وزیر اعظم و فوج میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر پیدا ہونے والے تنازعے پرایک صاحب نے فرمایا:
“حیرت یہ ھے کہ سارے سول سپرمیسی کے علمبردار اس بات پر خوش ہیں کہ فوج اور وزیر اعظم میں لڑائی ھے، اور اب وہ سارے فوج کے پیچھے کھڑے ہیں ، منافقت سی منافقت ھے”۔
اس پر میں نے یہ تبصرہ کیا:
”سر میں بھی خوش ہونے والوں میں شامل ہوں لیکن اس کی وجہ بھی عرض کردوں، ریاست کے اداروں اور میں رشتہ بھائی بہن کا ہوتا ہے بہن اور بھائی کا غیر اخلاقی دنیا کے کسی بھی حصے میں جائز نہیں ہوتا”۔
بات یہ ہے کہ یہ حکومت اسی تعلق کی پیداوار ہے۔گذشتہ تین برسوں سے ایک صفحے کا دعویٰ کرنے والی حکومت پوری اپوزیشن کو للکار رہی تھی اور اس کے “وہ” بھی جہاں ضرورت پڑی ہر جگہ ان کے آواز پرلبیک کہتے رہے اور اسی رشتے کی وساطت سے پورے گھر کے قبضے کی دعویداربن گئی۔ویسے ایسی ناجائز اولاد سے نہ ان کے ماں باپ کو فیض ملتا ہے اور نہ دیگر گھروالوں کو۔
ویسے نواز شریف بھی حسب ضرورت سیاسی طور ایسے ہی رشتے استوار کرکے آگے بڑہتے رہے ، لوگ کہتے ہیں کہ کہ ابّا ضیاء و امّاں جیلانی پُرانی بات ہے لیکن بھول جاتے ہیں کہ ابّا جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں آنے والی پہلی سویلین حکومت کے خلاف ابّا جنرل ضیاء الحق کے مقبرے کی چیف مجاوری کا اعزاز بھی انہیں کا تھا۔
جب تک اس مجاوری کے دوکان فائدہ مند تھی وہاں دھونی رمائے بیٹھے رہے اور اسی کے بل پرجنرل ابّاجی کے دئیے ہوئے شرکت اقتدار کے فارمولے کے ذریعے غلام اسحٰق خان کے ذریعے بینظیر حکومت کو برطرف کرانے میں بھی ان کا کردار ادا لیلائے اقتدار سے ہمکنار ہوئے۔
یہ الگ بات ہے کہ دو فقیر ایک گدڑی میں سو سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک پر ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، اس لئے اسی تخت سے انہی غلام اسحق خان کو بے دخل کرنے کے لیے اس سے بلا شرکت غیرے حکمرانی کے لیے جنگ مول لینا بھی یاد ہے، نتیجے میں جنرل وحید کاکڑ کے ہاتھوں چھڑی نے دونوں “شریر بچّوں” کو گھر بھیج دینا سب کو یاد ہے؟
بعد میں جب مجاوری فائدہ مند نہ رہی تو تبدیلی عقیدہ کے اعلان کے باوجود صرف اور صرف اپنے دور حکومت یا فوجی حکومتوں کے دور میں میں سولین بالادستی کا جھنڈا اُٹھا تے رہے ۔۔ لیکن اقتدار سے باہر دوسری سولین حکومتوں کے دور میں رات کے اندھیروں میں چھوٹے بھائی کی جنرلوں کے در پر حاضری اور سولین حکمرانی کے چیمپین کالا کوٹ پہن کر دوسری سولین حکومت کے خلاف پہنچ جانا بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
آج بھی مسلم لیگ ن کے ٹوئیٹر ہینڈلر پر سے ڈی جی آئی آیس آئی کے معاملے میں سویلین وزیراعظم کے مقابلے میں فوج کے سربراہ کی حمایتی پوسٹ ہو رہی۔اسے کہتے ہیں نا Old habits die hard ۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ گھٹی کے اثرات انسان کی شخصیت وکردار میں رہتے ہی ہیں اسی لیے عسکری زچہ خانے میں سیاسی پیدائش اور وہاں ملنے والی گھٹّی کے اثرات اب تک ہماری سیاسی قیادت کے اوپر ہمہ وقت نظر آتے ہیں۔
ان کی ساری جدوجہد نہ تو سویلین بالادستی کے لئے تھی اور ہے، 1985 سے آج تک بغیر کسی استثناء کے صرف اور صرف اقتدار ذاتی بالادستی کا معاملہ ہے۔ جن کی بالادستی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جارہا ہے آج بھی آج بھی کسی نہ کسی سطح پر انہیں سے مزاکرات جاری ہیں۔
اپنی ذات سے عشق ہے سچّا باقی سب افسانے ہیں
2016 میں نواز شریف کی بیماری و لندن میں سرجری کی بناء پر طویل غیر حاضری کے دوران ان کی ولیعہد کے طور پر مریم کی کابینہ کے اجلاس کی صدارت عملی طور پر وزیراعظم کا کردار انجام دینا بذات خود گورنینس کے سارے قوائد کے چہرے پر لگایا جانے والا تھپڑ تھا۔
یہی معاملہ موجودہ حکومت کا ہے کہ پیداوار تو یہ بھی اسی ناجائز و غیر اخلاقی تعلق کی ہے لیکن اب چاہتی ہے کہ عدلیہ، نیب و فوج سب کے ساتھ ایسا ہی رشتہ قائم قائم کرکے سب کو اپنی مٹھی میں بھرلے لیکن مکمل بالادستی ۔ ہنوز دلی دور است۔
ذاتی طور پر نواز شریف اور عمران خان دونوں ایک جیسے آمرانہ مزاج کے حامل ہیں دونوں سو فیصد مطلق العنان حکمران بننے کے خواہشمند ہیں ۔ عمران کا مسئلہ یہ ہے کہ اب وہ اقتدار میں ہیں الیکشن کمیشن ، سے لیکر عدلیہ، فوج و احتساب کے ادارے اپنے زیر دست دیکھنا چاہتے ہیں۔
گلیئاں ہو جان سنجیاں، تے وچ مرزا یار پھرے
لیکن چونکہ نوازشریف 1981 سے اب تک اقتدار کی راہداریوں کی شناوری کا چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں اس لئے اس تجربے سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی وجہ سے وہ پھر بھی ایک انتہائی ناتجربہ کار اور سیاسی و انتظامی طور پر نوآموز عمران خان کے مقابلے میں بہتر نظر آتے ہیں۔
اگر عمران خان شریف کی طرح اقتدار کی راہداریوں کے آس پاس نواز پندرہ بیس سال گذار لیں گے تو یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھ لیں گی لیکن وہ طبعی کیلنڈر کے لحاظ سے 69 سالہ ہیں اور مگر جسمانی طور پر توان عمران خان کے پاس سیکھنے کا شاید اتنا وقت نہیں ہے۔
عمران کی غلطیوں میں سے سب سے بڑی غلطی غالباً 2013 میں کے پی کے کی وزارت اعلی قبول نہ کرنا بھی تھی، ورنہ ایک آرام دہ اکثریت سے ساتھ صوبائی حکومت اسے یقیناً انتظامی امور سے آشنا کرکے مرکز میں حکومت سنبھالنے میں مدد دیتی ۔لیکن ان کی نرگسیت انہیں وزیراعظم سے کمتر کسی عہدے کو قبول کرنے پر آمادہ نہ کرسکی ۔
اب مکمل طور پر ناتجربہ کار وزیراعظم کی کاروبار حکومت کو سمجھنے میں ناکامی کا اشتہار ملک قوم کے ہر شعبے میں نظر آرہے ہیں۔ کیا انھیں دوسرا موقع مل سکتا ہے؟ بظاہر مشکل لگتا ہے، لیکن پاکستان کی سیاست میں کسی کو بھی مکمل طور پر رائٹ آف کردینا بہت بڑی حماقت ہوتی ہے۔ جسے دھرانے کا خطرہ مول لینے کا ارادہ نہیں ہے۔
