سن 2013 کے اوائل میں ملا عمر بیمار ہو گئے انہیں شدید کھانسی اور اُلٹیوں کی شکایت تھی اور انہوں نے جبّار عمری کو بتادیا تھا کہ اب ان کا آ خری وقت قریب آ گیا ہے۔ جبّار عمری نے ان کے لئے ان کی پسندیدہ شوربے کی یخنی بنا کردی تاکہ ان کے جسم میں کچھ توانائی آ سکے لیکن وہ کچھ کھانے سے قاصر رہے، ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی تقدیر کو قبول کر چکے ہیں، جبّار نے انتہائی ضد کی کہ انہیں ڈاکٹر کے پاس لیجائیں بلکہ استاذ (جو ٹیکسی ڈرائیور تھا) نے انہیں علاج کے لیے پاکستان لیجانے کی بھی پیشکش کی، لیکن انہوں نے انکار کردیا ۔ اور یوں 23 اپریل، 2013 کو ملا عمر کا انتقال ہو گیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جبّار عمری کے مطابق اس دن کچھ ایسا ہوا جو اس نے کبھی نہیں دیکھا ۔۔ کہ خشک اور گرم افغانستان کی سرزمین پر اچانک ہی شدید طوفان اور ژالہ باری ہوئی ۔ بعد میں مجھے امریکی فوج کے ریکارڈ سے پتہ چلا کہ اس دن کے غیر متوقعہ شدید طوفان و ژالہ باری کی وجہ سے قندہار کے فوجی مستقر پر کھڑے 80 سے زاید امریکی ہیلی کاپٹروں، جو کہ بریگیڈ کے کل ہیلی کاپٹروں کی تقریباً نصف تعداد تھی، کو نقصان پہنچا۔
ان کی وفات کے بعد رات کو جبّار عمری اور دو ساتھیوں (غالبا ساتھ والے گھر میں مقیم دو بھائی جو مُلا عمر کی اصل شناخت سے واقف تھے) نے ایک خفیہ جگہ بغیر کفن کے دفنا دیا ۔ پھر عمری کوئٹہ جاکر مُلا عمر کے سوتیلے بھائی عبدالمنان اور بیٹے یعقوب سے ملا اور ان کو تدفین کے مقام پر اپنے ساتھ واپس لایا ۔ حالانکہ جبّار عمری نے مُلا عمر کی تدفین کے وقت اندھیرے میں ویڈیو بنائی تھی لیکن ان نے بیٹے نےیعقوب نے قبر کُشائی پر اصرار کیا۔ تاکہ وہ اپنے والد کی میت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔ یعقوب کے لئے اپنے والد کی قبر کھود کر ان کی میّت دیکھنا خاصا جذباتی مرحلہ تھا، سترہ دنوں کے بعد قبر کو کسی نامعلوم فرد (جبّار نے اس کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کردیا) کی درخواست پر دوبارہ کھولی گئی اور اس مرتبہ لکڑی کے تابوت میں دفن کی گئی۔
جبّار عماری، یعقوب اور عبدالمنان نے اس اُمید پر کہ شاید مُلاعمر نے ان کے لئے لیے کوئی پیغام چھوڑا ہو ان کے سارے سامان کی تلاشی لی لیکن ملا عمر نے کوئی وصیت یا اپنے اہل خانہ و تحریک کے لیے ہدایت بھی نہیں چھوڑی۔
اس مرحلے سے فارغ ہو کر جبّار عمری ملا عمر کی موت کی اطلاع، طالبان کے اس وقت کے انتظامی سربراہ اختر منصور کو دینے پاکستان گیا، طالبان کی اعلی قیادت کے دس افراد کے سامنے نہ صرف انکی موت کی خبر بلکہ گذشتہ بارہ سال کی تفصیل بھی بیان کی۔
انہوں جبّار سے پوچھا کہ کیا ملا عمر نے اپنا کوئی جانشین نامزد کیا؟ لیکن اس کا جواب ان کے لئے مایوس کُن تھا کہ ملا عمر نے طالبان کے مستقبل و جانشینی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
اس اجلاس میں شریک چار مذہبی علماء کے کئی گھنٹوں کی غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا کہ اختر منصور بطورطالبان کے انتظامی سربراہ اہنے فرائض انجام دیتے رہیں لیکن انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ فی الوقت ملا عمر کی وفات کا اعلان نہ کیا جائے اور نہ ہی اختر منصور کو “سُپریم لیڈر “ کی حیثیت دی جائے۔
