یادش بخیر اُردو مرکز لندن میں ہمارےفیض صاحب بیروت سے تشریف لائے ہوئے تھے اور حسب معمول نیازمندوں کے ہجوم میں رونق افروز تھے۔ ہمارے سندھ کے ایک بزرگ جلاوطن رہنما نے فرط عقیدت میں فیض اور اقبال کے حوالے سے ایک فقرہ کہا توفیض صاحب نے اپنی روایتی ملائمت کے ساتھ ایک بات کہی جو تنقید کی بڑی بڑی کتابوں پر بھاری ہے۔ فیض صاحب نے کہا تھا: “اٹھارویں صدی میر کی صدی تھی، انیسویں صدی غالب کی صدی تھی اور بیسویں میر کی۔بس ہم کس قطار شمار میں۔
میر پر بہت لکھا گیا۔ جعفر علی خان اثر، عبدالباری آسی خواجہ احمد فاروقی، محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی، عبادت بریلوی، گوپی چند نارنگ اور بہت اہم لوگ میر پر لکھنے والوں میں ہیں مگر ہمارے زمانے میں شمس الرحمن فاروقی کی کتاب “شعر شور انگیز ” میریات کے ضمن میں سب سے اہم کتاب تسلیم کی گئی ہے۔
شب خون میں اشعار غالب اور میر کی تشریح و تفسیرکا جب آغاز ہوا تو بعض حلقے بہت خوش نہیں تھے مگر فاروقی لگے رہے۔ “شعرشور انگیز ” کی چار جلدوں میں میر کے سارے دواوین سے1284اشعار کا انتخاب ہوا جس کی تشریح میں جدید و قدیم شعریات کے امتزاج کا عملی استعمال واطلاق شمس الرحمن فاروقی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔
ایک بہت بڑا کام محمد حمید شاہد نے سرانجام دیاہے۔ پیش نظر کتاب”انتخاب غزلیات میر”502غزلیات پر مشتعل ہے جس کے اشعار کی تعداد 4212 بنتی ہے۔ فاروقی نے منتخب اشعار کو شعر شور انگیز میں شامل کیا تھا مگر محمدحمیدشاہد نے ان تمام غزلوں کا انتخاب کرکے میر کے عشاق کے لیے یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ دیکھ سکیں کہ زمانے کے بڑے نقاد نے جس پوری غزل سے ایک شعر منتخب کیا ہے تو کیوں اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بعص اچھے شعر رہ گئے ہوں یا ان کی وضاحت کی ضرورت نہ ہو۔ آج کے افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد اور ماضی کے گمشدہ نظم نگارمحمد حمید شاہد نےبہت محنت سے میر کے تمام دواوین سے ان غزلیات کی جمع آواری کی جن کے کچھ اشعار “شعر شور انگیز ” کا حصہ ہوئے تھے۔محمد حمید شاہد نے ایک زبردست کام یہ کیا اس انتخاب کے آخر میں نئے زمانے کے قارئین کے لیے فرھنگ مہیا کر دی ہے۔اس فرھنگ کا مطالعہ قاری کو اس لسانی فضا کے قریب تر کر دے گا جس میں میر اپنے زمانے میں رہ رہے تھے۔
عہد حاضر میں شمس الرحمن فاروقی ایک نقاد ایک محقق ایک مترجم ایک شاعر ایک مدیر ایک ماہر لسانیات کا نام نہیں ہے ایک عہد کانام ہے۔ محمدحمید شاہد کا یہ استحقاق ہے کہ فاروقیات پر ان کے کام کے سبب ان کو سب سے اہم فاروقی شناس سمجھا جائے۔مفصل مقدمہ کے ساتھ ایک اور خاصے کی چیز اس انتخاب کے آخر میں کتابیات کی فہرست ہے جس سے محمد حمید شاہد نے استفادہ کیا اور جو میر یات کا بنیادی حوالہ ہیں۔
انتخاب میر کو ہماری مصورہ بیٹی سمیعہ سعد نے اپنی بنائی ہوئی تصویروں سے مزین کیا ہے اللہ توفیق ارزانی کرے ۔
محمد حمید شاہد نے جس محنت اور قرینے سے یہ انتخاب مرتب کیا ہے اور بک کارنر کے گگن شاہد اور امر شاہد نےجس محبت اور سلیقے سے طباعت کا اہتمام کیا اس مشترکہ مساعی نے اس کتاب کو میر تقی میر کے عشاق کے لیے ایک قیمتی دستاویز بنا دیا ہے ۔
(افتخار عارف کی یہ تحریر “انتخاب غزلیات میر” میں بہ طور دیباچہ شامل ہے)