اگر کوئی بھی رشتہ اخلاقی و قانونی طور پر ہو تو ہم اس کی حمایت کریں اور اسے خوشگوار زندگی کی دعاء بھی دیں گے۔لیکن جب ہمارے بے وردی حکمران بھی شارٹ کٹ کے لیے ناجائز رشتوں کے سہارے گھر بسائیں (وہ گھر کسی نہ کسی حقدار کے ساتھ زیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے) تو ایسا رشتہ ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔ اسی لیے آرٹیکل 6 کا اطلاق صرف صاحب بندوق ہی نہیں ان کے ساتھ صندوق و شیروانی کے حجلہ میں مزے کرنے والوں بھی وہی سزا ملنی چاہیے ۔ہمارے ہاں آرٹیکل 6 کا اطلاق ایک فرد پر کرنے کی بات ہوتی اور بھیڑیوں کے پورے غول کو ملک و قوم کو بھنبھوڑنے کے لئے کھُلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سارا آرٹیکل 6 ایک فرد پر کیوں۔۔ ان سیاسی و سماجی بھیڑیوں پر کیوں نہیں جو صاحب بندوق کے ہاتھوں مغوی و یرغمال قوم کے جسم و روح کو بھنبھوڑنے کے لئے آجاتے ہیں بعد میں پاک و پوتر بن کر ملک وقوم کی قیادت کے دعویدار بھی بن جاتے ہیں۔اس سقم کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ کسی بھی طالع آزما کے ساتھ بہتی گنگا میں اشنان کرنے کے لئے بہت سے وقت کے پجاری آجاتے ہیں جانتے ہیں اگر کبھی قانون کا
اگر ایک بار آرٹیکل 6 کی کی سزا کا اطلاق سارے گروہ بشمول سہولتکاروں پر بھی ہونے لگے جن میں فوجی، منصفین بھی اور سیاسی و سماجی طبقے کے بھیڑیئے بھی ہوںتو ایک وقت یہ آئے گا کہ اس ملک میں کسی کے لئے ملک وقوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو گی۔ اگر کسی نے ہمت بھی کی تو کوئی اس کا درست و بازو نہیں بنے گا۔
جنرل مشرف کی مثال سامنے ہے کہ اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت تو کسی میں بھی نہ تھی. لیکن پتلی گردنوں والوں کو کس کھاتے میں چھوڑ دیا گیا؟
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر فلاں بچ گیا تو باقی و سزا کیوں ؟؟ یہ ایک انتہائی ذاتی مفادات پر مبنی دلیل ہے، یادرہے دنیا کا کوئی قانون سب کو سزا نہیں دے سکتا، جو بھی قانون کے ہتھّے چڑھ سکتا ہے اسے سزا دیتے رہیں اسی طرح آہستہ آہستہ صفائی ہو ہی جائے گی۔
کیونکہ قانون و آئین کو بنانے والے بھی ملک و قوم کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں شامل ہیں اور قانون سازی کے عمل میں جان بوجھ کر ایسے سقم چھوڑ دئیے جاتے ہیں کہ اس پر کبھی بھی مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاسکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے وسلم کے خطبہ خطبہ حجۃ الوداع جن اصولوں کے اعلان کیا گیا تھا ان پر سب سے پہلے خاندان و قبیلے پر نافذ کیا تھا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ فوجیوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہے اور ان کے مارے ہوے شکار کو بھنبھوڑنے والے بلڈی سولیین و منصفین پر نہ صرف کھلا این آر او بلکہ آئندہ بھی نئے کپڑے پہن کر ملک وقوم کو لوٹنے و بھنبھوڑنے کی کھلی چھٹی۔
اگرملک کو اس ناجائزحُکمرانی سے ہمیشہ کے لیے بچانا ہے تو عوام کے شعور میں اضافے کے ذریعے بہتر حکمران منتخب کرکے ملک و قوم کو حقیقی جمھوری حکمرانی عطا کرنے کا خواب پورا کیا جائے۔
یہ فری فار آل نہیں چلے گا۔۔۔۔۔