ان کی توقع تھی کہ امریکہ جلد ہی شکست کھا جائے گا کہ امریکی صدر اوباما پہلے ہی افواج کے انخلاء کی باتیں کررہا ہے، انہیں خدشہ تھا کہ اس وقت ملا عمر کی موت کے اعلان سے جہاد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تمام حاضرین اس فیصلے سے خوش نہیں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ لیڈرشپ مکمل دیانت اور شفافیت کا مظاہرہ کرے لیکن علماء اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو رے۔ گو بعد میں یہ فیصلہ انتہائی متنازعہ ثابت ہوا اور طالبان کے ٹکڑے ہوتے ہوتے رہ گئے ۔
آیندہ دوسال کے دوران طالبان کے درمیان افواہیں پھیلنے لگی، اور قیادت پر خبرچھُپانے کے الزام لگنے لگے، ایک گروپ نے تو منصور اختر پر ملا عمر کے قتل کاالزام لگانا بھی شروع کردیا۔ آخرکار 2015 میں افغان انٹیلیجنس کو بھی ملا عمر کی موت کی سُن گُن مل گئی اور انہوں نے اعلان کردیا کہ ملا عمر دوسال پہلے ہی وفات پاچُکے ہیں۔
آخر کار طالبان بھی اس خبر کی تصدیق پر مجبور ہو گئے، اس پر طالبان میں بھی جانشینی کا بحران شروع ہو گیا، کہ طالبان کے اندر کچھ لوگوں نے اختر منصور پر شبہ کرنا شروع کردیا تھا۔ مگر یہ اختلافات خود بخود اس وقت ختم ہو گئے جب اختر منصور ایک امریکی ڈرون حملے میں شھید ہو گئے اور مذہبی عالم مولوی ہیبت اللہ نے قیادت سنبھال لی۔ملا عمر کی طرح مولوی ہیبت اللہ بھی زاہد اور کسی قسم کے ذاتی عزائم سے پاک تھے۔ اس ہی وجہ سے وہ تحریک کو اپنے گرد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گیے۔
ایک طرف افغان انٹیلیجنس نے دعوی کیا کہ وہ کراچی کے ایک ہسپتال میں وفات پاگئے، لیکن اندرونی طور پر ایجنسی کو بھی ان کے زابل میں موجودگی اور جبّار عمری سے تعلق کے بارے میں سُن گن مل چُکی تھی۔ 2015 میں مختلف میڈیا بشمول نیویارک ٹائمز نے یہ اندازے لگانے شروع کردئیے تھے کہ ملا عمر زابل میں وفات پاچُکے ہیں۔
زابل کے قبائلی لیڈر عطا جان اور افغان انٹیلجنس ایجنسی کے اعلی حُکام کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے اس سے اور مقامی انٹیلیجنس حُکام سے کہا تھا کہ جبّار عمری سے رابطہ کریں اور اس کی زبان سے مُلا عمر کی زندگی و موت کی سچّی کہانی کے بدلے اسے ترکی یا سعودی عرب جانے کے لئے محفوظ راستہ دیا جائے۔ لیکن اس وقت تک جبّار عمری کوئٹہ منتقل ہو چُکا تھا جہاں طالبان نے اس کی رہائش کا انتظام کر دیا تھا۔
لیکن کچھ عرصے کے بعد جبّار عمری معمول کی زندگی گذارنے کے لئے واپس زابل چلا گیا ۔ زابل پولیس کے مطابق انہوں نے اسے قالات میں معمول کی چیکنگ کے دوران اسلحہ سمیت گرفتار کیا تھا۔ اسوقت وہ اس کی اصل شناخت سے بے خبر تھے۔ جیل میں جبّار عمری نے صدر اشرف غنی کی معافی و ترکی یا سعودئ عرب کے لئے محفوظ راستے کی پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اپنی حقیقی شناخت ظاہر کردی لیکن اس وقت وہ اپنی پیشکش سے پھر گئے۔ جبّار عمری کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کابل منتقل کردیا گیا اور اس وقت سے آج تک وہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی حراست میں ہے۔