شہباز شریف بالآخر وزیر اعظم بن گئے۔ انھیں مبارک باد۔ شہباز شریف بہت مشکل صورت حال میں وزیر اعظم بنے ہیں۔ شاید انھیں خود معلوم نہ ہو کہ ان کا اقتدار کتنے دن کا ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ ان کی جماعت کے قائد اور ان کے برادر بزرگ میاں محمد نواز شریف مختصر عرصے کی حکومت کے خواہش مند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چند خاص شعبوں میں اصلاحات کے بعد انتخابات کرا دیے جائیں۔ انتخابی اصلاحات ان میں سر فہرست ہیں۔ جیسے ہی یہ اسمبلی اصلاحات کا عمل مکمل کر لے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اصلاحات کی جو فہرست متحدہ حزب اختلاف کے پاس ہے، اس میں نیب کے بعض قوانین میں اصلاح بھی اہمیت رکھتی ہے۔ حزب اختلاف ، ملک کی انتظامیہ حتیٰ کہ ادارے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عمران دور میں معیشت کی تباہی میں بنیادی کردار نیب نے ادا کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ حکومت کا آلہ کار بن کر انتقامی کارروائی اور دوسرے اس ادارے میں بدعنوانی۔ اس صورت حال نے ملک میں کاروبار تباہ کر دیا اور سرمایہ کاری رک گئی۔ لہٰذا اس ادارے کے ان اختیارات پر نظر ثانی مطلوب ہے جن کی وجہ سے خرابی پیدا ہوئی لیکن یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے نکل جانے کے بعد خطرہ ہے کہ یہ کام بہت متنازع ہو جائے گا ۔ اب یہ دیکھنے کی بات ہے کہ اس سلسلے میں کیا حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تبدیلی کا سبق اور تحریک عدم اعتماد
جمہوریت کے راستے کیسے ہموار ہوئے؟
عمران خان: ”رہ اقتدار” قدم قدم تجھے یاد گار بنادیا
حزب اختلاف سڑکوں پر آ چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں وہ انتخابات کے سلسلے میں حکومت پر دباؤ میں کتنا اضافہ کر پائے گی، اس سوال کا جواب کچھ روز بعد ملے گا لیکن اتوار کے مظاہروں سے پی ٹی آئی کا موڈ واضح ہے۔ حکومت کی ترجیحات اور پی ٹی آئی کا دباؤ انتخابات کو مزید قریب لے آئیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ انتخابات پر امن اور پرسکون طریقے سے ہو سکیں گے؟ یہ ضمانت کوئی فراہم نہیں کر سکتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن کی جارحیت معقولیت کی حدود سے نکل چکی ہے۔ یہ صورت حال شیخ رشید کے اس بیان کی حقیقت دکھاتی ہے کہ لڑائی گلی محلے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔
شہباز شریف کا سب سے بڑا امتحان یہی ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی کے جارحانہ دباؤ کے باوجود پرسکون ماحول میں انتخابات کا انتظام کر دیں۔
اس منظر نامے کا ایک پہلو پی ٹی آئی کا ہے رد عمل ہے۔ وہ حکومت میں تھی تو حزب اختلاف کو منہ نہیں لگاتی تھی۔ اب حزب اختلاف میں گئی ہے تو حکومت کی طرف دیکھنے پر تیار نہیں۔ یہ طرز جمہوری روایات سے لگا نہیں کھاتا۔ آخری بات یہ کہ صدر عارف علوی نے شہباز شریف سے حلف بھی نہیں لیا۔ یہ سیاسی عدم برداشت کی کوئی اچھی مثال نہیں۔ یہ طرز عمل اس جماعت کو سیاسی طور پر تنہائی سے دوچار کر دے گا اور اس جماعت کے گرد پرجوش کارکنوں کے ہجوم کی سمجھ میں بھی بتدریج آنا شروع ہو جائے گا کہ مسجدوں پر حملے اور علما کی توہین کوئی درست طرز عمل نہیں۔ وہ بھی آہستہ آہستہ اعتدال کی طرف آنا شروع ہو جائیں گے۔ بہتر ہو اعتدال کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش حکومت بھی کرے اور پی ٹی آئی کا سمجھدار عنصر بھی تاکہ ملک کو بدترین کشیدگی کی آگ میں گرنے سے بچایا جا سکے ۔