افغانستان کے مرکزی بینک کے سربراہ اجمل احمدی کابل سے فرار ہوکر سنگاپور پہنچ گئے ہیں ، انہوں نے افغان فوج کی لڑنے کی صلاحیت اور ملک و قوم سے وفاداری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے احمدی کا کہنا تھا صدر اشرف غنی کی خوش فہمیوں اور ان کے ناتجربہ کار مشیروں نے افغانستان کو تباہی و بربادی اور زوال کی راہ پر ڈال دیا ہے
اجمل احمدی نے دعوی کیا کہ طالبان لشکر کابل شہر کو چاروں اور سے گھیر کر دروازوں پر کھڑے اگلے احکامات کا انتظار کر رہے تھے اور میں منی چینجروں سے مل کر انہیں جھوٹی تسلیاں دے رہا تھا کہ پریشان نہ ہوں اور گبھرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
گورنر اجمل احمدی نے یہ کہا کہ امریکی ڈالر کی فراہمی بند ہو رہی ہے لیکن میں طفل تسلیاں دئیے جا رہا تھا اور پھر انہوں نے فوجی جہاز میں کابل سے فرار کی کہانی سنائی
احمدی نے بتایا کہ ”اتوار کو صبح سے افواہوں کا بازار گرم تھا تشویشناک رپورٹیں تیزی سے آرہی تھیں۔ میں افراتفری میں بینک سے نکلا اور اپنے ماتحتوں کو ضروری ہدایات دیں انہیں مزید کچھ بتائے بغیر فرار ہونا مجھے احساس ملامت کر رہا
کابل ائیرپورٹ پر قیامت کا مناظر تھا بہت سے بڑ بولے رہنما ایک دوسرے سے منہ چھپاتے ہوئے وہاں پھر رہے تھے
کہ وہ دوسروں کو بتائے بغیر فرار ہونے چلے تھے غنی تو افغانستان سے پہلے ہی شام کوبھاگ چکا تھا جس کے بعد طالبان بلا کسی روک رکاوٹ ایک گولی چلائے بغیر کابل میں داخل ہوئے گئے۔ احمدی نے بتایا کہ دور دراز صوبائی دارالحکومت زرنج پر قبضہ کرنے کے بعد حالات بگڑنا شروع ہو گئے تھے لیکن صرف ایک ہفتے میں سب کچھ زمین بعد ہوجائے گا اس کا ہمیں کچھ علم نہیں تھا۔ اجمل احمدی کو ایک سال قبل افغانستان کے مرکزی بینک کا قائم مقام گورنر مقرر کیا گیا تھا ، اس سے قبل وہ امریکی مالیاتی اداروں ، عالمی بینک اور نجی ایکویٹی میں کام کرچکے تھے۔
احمدی نے کہتا ہے کہ “ابھی یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ افغان فوج ایک گولی چلائے یا کھائے بغیر ہتھیار ڈال چکی ہے اور تحلیل ہو چکی ہے ایسی فوج جس کی 20 برس کی تربیت پر 20 ارب ڈالر خرچ کئے گئے تھے ” یہ ایسی سازش ہے جو میری
سمجھ سے باہر ہے”
جیسے جیسے طالبان نے کابل کی سمت پیش قدمی کی ، افغانستان کی کرنسی مارکیٹ میں خوف و ہراس پھیلتا گیا ہے ، خاص طور پر جب مرکزی بینک کو بتا دیا گیا کہ اسے مزید ڈالر نہیں ملیں گے ، افغانستان کی کرنسی ، افغانی کی قیمت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
احمدی نے بتایا کہ جس کمرشل مسافر بردار جہاز میں میری نشست مخصوص تھی وہ کھچاکچھ بھرا ہوا تھا اس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ایک جاننے والا فوجی افسر مل گیا اس نے مجھے فوجی طیارے میں دھکا دے کر سوار کرایا جس کی منزل کا کچھ پتا نہیں تھا۔”وہاں بے پناہ رش تھا،گولیاں بھی چلائی جارہی تھیں مجھے صرف اتنا یاد ہے کسی نے مجھے جہاز میں دھکیل دیا اور میں کابل کے جہنم سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا