ اس سے کچھ نہ کچھ ہمدردی کے مل ہی گئی اور مشھوری مفت میں۔ ۔۔وہ کہتے ہیں نا ۔۔۔
سو جوتوں سے کم رتبہ عالی نہیں ہوتا
عزت وہ خزانہ ہے جو کبھی خالی نہیں ہوتا
کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن عوامی نمائندگان کو اپنا معیار گلی محلے کی نفسیات سے اونچا رکھنا چاہیے۔لیکن توقعات تو کچھ بھی رکھی جائیں، جب ہماری “جمھوریت” جب گلی محلے کے معیار کے لوگوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجے گی تو ان کے روئیے بھی اپنی اقدار ہی کے مطابق ہوں گے۔
وہ زمانے گذر گئے جب سیاست۔ و حکومت اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ جن کے پاس دولت نہ بھی ہو تو روئیوں میں خاندانی نجابت ہی جھلکتی تھی۔اب تو عوام الناس اپنے جیسے لوگوں کو منتخب کرتی ہے۔۔ پھر یہی ہوگا جو ہورہا ہے۔
تاریخ لوٹے کو لوٹا ہی لکھے گی اور لکھنا بھی چاہیے۔لیکن یہ سڑکوں ، ریسٹورانٹوں و بازاروں میں harassment کیا قانونی یا اخلاقی طور پر درست ہے؟مجھے یقین ہے کہ کوئی قانونی قدغن نہیں ہو گی ، ورنہ کہیں نہ کہیں قانون حرکت میں آچُکا ہوتا۔
اگر کسی بھی شخص کے کسی بھی عمل کو رد کرنے کے لیے اسے اور اس کا اہل خانہ کی زندگی دوبھر بنانا درست ہو جائے، ویسے پُرانے زمانے میں غالبا پنچایت کے ذریعے حُقہ پانی بند کردیا جاتا تھا۔کیا وہی زمانہ کو واپس لایا جارہا ہے؟
یہاں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود ہیں جو مخالفین کی زندگی دو بھر کرنے پوری کوشش کریں گے اور کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی برداشت کی ختم ہو جائے گی۔اس کانتیجہ سوسائیٹی میں باہمی جنگ و جدل سول وار جیسی صورتحال پیدا کردے گی۔
کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
ویسے یہ دوست اس لحاظ سے کامیاب ہیں کہ سیاست و سیاستدانوں ہی نہیں بلکہ سیاست پر بات کرنے والوں کو اتنا ہراساں کردیا جائے کہ ان کے طوفان بدتمیزی کامقابلہ کرنے کی بجائے اپنی عزتوں کا لحاظ کرنے کے لیے خاموشی کی چادر اوڑھ کر بیٹھ جائیں پھر۔۔
گلیاں ہو جان سنجیاں، تے وچ مرزا یار پھرے
ویسے ہٹلر و مسلولینی کی فسطائیت تو ہم نے کتابوں میں پڑہی ہو گی، اہل کراچی کے لئے ایم کیو ایم و الطاف حسین کے دور زیادہ پُرانی بات نہیں اب بھی بہت سے دوست دلوں میں ان تاریک راہوں مارے جانے والوں کئ یادوں کی شمعیں جلا بیٹھے ہیں۔
اب یہ ایک نیا cult سامنے آیا ہے۔شکرہے کہ اس کے متاثرین میں زیادہ تر تھوڑا خوشحال و تعلیم یافتہ طبقہ ہے، اس لئے کتنے بھی جذباتی ہوں، وہ کراچی والے کانا، ٹوٹا، چریا وشری کے درجے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
ہاں اگر مکمل سیاسی غلبہ حاصل ہوگئی تو اللہ ہی رحم فرمائے ۔۔۔ویسے بھی ہٹلر و مسولینی و اسپین کا جنرل فرانکو بھی اپنے ملک کے اقتدار اعلی پر قابض ہونے کے بعد ہی اپنی قوم و دنیا کے لیے تباہ کُن ثابت ہوئے تھے۔الطاف حسین بھی کراچی کے بے تاج بادشاہ بننے سے پہلے امن کے پیامبر تھے، فی الوقت تو اس (یقیناً انہیں اقتدار تو ملے گا لیکن دوتہائی اکثریت والا مکمل اقتدار) کا امکان کم نظر آتا ہے ۔
