کپتان نے سیاست میں قدم رکھا تو ایک نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا جہاں عوام کو سستا اور فوری انصاف ملے، امیر اور غریب کے درمیان کوئی تفاوت نہ ہو، کرپشن سے پاک معاشرہ ہو۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد 2018 میں کپتان وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو آتے ہی بلند و بانگ دعوے کیے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے، غریبوں کیلئے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے، غیر ملکی قرضے نہ لینے، 200 ارب روپے بیرونی قرضے منہ پر مارنے، کرپشن کا خاتمہ کرنے، وزیراعظم ہاوس اور گورنر ہاوسز کو یونیورسٹیز میں تبدیل کرنے، گھر سے وزیراعظم ہاوس تک سائیکل پر سفر کرنے کے دعووں سمیت عوام کو ایسے سبز باغ دکھائے کہ لوگ پھولے نہیں سمائے۔
یہ بھی دیکھئے:
کپتان نے جھوٹے دعووں اور وعدوں سے رائی کا جو پہاڑ کھڑا کردیا تھا وہ بکھرتا گیا اور عوام کو اگر کوئی چیز ملی تو وہ مایوسی ہے۔ کپتان نےایک ہی کام جاں فشانی سے کیا وہ ہے احتساب کے نام پر انتقام، جس کے تحت انہوں نے حریفوں کو ایک ایک کر کے جیلوں کی سیر کروادی۔ جس کے خلاف کوئی کیس بننے کی صورت نظر نہ آئی توآمدن سے زائد اثاثوں کا مقدمہ بننے میں دیر نہیں کی۔ جس کے پاس آمدنی بھی زیادہ نہ نکلی تو پندرہ کلو ہیروئن کا من گھڑت اور جھوٹا مقدمہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کپتان اقتدار میں آیا تودعویٰ کیا انکی زبردست معاشی ٹیم ہے، اسد عمر کو اوپنر بلے باز قرار دیتے ہوئے وزیرخزانہ بنادیا جو پہلے سال ہی ناکام ہوگیے اور وہ کلین بولڈ ہونے والے پہلے وزیر بن گئے، ساڑھے تین سال میں چار وزرائے خزانہ تبدیل کرنا پڑے۔ معیشت کا ایسا جنازہ نکال دیا اب نئی حکومت کیلئے اس کو سنبھالنا سب سےبڑا چیلنج ہے۔ گزشہ چھ ماہ میں پچیس ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ رہا جو مالی سال کے آخر تک اب 45 ارب ڈالر تک جانے کا اندیشہ ہے۔
برآمدات صرف 25 ارب ڈالر رہے جبکہ درآمدات 75 ارب ڈالر سے تجاوز کررہے ہیں۔ بجٹ خسارہ مالی سال کے آخر تک 6400 ارب روپے تک جائے گا۔ مہنگائی کا جن اتنا بے قابو ہوگیا کہ ہر چیز کی قیمت میں 300 فیصد پہنچ گئی۔ کپتان کی حکومت نے بجٹ خسارہ چار ہزار ارب روپے مقرر کیا تھا لیکن حکومت گرنے کے وقت یہ خسارہ 6500 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ کرپشن کا خاتمہ کیا کرنا تھا کہ جن لوگوں کو ڈاکو کہتے رہے انہیں اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ چینی اور آٹا اسکینڈلز سامنے آئے تو قصووار کپتان کے کھلاڑی نکلے۔
یہ بھی پڑھئے:
گالی گلوچ: ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن
شجر کاری: اشجار بلاشُبہ زمین کا زیور ہیں
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا
ناقص کارکردی، انا پرستی، غرور اور تکبر کے باعث کپتان کے اتحادی ہی نہیں بلکہ اپنے کھلاڑی بھی انہیں چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ مل گئے تو خریدوفروخت کے الزامات عائد کردیے، اس کارڈ نے کام نہ دکھایا تو غیر ملکی سازش کا پروپیگنڈا کیا۔ اس کے بعد آخری گیند تک کھیلنے کے دعوے کرتے رہے لیکن عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے آخری وقت تک بھاگتے رہے۔ کپتان کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک 8 مارچ 2022 کو قومی اسمبلی میں پیش کی تو کپتان نے اسی روز بیان دیا کہ میں اتنظار میں تھا یہ عدم اعتماد لائیں تاکہ انکی گردنیں میرے ہاتھوں میں آجائیں۔
فوج کے نیوٹرل ہونے کی باتیں گردش میں تھیں تو کپتان نے کہا نیوٹرل جانور ہوتا ہے۔ اس کے بعد منحرف اراکین کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش شروع کردی اور ڈی چوک پر لوگوں کو اکٹھا کرنے کا اعلان کردیا جو ارکان اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکیں دوسری جانب سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے تو خان صاحب نے بیان میں کہ صورت استعفیٰ نہیں دوں گا لیکن سرپرائز دوں گا۔ 25 مارچ کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی تو اسپیکر نے مرحومین کی فاتحہ خوانی کے بعد تین دن کیلئے اجلاس ملتوی کردیا، اس طرح کپتان نے ایک مرتبہ پھر عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنے سے گریز کیا۔
کپتان کو شکست نظر آئی تو کچھ مشران نے سمجھایا کہ لوگوں کی ناراضی کی وجہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں انہیں ہٹا کر آپ کی جان بچ سکتی ہے تو کپتان نے وسیم اکرم پلس کو عہدے سے ہٹانے میں زرا بھی دیر نہیں کی۔ 3 اپریل کو عدم اعتماد کیلئے ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس ملتوی کرنے کی رولنگ دی جس کے بعد آخری گیند تک کھیلنے کے دعویدار کپتان نے چند منٹ بعد ہی قومی اسمبلی تحلیل کرکے ایک مرتبہ پھر راہ فرار اختیار کیا۔ اب بہت دیر ہو چکی تھی اور بھاگنے کے آپشنز ختم ہوچکے تھے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سوموٹو لیتے ہوئے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔ پانچ روز تک سماعت جاری رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو کپتان کی حکومت کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے اسمبلی بحال کردی اور 9 اپریل کو عدم اعتماد پر ہر صورت ووٹنگ کرانے کا حکم صادر فرمایا۔
9 اپریل کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق عدم اعتماد کیلئے اجلاس بلایا گیا تو پوری قوم کی نظریں پارلیمنٹ پر تھیں لیکن حکومت نے کپتان کے اشارے پر پورا دن وقت ضائع کردیا لیکن ووٹنگ سے گریز کیا۔ آخری لمحات پر کپتان کو پیغام بھیج دیا گیا کہ اگر رات بارہ بجے سے پہلے عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرائی گئی تو غلطی کے مرتکب سرکردہ رہنما توہین عدالت کے جرم میں جیل جائیں گے، اس دوران بارہ بجے سے کچھ دیر قبل سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تالے کھول دیے گئے، عدالت عظمیٰ کے احاطے میں قیدیوں کی ایک وین بھی کھڑی کردی گئی۔ اب کپتان کو ہوش آگئی کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہے اور فرار ہونے کے راستے مخدوش ہوچکے ہیں۔ بارہ بجنے کو چند منٹ باقی رہتے تھے تو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا، جس کے بعد سابق اسپیکر ایاز صادق نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کرادی اور کپتان وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوگئے۔ یوں آخری گیند تک کھیلنے کے دعویدار کپتان کی جھوٹی کہانی دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی۔