لیکن یہ بھی اہل سیاست کے لئے ایک انتباہ ہے، اب پُرانی روش سے کام نہیں چلے گا، اگر بھی وہی طرز عمل و لوٹ گھسوٹ کا بازار جاری رہا تو یقیناً خونی انقلاب دور نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خونی انقلاب ہو یا خون کا سونامی ۔۔ عوام کو کچھ نہیں ملنے کا بس ایک ظالم دوسرے ظالم سے بدل جائے گا۔
بہت سے عمران مخالف سیاستدان و دانشوران فارٹئ فنڈنگ کیس کی تلوار سے اس کا سیاسی کیرئیر ختم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔بات تو سچ ہے لیکن عمران ایک طاقت ہے۔ اسے مصنوعی طریقے سے پارٹی فنڈنگ کے مقدمے کے ذریعے نااہل کرکے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مجھے تحریک انصاف کے پارٹئ فنڈنگ کیس کی صداقت میں شمہ برابر شک نہیں ہے دوسری طرف دیگر جماعتوں کے معاملات بھی قابل رشک نہیں ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں اکبر ایس بابر کی صورت میں گھر کا بھیدی مل گیا دوسری جگہوں پر اس قسم کی smoking gun ہاتھ میں نہیں ہے۔
لیکن تاریخ نے بتایا ہے مقبول جماعتوں کو قانون کی تلوار سے ذبح نہیں کیا جاسکتا ۔ نواز شریف بھی ختم نہ ہو سکا اور بھٹو بھی اب تک “زندہ” ہے، سیاسی جنگ سیاسی میدان ہی میں جیتنا ہے۔ اس کے لئے اہل سیاست کو بہتر ، دیانتدار وقابل قیادت فراہم کرنی ہوگی۔
نئے وزیر اعظم جناب شھباز شریف ایک شاندار اور انتھک منتظم کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں یقیناً وہ اس محدود وقت میں بہتر سے بہتر کارکردگی کے ذریعے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کریں گے۔
دوسری طرف پُرانی عادتیں جلد نہیں مرتیں، وزارت عظمی کا حلف اُٹھاتے ہی اپنی تین چار اہلیاؤں کے گھروں اور شنید ہے کہ اپنے بڑے بھائی سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ جاتی امرا کو بھی وزیراعظم کا کیمپ آفس ظاہر کر کے کروڑوں یا اربوں رپوں کے اخراجات سرکاری وسائل پر تزئین اور ہزاروں اہلکاران کئ تعیناتی کا حُکم جاری ہوچُکا ہے۔
اگر یہ خبر درست ہے تو ان سے دست بستہ گذارش ہے کہ اللہ نے آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی کی ہے، اور کسی ایک ذاتی گھر کو کیمپ آفس بنانے کا فیصلہ تو جائز لگتا ہے لیکن اگر آپ اپنی مرضی و شوق سے چار بیویاں رکھتے ہیں تو اس میں اس غریب ملک و قوم کا کیا قصور ؟
اس سے پہلے بھی اپنے خرچ پر گذارا کرہی رہے تھے ۔ اب کیا ضرورت ہے کہ پورا خاندان اس غریب ملک وقوم کے لہو پر پروٹوکول کے مزے لے۔کاش آپ ماضی سے کچھ سبق سیکھ لیں تو ملک و قوم پر احسان ہوگا۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے ہمارے ہاں شاہی خاندانوں کی سرکاری اخراجات پر بیجاعیاشیوں و پروٹوکول پر پارلیمان اور پارلیمان سے باھر میڈیا و سوشل میڈیا پر بھرپور احتجاج کیا جائے ۔ چونکہ تحریک انصاف تو استعفی دینے کا اعلان کر چُکی ہے اب بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